سستی بجلی …… لیکن کب تک؟ 

   سستی بجلی …… لیکن کب تک؟ 
   سستی بجلی …… لیکن کب تک؟ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 پاکستان کے عوام جن حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں اگر کہیں سے ایک چھوٹی سی اُمید کی کرن بھی نظر آئے تو بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی امیدیں ایک اچھے مستقبل کی نوید سمجھ کر قبول کر لی جاتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے ابھی تک اس بہتر مستقبل کا ایسا راستہ جو منزل تک جاتا ہو نظر نہیں آ رہا۔ حال ہی میں بلوم برگ میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے، جس میں پاکستان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اِس وقت پاکستان میں ایشیائی ملکوں میں سب سے زیادہ مہنگائی ہے۔ پاکستان میں بجلی کا بل گھروں کے ماہانہ کرائے سے زیادہ ہو چکا ہے۔جولائی 2024ء میں بجلی کی قیمت میں 18فیصد اضافہ ہوا۔ بلوم برگ نے ایک سچ اور بتایا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے پروگرام کے حصول کے لئے بجلی مہنگی کی ہے۔ بلوم برگ ایک اور حقیقت بھی سامنے لایا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر مانگ رہا ہے۔  یہ سن کر تو اب ڈر لگتا ہے کہ کیا یہ وہی پاکستان ہے جو جنرل ایوب خان کے دور میں ایشیاء میں سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والا ملک تھا اور آج ہماری   یہ  حالت ہو گئی ہے، ہم بجلی اتنی مہنگی بیچ رہے ہیں کہ ہمارا صنعتکار صنعتیں بند کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔فیصل آباد میں آدھی سے زیادہ ٹیکسٹائل انڈسٹری بند پڑی ہے۔ اتنی مہنگی بجلی خرید کر تو بنگلہ دیش، بھارت کا مقابلہ بھی ممکن نہیں رہا ہے۔  بنگلہ دیش اور بھارت ہمارے مقابلہ میں بہت سستی بجلی بیچتے ہیں لہٰذا ان کا صنعتکار وہی چیز آدھی قیمت،بلکہ اس سے بھی کم پر تیار کرتا ہے جو ہماری فیکٹریوں سے دوگنا قیمت پر تیار ہو کے نکلتی ہے۔لہٰذا ہمارا صنعتکار،ہمارا کارخانے دار کیسے مقابلہ کر سکتا ہے۔ جنوبی کوریا، تائیوان، ملائیشیا، ویتنام سنگاپور کسی اور کی بات نہیں کر رہے۔اپنے ہمسایہ ملکوں بھارت اور بنگلہ دیش کی بات کر رہا ہوں جو ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوئے تھے۔بنگلہ دیش بھی 14اگست 1947ء کو (بطور مشرقی پاکستان)اور بھارت 15اگست 1947کو آزاد ہوا تھا۔ بہرحال انہی حالات میں ایک خوشخبری اچانک سننے کو ملی، تین مرتبہ کے ہمارے سابق وزیراعظم جناب میاں نواز شریف نے اپنی صاحبزادی مریم نواز شریف  صاحبہ کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کی اور اس میں انہوں نے خوشخبری سنائی کہ پنجاب کے عوام کو بجلی کے بل میں ایک بڑی رعایت ملے گی اور فی یونٹ 14روپے کم ادا کرنے ہوں گے۔ سنتے ہی دِل نے زندہ باد کا نعرہ بلند کیا، لیکن ساتھ ہی آگے سنا تو ساری امیدوں پہ پانی پھر گیا جب یہ سنا کہ یہ رعایت صرف اگست ،ستمبر کے مہینے کے لئے ہے۔ستمبر کے بعد ہمیں پھر پرانے نرخوں پر بل ادا کرنا ہو گا۔ بہرحال میاں نواز شریف صاحب اور مریم نواز شریف صاحبہ کا شکریہ کہ 500 یونٹ تک بجلی خرچ کرنے والوں کو اِن دو مہینوں میں کچھ رعایت عنایت فرما دی، لیکن خواہش تو یہی ہے کہ یہ مسئلہ مستقل بنیادوں پہ حل  ہو۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا کہنا ہے کہ یہ ریلیف کافی نہیں ہے یہ ریلیف عارضی نہیں مستقل ہونا چاہیے  اور یہ ملک گیر ہونا چاہیے، یعنی پورے ملک کو ملنا چاہیے ،ساتھ ہی انہوں نے ایک دھمکی بھی دی ہے کہ پاکستان میں اگر معاملات ٹھیک نہیں ہوئے، بجلی سستی نہیں ہوئی تو 28 اگست کو ملک گیر شٹر ڈاؤن ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اِس وقت ملک میں مہنگائی،بے روزگاری اور مہنگی بجلی کی وجہ سے حالات بہت خراب ہیں لیکن ایک ”خوشخبری“ اور بھی سننے کو مل گئی ہے۔ وہ ”خوشخبری“ بہت ہی بڑی ہے۔پتہ چلا ہے کہ حکومت بجلی 31 پیسے ”سستی“ کر رہی ہے۔ 31پیسے کی یہ ”مہربانی“اس لئے کہ جا رہی ہے کہ ہم اِس وقت جو بجلی پیدا کر رہے ہیں اس میں سے36فیصد بجلی پانی سے پیدا ہو رہی ہے، یعنی اس بجلی کی پیداوار کے لئے کوئی بیرونی یا ملکی کوئلہ کوئی ایل این جی، کوئی سوئی گیس، کوئی پٹرول یا ڈیزل کچھ نہیں خرچ ہو رہا۔ پانی استعمال ہو رہا ہے۔ اب یہ ”پانی کتنا مہنگا“ہے اندازہ لگا لیں کہ 36فیصد بجلی پانی سے بنانے کے باوجود ”صرف31پیسے“کی رعایت ملی ہے۔ ”خوشی کی بات“ہے وزیراعظم میاں شہباز شریف صاحب کا کہنا ہے کہ انہیں علم ہے کہ عوام بجلی کے بلوں کی وجہ سے بے حد پریشان ہیں۔ ان کا ”فرمانا“ہے ہمیں احساس ہے  کہ بجلی کے بلوں میں کمی کے بغیر ہماری صنعت اور زراعت دونوں کی ترقی ممکن نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ”بہتری کے لئے کچھ نہ کچھ“ضرور کریں گے۔ یہ بھی پتہ چلا  ہے کہ وفاقی حکومت 200یونٹ تک عوام کو جو رعایت دے رہی ہے اس کے لئے وفاقی ترقیاتی فنڈ سے50ارب روپے نکالے گئے ہیں، یعنی وہ 50ارب روپے جو ترقیاتی کاموں پر لگنے تھے وہ ”سستی بجلی کے نام پر آئی پی پیز“ کو دیئے جا رہے ہیں۔ صدرِ مملکت جناب آصف علی زرداری پاکستان کی ماضی کی سب سے بڑی پارٹی پیپلز پارٹی کے ”سرپرست“ہیں۔انہوں نے بھی عوام کی ”ہمدردی میں فرمایا“ہے کہ عوام پر بجلی کے بلوں کا مزید بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا۔ کوئی ایسا لائحہ عمل بنائیں کہ بجلی کے بل کم ہو سکیں۔انہوں نے ”حکومت کو مشورہ دیا“کہ وفاق اور صوبے عوام کو ریلیف دیں، کیونکہ بجلی کے بل اب عوام کی برداشت سے باہر ہو چکے ہیں۔ یہ کوئی اور نہیں کہہ رہا یہ صدرِ پاکستان کے الفاظ جناب آصف علی زرداری کہہ رہے ہیں، لیکن انہوں نے بھی ”کوئی حل تجویز نہیں کیا“

