چکلہ کا لفظ کیونکر وضع ہوا ؟ اس پر لسانیات کے ماہر ہی و ثوق سے کچھ کہہ سکتے ہیں۔ لغت میں چکلہ کے معنی قحبہ خانہ کے ہیں۔ اس کا مادہ چکیدن ہوا جس کے معنی جانور کے اڈے پر بیٹھنے کے ہیں۔ دو مصدر اور ہیں چکاندن اور چکانیدن جو ٹپکانے کے معنی ہیں آتے ہیں، چکلہ کا لفظ ان سے بھی ماخوذ ہوسکتا ہے۔ خود چک کا لفظ مختلف المعنی ہے زمین کے معنی میں بھی آتا ہے ، اور مردانہ عضو کے لئے بھی ، اسی طرح چکلہ کی املا غور طلب ہے۔ ۔۔
آہستہ آہستہ رنڈیوں کے صفاتی ناموں میں ان کی پیشہ ورانہ بوقلمونی سے اضافہ ہوتا گیا بالخصوص اُس دور میں جب سلطنت اودھ پر شجاع الدولہ اور پھر واجد علی شاہ کا پرچم لہراریا تھا اور دہلی میں محمد شاہی امراء عورتوں کو چوسر کی نردیں سمجھتے تھے۔ اشرف صبوحی کے الفاظ میں۔
’’شہزادے پانی میں پالتی مارے ہوئے بیٹھے ہیں۔ ایک زانو پر پیچوان لگا ہے دوسری پر رنڈی بیٹھی ہے ، دھنواں اُڑاتے اور ملہار سنتے چلے جاتے ہیں۔ ‘‘
اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔ قسط نمبر 7پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ زمانہ سلطنت کی ویرانی کا تھا، صرف ظاہری رسموں اور معنوی رواجوں کا طنطنہ باقی تھا جس نسبت سے بازو کی قوت گھٹتی گئی اُسی نسبت سے زبان کی نزاکت بڑھتی گئی ، جن کا پیشہ ناچنا اور گانا تھا اُن کو طوائف کہا گیا ، جن کا کاروبار بدن کی فروخت ٹھیرا وہ کسبیاں کہلائیں یا کنچنیاں اور جو محض ’’بازاری مال‘‘ تھیں۔ یعنی روپے اور جسم میں تبادلہ کرنے والی وہ ٹکیائیاں ٹھیریں۔ اُن کے لئے بیسوا رنڈی ، پاتر اور دیشیا کے لفظ معنی بھی مستعمل ہیں۔ جن میں ایک باریک سامعنوی فرق ہے اور اب تو بعض کمین ذاتیں بھی ان میں محسوب ہوتی ہیں مثلاً مراثنیں، ڈوغیاں اور پیرنیاں وغیرہ۔۔۔ کنچن کوئی ذات نہیں صرف پیشے کی رعایت سے ایک ذات بن گئی ہے اور اب ہر اس جمعیت انسانی کو کنچن کہتے ہیں جن کا تعلق طوائفوں اور کسبیوں کے خاندان سے ہوتاہے۔
شجاع الدولہ اور واجد علی شاہ کے لکھنؤ نے طوائفیت کی مختلف شاخوں کو پروان چڑھایا۔ ایک ایسا معاشرہ پیدا ہوگیا کہ مسلمان بادشاہوں کی پوری تاریخ میں طوائف کے عروج کی اتنی بڑی مثال نہیں ملتی ۔
شجاع الدولہ نواب صدر جنگ کا بیٹا تھا، جب اس کی انگریزوں سے صلح ہوگئی تو اُس نے فیض آباد کا سفر اختیار کیا۔ احمد خاں بنگش نے اس کے قصدِ سفر سے پہلے تین نصیحتیں کیں، اولاً مغلوں پر اعتبار نہ کرنا ، ثانیاً فیض آبا دکو دارالحکومت بنانا ، ثالثاً خواجہ سراؤں سے کام لینا۔ شجاع الدولہ نے ان تینوں باتوں کو آویزہ گوش بنالیا، پہلا کام یہ کیا کہ فوج کی کمان خواجہ سراؤں کو سونپ دی۔ سب سے بڑے ڈویژن میں چودہ ہزار سپاہی تھے جن کی وردی کا رنگ سرخ تھا۔ خواجہ سرالسبنت علی خاں کو ان کا کمانڈر بنایا، اسی نام کے ایک دوسری خواجہ سرا کی ماتحتی میں ایک ہزار سیہ پوش گھڑ سوا ر تھا۔ خواجہ سراعنبر علی کی زیر ہدایت پاپخ سو گھڑ سواروں کا دستہ اور خواجہ سرا محبوب علی کی ماتحتی میں پانچو شہسواروں کی چار پلٹنیں ، ایک اور خوش چہرہ خواجہ سرا لطافت علی کے ماتحت فوج کے اتنے ہی دستے تھے۔ علاوہ ازیں شجاع الدولہ کے دربار میں بہت سے زنانہ اور مردانہ طائفے تھے۔ شرر مرحوم نے لکھا ہے کہ شجاع الدولہ کا دل ہمیشہ خوبصورت عورتوں سے پُرتھا ۔ یہاں تک کہ سلطنت کا چپہ چپہ الناس علی دین ملوکھم کی جوہ گاہ بنا ہوا تھا، کئی نامور ڈیرہ دارنیاں تھیں جن کے ہمراہ عالیشان خیمے رہتے تھے ، جب شجاع الدولہ سلطنت کے مختلف اضلاع کا دورہ کرتا تو بادشاہ کے ہمراہ خیمے بھی ہوتے ، جہاں جی چاہتا خیمے گاڑ دیے جاتے ۔محفل جمتی اور آناً فاناً رقص و نغمہ کا چمن آراستہ ہوجاتا۔
واجد علی شاہ کے عہد میں شجاع الدولہ کا لگایا ہوا پودا ایک تناور درخت بن گیا۔ حتیٰ کہ واجد علی شاہ اور لہوو لعب ہم معنی الفاظ ہوگئے۔ واجد علی شاہ بچپن ہی سے حسن و نغمہ کی گود میں پلا تھا۔ اور ابھی سن شعور کو بھی نہ پہنچا تھا کہ اس کی عمر کے بہت سے اُجلے ورق طوائفوں کی ہم آغوشی سے داغدار ہوچکے تھے، جب تخت پر بیٹھا تو عورتوں سے اس کی رغبت کا یہ عالم تھا کہ اس نے فوج کی کایا پلٹ دی، رسالوں کا نام بانگا ، ترچھا اور گھنگھور رکھا۔ پلٹنوں کے نام اختری اور نادر ، جودو مشہور طوائفوں کے نام پر تھے ، واجد علی شاہ متعہ کو مذہباً جائز سمجھتا تھا۔ ہر وقت عورت جو اس کی ہوس کا شکار رہتی اس کو متعہ کے خطاب سے نوازتا۔ ایک دفعہ بھنگن پرجی آگیا تو صرف اُسے فیضیاب کر ڈالا بلکہ نواب مصفا بیگم کے لقب سے ملقب کیا ، کسی بہشتن پر دل للچایا تو اُس کو نواب آب رساں بیگم بنا ڈالا ۔ واجد علی شاہ مسلمان فرمانرواؤں میں پہلا بادشاہ تھا جس نے خوب صورت عورتوں کی ایک چھوٹی سی فوج بنائی۔ (جاری ہے)
اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔ قسط نمبر 9 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں