محنت کرنے، کرپشن چھوڑنے سے ملک چلے گا

Aug 19, 2023

مقبول احمد قریشی، ایڈووکیٹ


  کسی بھی شعبہ میں مثبت کارکردگی محنت سے ہی کارآمد اور مطلوبہ نتائج حاصل ہوتے ہیں جبکہ فارغ بیٹھنے اور محض زبانی خیالی پاؤ پکانے اور جمع تفریق کرنے سے بلند معیار کے منصوبے حقیقت کا روپ نہیں دھارتے۔ اس سادہ مثال سے یہ نکتہ واضح کرنا مقصود ہے کہ کوئی قابل قدر مفاد حاصل کرنے کی خاطر ضروری اہلیت بروئے کار لانا بنیادی عوامل ہیں اگر ان سے گریز کر کے متوقع فوائد حاصل کرنے کا تصور کیا جائے تو ایسی تجویز عملی طور پر محض خواب تک ہی رہتی ہے۔ بر اعظم ایشیا کے کئی ممالک اور ترقی یافتہ دنیا کے لا تعداد لوگ مذکورہ بالا اصول زندگی سے خوب آگاہ ہونے اور اپنے معمولات محنت سے سرانجام دینے سے دیگر غافل اور کاہل اقوام کو سینکڑوں سال پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔


اس طرح ان پسماندہ لوگوں میں اہل وطن کی بھی اکثریت کا شمار آئے روز ذرائع ابلاغ میں پڑھنے اور سننے میں آتا ہے۔ عملی کارکردگی سے پہلو تہی کی یہ روش ہمارے لئے بالخصوص معاشی میدان میں بہت مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ جس کے نتیجہ میں گزشتہ کئی سال سے ہمارے ارباب اقتدار کو اکثر اوقات غیر ملکی مالیاتی اداروں اور خوشحال ملکوں سے بڑی رقوم کے قرضے اور امداد لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ابھی چند ہفتے قبل چند دوست ممالک کی جانب سے آخری ایک دو روز میں اربوں ڈالر کی فراہمی سے یہ ملک دیوالیہ ہونے سے بمشکل بچ سکا۔ لیکن اس مرحلہ پر بھی آئی ایم ایف نے بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے کے علاوہ بعض دیگر کڑی شرائط عائد کیں۔  سٹیٹ بنک آف پاکستان نے اب شرح سود میں مزید اضافہ بھی کر دیا ہے۔ 
جب ہم بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے ان کی شرائط پر بڑی رقوم کے قرضے لیتے ہیں تو ان قرضوں کی مع سود مقررہ مدت میں واپسی بھی لازم ہوتی ہے۔ لیکن ایسی شرائط پورا نہ کرنے کی صورت میں ہماری ساکھ اور شہرت بداعتمادی سے ملکی وقار و احترام پر نقصان دہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایسی افسوس ناک صورت حال گزشتہ چند ماہ کے دوران بین الاقوامی میڈیا کی معاشی خبروں میں بہت نمایاں رہی۔ بالآخر 30 جون 2023ء کو اس اذیت ناک مرحلہ کے خاتمہ سے نجات کی نوید ملی اس خبر خیر پر ہمارے حکمران طبقہ اور لوگوں کو اللہ کے حضور عاجزی اور انکساری سے شکر گزار ہونا چاہئے۔


ملک کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لئے قائم ہونے والی وفاقی اور صوبائی نگران حکومتوں کو نہایت توجہ سے اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہوں گی۔ روزانہ قومی اخبارات کا مطالعہ کرنے والے حضرات و خواتین جانتے ہوں گے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے متعدد امور میں آئے روز کروڑوں اور اربوں روپے کی کرپشن کے واقعات پر مبنی خبریں شائع ہوتی ہیں۔ ان میں متعلقہ سرکاری حکام اور ماتحت ملازمین کو تو اس نوعیت کے واقعات کا کافی حد تک علم اور اطلاعات کی خاصی شد بدھ ہوتی ہے ایسے حالات میں سرکاری رقوم کی خورد برد جلد منظر عام پر لا کر اصل ملزمان کی قانونی گرفت سے مسروقہ مال غصب کردہ مالی رقوم یا دیگر پبلک فنڈز واپس لینے میں تاخیر کیوں کی جاتی ہے۔؟


اہل وطن کے جوانوں کی اکثریت ما شاء اللہ ذہنی اور جسمانی طور پر تندرست، توانا، جفاکش اور انسانی قوت و ہمت پر مبنی قابل قدر روایات کی حامل ہے۔ اس قدرتی کرم فرمائی سے صفات مذکور کی بنا پر یہاں کے نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے افراد کی خوبیوں اور صلاحیتوں کے مقابلہ میں کسی طرح کم اور محدود نہیں ہے۔ لہٰذا ہمارے نوجوانوں اور سینئر حضرات کو اپنی سابقہ غلطیوں اور خامیوں کو ترک کر کے اپنے شعبوں اور اداروں میں خصوصی توجہ اور محنت کو ترجیح دے کر اپنی زندگی اور ملک کی معاشی حالت کو جلد بہتر کرنے میں کوئی غیر قانونی رکاوٹ اور کوتاہی آڑے نہ آنے دی جائے۔ یاد رہے کہ سیاست میں دلچسپی اور عملی حصہ لینے والے نوجوانوں اور دیگر حضرات و خواتین کو کسی طور ملکی آئین و قانون سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔ نیز یہ امر بھی واضح رہے کہ انتخابات میں حریف نمائندے اور امیدوار حضرات و خواتین بھی اسی سر زمین کے باسی ہوتے ہیں۔ ان سے سیاسی میدان میں مقابلہ وسعت قلبی، مہذب اصولوں اور حوصلہ مندی سے کیا جائے۔ اپنی سیاسی تقریروں اور بیانات میں شائستہ اقدار اور عزت و احترام کے ساتھ مختلف امور میں مثبت دلائل سے حمایت یا تردید کی جائے۔ اس میدان میں وہ بھی آپ کی طرح انتخابی مہم پر امن انداز سے چلانے اور حتی الوسع زیادہ لوگوں کے ووٹ لینے کے خواہاں ہیں۔ لہٰذا سیاسی خطابت میں دیگر امیدواروں پر بے بنیاد الزام تراشی اور نا جائز کردار کشی کی حرکات سے اجتناب کیا جائے ایسے محتاط طرز عمل سے باہمی کشیدگی اور لڑائی جھگڑوں کے واقعات کے امکانات کافی حد تک کم ہو جاتے ہیں۔


دوبارہ عرض ہے کہ ہمارے ملک کے محنتی اور ذہین کثیر تعداد میں نوجوانوں کی افرادی قوت کو ان کی تعلیمی ڈگریوں، صلاحیت کے مطابق روز گار یا ملازمت وطن عزیز میں ہی فراہم کرنے پر توجہ دی جائے۔ یہ امر بہت افسوس ناک ہے کہ ان کی خاصی قابل ذکر بلکہ لاکھوں میں تعداد یہاں سے ناکام اور مایوس ہو کر دیگر ممالک میں جانے پر مجبور ہو رہی ہے۔ جبکہ غیر ممالک میں بھی روز گار کے مواقع آسانی سے دستیاب نہیں ہوتے کیونکہ وہاں اہل مقامی افراد کو زیادہ تر سرکاری ملازمت اور پرائیویٹ اداروں میں قبول کرنے پر ترجیح دی جاتی ہے۔ اس طرح ملک کے مختلف شعبوں میں معیاری تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوان بعض اوقات سالہا سال ملکوں ملکوں خجل خراب ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ 

مزیدخبریں