احسان کا بدلہ احسان

حدیث اور تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قدم پر انسانیت کی بھلائی، فلاح اور راہ نمائی کا فریضہ بطریقِ احسن ادا فرمایا ہے۔ آپ کا قیام ہو یا کوچ، سفر ہو یا حضر، صلح ہو یا جنگ، ہر مقام پر آپؐ منبع رشد وہدایت، سراج منیر، مبشر نذیر اور داعی الی اللہ کے خوب صورت روپ میں نظر آتے ہیں۔ کتب حدیث میں صحابہ کرامؓ کی زبانی ایک سفر کا حال بیان ہوا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ اس کا کچھ تذکرہ آج کی مجلس میں آپ کے گوش گزار کیا جائے۔ صحابہ کرامؓ فرماتے تھے: ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ ہم رات بھر چلتے رہے یہاں تک کہ رات کا آخری وقت ہوگیا۔ ہم پر نیند غالب آگئی۔ ایسی حالت میں مسافر کے لئے نیند سے زیادہ میٹھی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ پس ہم سوگئے اور ہماری آنکھ اس وقت تک نہ کھلی جب تک سورج کی گرمی نے ہمیں جگانہ دیا۔ سب سے پہلے فلاں فلاں اور فلاں اٹھے۔ چوتھے نمبر پر حضرت عمربن خطابؓ کی آنکھ کھلی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سو رہے ہوتے تھے تو ہم میں سے کوئی بھی جگانے کی جسارت نہیں کرتا تھا، کیوں کہ ہم نہیں جانتے تھے کہ خواب میں اللہ تعالیٰ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا دکھاتا تھا۔ جب حضرت عمرؓ بیدار ہوئے اور صورت حال دیکھی کہ سوتے میں نماز کا وقت نکل گیا ہے تو انہوں نے بلند آواز سے تکبیر (اللہ اکبر) کہنی شروع کی اور مسلسل تکبیر کو دہراتے رہے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آواز سن کر جاگ اٹھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو لوگوں نے آپؐ کے سامنے اس صورت حال پر پریشانی کا اظہار کیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’کوئی فکر نہیں، رختِ سفر باندھو۔‘‘ پس لوگ سفر پر روانہ ہوگئے۔ تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری سے اترے اور وضو کے لئے پانی مانگا۔ وضو کے بعد اذان دی گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ جب آپؐ نماز سے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ ایک شخص الگ بیٹھا ہے۔ نماز میں شامل نہیں ہوا۔ آپؐ نے اس سے پوچھا: ’’اے فلاں تجھے کس چیز نے نماز سے روکا؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’مجھے جنابت ہوگئی ہے اور غسل کے لئے پانی نہیں ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’مٹی سے تیمم کرلو یہ تمھاری طہارت کے لئے کافی ہے۔‘‘
اس کے بعد پھر لوگ چل پڑے اور کچھ دور جا کر لوگوں نے پیاس کی شکایت کی۔ ظاہر ہے پانی کا ذخیرہ سب کے پاس ختم ہوچکا تھا۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم سواری سے اترے اور حضرت علیؓ اور ایک دوسرے صحابی کو بلایا اور فرمایا: ’’جاؤ اور پانی تلاش کرو۔‘‘ چنانچہ وہ دونوں گئے اور کچھ فاصلے پر انہوں نے ایک عورت کو دیکھا جو اونٹ پر سوار تھی۔ اس نے اونٹ پر دو بڑی بڑی مشکیں پانی سے بھری ہوئی لاد رکھی تھیں۔ انہوں نے اس عورت سے پوچھا کہ پانی کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا: ’’بہت دور ہے، کل اس وقت میں چشمے سے چلی تھی۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’پھر ہمارے ساتھ آو۔‘‘ وہ کہنے لگی: ’’کہاں؟‘‘ صحابہؓ نے کہا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس۔‘‘ صحابہ کرامؓ کی بات سن کر وہ خاتون کہنے لگی: ’’وہی شخص جسے صابی کہاجاتا ہے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’ہاں تو ٹھیک سمجھ گئی ہے پس ہمارے ساتھ چل۔‘‘ پھر وہ اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس عورت کے ساتھ ہونے والی گفتگو بیان کی۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اس عورت کو اونٹ سے نیچے اتارو۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن منگوایا اور دونوں مشکیزوں کا منہ کھول کر ان میں سے تھوڑا سا پانی برتن میں ڈالا اور مشکیزوں کا منہ بند کرکے اس خاتون کو مشکیزے واپس کردیے اور لوگوں کو آواز دی: ’’جس نے پانی پینا ہو آکر پی لے اور جس نے برتن میں لینا ہو وہ برتن میں لے لے۔ پس جس نے چاہا پی لیا اور جس نے چاہا برتن میں لے لیا۔ آخر میں آپؐ نے ایک برتن بھر کر اس شخص کو دیا جس نے جنابت کی شکایت کی تھی اور اسے فرمایا: ’’جا اور اس پانی سے غسل کرلے۔‘‘