جناب صدر،جناب وزیراعظم،تین دفعہ کے سابق وزیراعظم اور خاتون وزیراعلیٰ پنجاب کی خواہشیں اپنی جگہ، لیکن وفاقی سیکرٹری توانائی نے  قائمہ کمیٹی برائے توانائی میں ایک بڑا ہی خوفناک، مگر ”سچا بیان“دیا ہے ان کا کہنا تھا کہ ”آئی پی پیز“ کو ادائیگیوں کا بوجھ عوام پر ہی پڑے گا۔ گردشی قرضوں کا سود  بھی عوام ہی برداشت کریں گے یہ سارا بوجھ ہم عوام پر ہی ڈالیں گے، لیکن یہ بیان تحریک انصاف کے ”پرانے رہنما ء“ اور پریس کانفرنس کرکے تحریک استحکام میں اگلی نشستوں پر براجمان ہونے والے محمود مولوی نے نہیں سنا،لہٰذا انہوں نے قوم کو خوشخبری سنائی ہے کہ بجلی کی قیمت میں 30فیصد کمی ہو  رہی ہے۔کاش کوئی انہیں ایک پاکستانی ادارے کی یہ سروے رپورٹ پڑھا دیتا کہ عوام کی مالی پریشانیوں میں گزشتہ ایک سال میں 14فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 74فیصد عوام اپنے ماہانہ اخراجات پورے نہیں کر سکتے۔ عوام نے بجلی کا استعمال کم کر دیا ہے۔ کھانے پینے کی اشیا کم خرید رہے ہیں۔ 40فیصد لوگ ادھار لے کر گذارہ کر رہے ہیں۔ کالم کا عنوان پڑھ کر جو بات آپ کو سمجھ نہیں آئی تھی وہ ”شاید“اب آگئی ہو کہ حالات بدلتے اور بہتر ہوتے نظر تو نہیں آرہے۔

مزید :

رائے -کالم -