بشارالاسد حکومت کے خاتمہ کے بعد؟

   بشارالاسد حکومت کے خاتمہ کے بعد؟
   بشارالاسد حکومت کے خاتمہ کے بعد؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

13سال تک باغیوں کو روکنے‘ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف اس وقت کے امریکی صدر بارک اوباما کی ”سرخ لکیر“ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے،اور ماسکو اور تہران کے اتحادیوں کی مدد سے شام پر آہنی حکومت کی کم و بیش نصف صدی جاری رکھنے کے بعد، بشارالاسد کی حکومت 8 دسمبر کے روز گر گئی۔ بشارالاسد نے روس میں پناہ لے لی ہے، جس سے تجزیہ کاروں کو اس الجھن کا سامنا ہے کہ شام اور مشرق وسطیٰ میں آنے والے دنوں میں کیا ہو گا اور شام میں حالات کیا کروٹ اختیار کریں گے؟ ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران 507000 سے زیادہ شامی شہری مارے گئے۔ امریکی صدر جو بائیڈن اور نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بشارالاسد کی شکست کو اس کے کمزور اتحادیوں کی جانب سے مزید مدد کرنے میں ناکامی کا نتیجہ قرار دیا۔ اس تجزیے کو غلط قرار نہیں دیا جا سکتا، لیکن سوال یہ ہے کہ اب آگے کیا ہو گا؟ نیو یارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے لئے،جو پہلے ہی یوکرائن کے خلاف اپنی جنگ میں اُلجھے ہوئے تھے، بشارالاسد کا زوال اقتدار میں ان کی چوتھائی صدی کے سب سے بڑے جغرافیائی سیاسی دھچکے میں سے ایک ہے۔ حالیہ برسوں میں مشرق وسطیٰ میں پیوٹن کے اقدامات نے گہری نقوش چھوڑے ہیں،لیکن اب وہ اس خطے میں اپنے ایک بڑے اتحادی کا ساتھ دینے میں ناکام رہا،جس کا نتیجہ بشار حکومت کے خاتمے کی صورت میں نکلا ہے۔ 

شامی باغیوں کی جانب سے شام پر قبضے کی کوششیں مارچ 2011ء سے ہو رہی تھیں جب عرب بہار نامی انقلابات عروج پر تھے۔ کتنے ہی ملکوں میں دہائیوں سے قائم حکومتیں ختم ہو گئیں اور حکمران مارے گئے یا قید کر لئے گئے۔ اس وقت خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ شام بھی عرب بہار کی انقلابی لہر کی نذر ہو جائے گا، لیکن مخالفین کی توقعات کے برعکس بشارالاسد حکومت سخت جان ثابت ہوئی اور 13 سال تک باغیوں کی مزاحمت کرتی رہی۔ اس سارے عرصے میں شام میں بڑی عجیب صورت حال اس لیے تھی کہ محض شامی باغی ہی نہیں، بہت سی دیگر طاقتیں شام میں ایک دوسرے کے خلاف اور شامی حکومت کے خلاف برسرِ پیکار رہیں۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب شام پر تین قوتیں قابض تھیں۔ ایک جانب صدر بشارالاسد کی حکومت کے زیر کنٹرول علاقے تھے۔ دوسرا حصہ باغیوں کے قبضے میں تھا، جبکہ تیسرا علاقہ کردوں کے قابو میں تھا۔ اس عالمی شطرنج کی بساط پر سبھی اپنی اپنی چالیں چل رہے تھے اور شاید اب بھی چل رہے ہیں۔ بشارالاسد کی حکومت کو ایران اور روس کی حمایت حاصل تھی۔ مسلح حکومت مخالف گروہ کی پشت پناہی سعودی عرب اور امریکہ کر رہے تھے،  اس طرح یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بشارالاسد کی حکومت ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک بیرونی سہاروں پر قائم تھی۔اس حکومت کا زیادہ تر انحصار روس اور ایران کی جانب سے ملنے والی امداد پر تھا۔ اب ایران اور روس کے لئے نئے محاذ کھل چکے ہیں۔اسرائیل کے ہاتھوں حزبِ اللہ کو پہنچنے والے نقصان، لبنان میں اسرائیل کے تابڑ توڑ حملوں اور ایران و اسرائیل کی طرف ایک دوسرے پر حملوں کی وجہ سے ایران اس قابل نہیں رہا کہ شام میں اقتدار پر توجہ مرکوز رکھ سکے۔ اسی طرح یوکرین میں روس کی بڑھتی ہوئی توجہ کی وجہ سے پوٹن کے لئے شام پر ارتکاز قائم رکھنا ممکن نہیں رہا تھا۔ یوں شام کی حکومت تنہا ہو گئی تھی اور یہی موقع تھا جب باغیوں نے آخری وار کر ڈالا۔ 