راوی عمران مزید بیان کرتے ہیں کہ وہ خاتون کھڑی حیرت سے سب کچھ دیکھتی رہی۔ بخدا وہ ایسی مبہوت ہوئی کہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا: ’’اس کے لئے کچھ کھجوریں، آٹا اور ستو جو تمھارے پاس ہے جمع کردو۔‘‘ صحابہؓ نے کھانے پینے کا سامان جمع کیا اور اسے ایک کپڑے میں باندھ کر عورت کو اونٹ پر سوار کیا اور گٹھڑی اس کے آگے رکھ دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو جانتی ہے ہم نے تمھارے پانی میں کوئی کمی نہیں کی ،مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں پانی پلایا ہے۔‘‘جب وہ اپنے اہل وعیال کے پاس پہنچی تو انہوں نے پوچھا کہ تو نے اتنی دیر کہاں کردی؟ اس نے جواب دیا: ’’عجیب وغریب واقعہ میں نے دیکھا ہے۔ راستے میں مجھے دو آدمی ملے جو مجھے اس شخص کے پاس لے گئے جسے صابی کہاجاتا ہے۔‘‘ پھر اس نے سارا واقعہ بیان کیا اور کہا: ’’خدا کی قسم یا تو زمین اور آسمان کے درمیان اس سے بڑا جادوگر کوئی نہیں اور یا پھر وہ اللہ کا سچا رسولؐ ہے۔‘‘
مسلمان جب اس علاقے میں مشرکین پر حملے کرتے تھے تو اس بستی کو جہاں وہ عورت رہتی تھی چھوڑ جاتے تھے۔ ایک دن اس نے اپنے قبیلے کے لوگوں سے کہا: ’’یہ لوگ تمہارے گردونواح میں حملے کرتے ہیں، مگر تمہیں جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ بس بہتری اسی میں ہے کہ تم اسلام میں داخل ہوجاؤ۔‘‘ ان لوگوں نے اس کی بات مان لی اور اسلام میں داخل ہوگئے۔(صحیح بخاری، جلداول، ص89وجلد چہارم، ص232۔ صحیح مسلم، جلد پنجم، ص190۔ مغازی للواقدی، جلد سوم، ص1040۔ البدایۃ والنھایۃ، جلدششم، ص98۔ سنن البیہقی، جلد اول، ص32، 218)۔
اللہ کی حکمتیں وہی جانتا ہے۔ اس واقعہ سے بہت سے سبق ملتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ سخت مشکل اور شدید حاجت کے وقت بھی اپنی قوت کے بل بوتے پر کسی سے اس کی کوئی چیز چھین لینا ہرگز جائز نہیں۔ دوسرے یہ کہ کسی سے معمولی فائدہ ملے تو جواب میں اسے بھی حسبِ توفیق فائدہ پہنچانا چاہیے۔تیسرے یہ کہ جس نے کبھی آپ کے ساتھ احسان کیا ہو یا آپ کی مشکل میں آپ کے کام آیا ہو، اسی کو نہیں ،بلکہ اس کے متعلقین کو بھی عزت واحترام دینا ضروری ہے۔ چوتھے یہ کہ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ہر شخص کے لئے اس کا وقت بھی اس ذاتِ بابرکات نے متعین کررکھا ہے۔ پانچویں یہ کہ کچھ خوش قسمت انسان ایسے ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں کے لئے بھی ہدایت کے دروازے کھولنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ انہی کو حدیث پاک میں مفتاحٌ للخیریعنی خیر کی چابی قرار دیا ہے۔ یہ خاتون صحابیہؓ بھی اسی زمرے میں آتی ہیں۔
ایک اور واقعہ بھی بڑا ایمان افروز ہے۔ حضور پاکؐ جب طائف سے زخمی حالت میں واپس پلٹے تو آپ مکہ سے باہر رک گئے کہ قریش جو پہلے ہی دشمن تھے، اب کیا کہیں گے۔ جب مکہ میں اطلاع پہنچی تو سرداران مکہ میں سے ایک مشرک سردار مطعم بن عدی نے اپنے بیٹوں کو کہا کہ وہ ہتھیار بند ہوجائیں اور جا کر محمد(ﷺ) کو اپنی امان میں لے کر اس کے گھر پہنچائیں۔ جب وہ آپؐ کے پاس آئے تو آپؐ نے ان کے باپ کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ میرے لئے اللہ ہی کی امان کافی ہے۔ نبی پاکؐ نے اس سردار کی یہ نیکی زندگی بھر یاد رکھی۔ جنگِ بدر کے قیدیوں کے بارے میں آپؐ نے فرمایا: ’’اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور مجھ سے ان قیدیوں کی رہائی کی بات کرتا تو میں ان سب کو رہا کر دیتا۔ اسی طرح آپؐ نے فتح مکہ کے بعد ایک موقع پر جبیر بن مطعمؓ کو اونٹوں سے بھری ہوئی ایک پوری وادی بخش دی تھی۔ (اسد الغابۃ اردو ترجمہ، مطبوعہ مکتبہ خلیل، ص 355۔256)۔