 2020ء میں روس اور ترکی نے ادلب میں جنگ بندی کا معاہدہ کروایا تھا۔اگرچہ اس معاہدے کے بعد بڑے پیمانے پر جھڑپیں ختم ہو گئی تھیں، لیکن حالات مکمل طور پر اعتدال پر نہیں آئے تھے۔ جلد ہی پہلے والی صورت حال لوٹ آئی۔اس طرح شام کی حکومت بھی مکمل کنٹرول حاصل نہیں کر پائی تھی۔ موجودہ صورت حال میں کمزور حکومت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے باغی پھر متحرک ہو گئے تھے، کیونکہ بشارالاسد کے اہم حامی، روس اور ایران دیگر تنازعات میں پھنسے ہوئے تھے۔ یہی شام میں انقلاب برپا ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

پھر وہی سوال کہ اب آگے کیا ہوتا ہے؟ اس بارے میں ابھی یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ یہ واضح ہے کہ شام میں خانہ جنگی کا ابھی جاری رہے گی۔ وہ جو بشارالاسد حکومت کے خاتمے کے لئے سرگرم تھے‘ لگتا ہے کہ اپنے حصے وصول کرنے کے لئے وہ اب آپس  میں لڑیں گے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس لڑائی میں اس خطے یا مغربی ممالک میں سے کسی کی جانب سے مداخلت اس خانہ جنگی کی شدت کو بڑھا دے اور شام کی جنگ ایک عالمی جنگ میں تبدیل ہو جائے‘ تاہم کچھ تجزیہ کار ایسی کسی صورت حال کے پیدا نہ ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں،جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو یہ واضح ہے کہ اسرائیل کے بارے میں اس کی پالیسی تبدیل نہیں ہو گی۔امریکہ کے آئندہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگرچہ یہ نعرہ بلند کیا ہے کہ وہ جنگوں کا خاتمہ چاہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جانبدارانہ امریکی پالیسیوں کا رُخ وہ بھی نہیں موڑ سکیں گے چنانچہ اسرائیل کے حوالے سے بھی اس کی جانب داری ختم نہیں ہو گی۔ ٹرمپ پہلی بار صدر بنے تھے تو انہوں نے ایران کے ساتھ صدر اوباما کے دور میں کیے گئے جوہری معاہدے کو یک طرفہ طور پر ختم کر دیا تھا۔اب بھی ٹرمپ ایران کو دبا کر رکھنے کی پوری کوشش کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹرمپ کی نئی پالیسیاں بتا رہی ہیں کہ وہ اس بار کچھ الگ، کچھ بڑا کرنا چاہتے ہیں۔   

میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ ہمیشہ کے لئے تبدیل ہو گیا ہے۔ وہاں اگر چند روز پہلے تک فلسطین خصوصاً غزہ کے عوام کے لیے انصاف ملنے اور لبنان میں جاری جنگ کے خاتمے کے کچھ امکانات اگر باقی تھے تو وہ اب ختم ہوتے محسوس ہو رہے ہیں اور یہ سارا علاقہ عملی طور پر اسرائیل کی ڈومین میں جاتا نظر آتا ہے،جہاں اس کے مدمقابل کوئی نہیں ہو گا۔ اس طرح اب یہ واضح طور پر نظر آنے لگا ہے کہ گریٹر اسرائیل کا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچنے والا ہے۔ کیا مسلم ممالک خاموشی سے یہ سب ہوتا دیکھتے رہیں گے؟ یہ اس وقت کا ایک بڑا اور اہم ترین سوال ہے، جس کا جواب تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -