توہین رسالت کا قانون پھرسازشوں کی زد میں
قانونِ ناموس رسالت 295C خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی عزت و ناموس پر پہرا دینے کے لئے وضع کیا گیا ۔جس کا حکم رب ذوالجلال نے کتاب لاریب میں دیا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ کی خوش قسمتی ہے اس نے اس قرآنی قانون کو پاکستانی قانو ن بھی قرار دے دیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ قانون اس ملک کا قانون بعد میں ہے اور مالک الملک جل جلالہ کاقانون پہلے ہے ۔یہ جنرل محمد ضیاء الحق کا بنایا ہوا’’ ضیائی‘‘ قانون نہیں بلکہ خدائی اور مصطفائی قانون ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے جب لاہور ہائی کورٹ کے جج کنوردلیپ سنگھ نے ایک نہایت گستاخانہ کتاب کے ناشر راج پال کو محض یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ اس کی کتاب مروجہ قانون کی کسی دفعہ کی خلاف ورزی کے زمرے میں نہیں آتی۔ اس پر مولانا محمد علی جوہر نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ قصور جج کا نہیں قانون کا ہے یوں توہینِ رسالت کے جرم کے لئے قانون سازی کا مطالبہ 1927 ء میں شروع ہوا۔
جب برطانوی قانون نے اس گستاخ کو کھلی چھٹی دے دی تو اسلامی قانون کی روشنی میں 1929 ء میں غازی علم الدین شہید نے اسے واصل جہنم کر دیا۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے غازی علم الدین کے جذبہ ایمانی کو خراج تحسین پیش کیا ۔برطانوی سرکار کے قانون کا رسول ﷺ کے گستاخ کو تحفظ دینا مسلمانوں پر اتناگراں گزراکہ مسلمانوں نے جذبہ عشق رسول ﷺ کی بدولت اپنے دین کی روشنی میں صرف گستاخ کو واصل جہنم ہی نہیں کیا بلکہ تحفظ ناموس رسالت کی خاطر برصغیر کا جغرافیہ بدل کر رکھ دیا اور پاکستان معرض وجود میں آگیایوں برطانوی قانون کے رسول ﷺکے گستاخ کو چھوڑنے کے برصغیر کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوئے پھر برطانوی حکومت کی طرف سے غازی علم الدین شہید کو دی گئی سزا کے رد عمل میں وہ بیداری پیدا ہوئی جس نے برطانوی سامراج کا بستر گول کر دیا ۔ آج پاکستان کی پارلیمنٹ سے مغربی دنیا اپنا بدلہ چکانا چاہتی ہے ایسے حقائق سامنے آرہے ہیں جس سے لگتا ہے کہ قانون ناموس رسالت کو بدلنے کے لئے حکومت کو ٹاسک دیا گیا ہے اس سلسلے میں جرمن ساؤتھ ایشین پارلیمنٹری گروپ کا ایک وفد صدر ممنون حسین سے ملاقا ت کر چکا ہے ۔ ہماری دعاہے کہ نواز حکومت اس رو سیاہی سے بچ جائے لیکن 28 مئی کو انگلش نیوز پیپر Tribune نے 295C کی تبدیلی کے بارے میں ایک مسودے کا ذکر کرتے ہوئے واضح لکھا ہے:
A draft bill has been finalised that will be presented to parliament approval.It has been prepared by the interior ministry and vetted by the law ministry.
بل کا ایک مسودہ تیار کر لیا گیا ہے جو منظوری کے لئے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا یہ بل وزارت داخلہ کی طرف سے تیار کیا گیا ہے اور وزارت قانون کی طرف سے اس کی نوک پلک سنواری گئی ہے ۔نصرانی (عیسائی) اخبار christians in pakistan نے ایک دن پہلے ہی 27 مئی کو یہ خبر شائع کر دی تھی اور اس کے آخر میں یہ لکھا تھا:
The amendment in the 295-c law is also due to Euorpean countries showing deep concern over the increasing misuse of law
295c کے قوانین میں ترمیم کی ایک وجہ یورپ میں اس قانون کے کثرت سے غلط استعمال کیے جانے کی وجہ سے پائی جانے والی گہری تشویش ہے۔ مخصوص مغربی مزاج توہینِ رسالت کے لحاظ سے بڑا ہٹ دھرم اور کمینہ واقع ہوا ہے ۔Freedm of speech کی آڑ میں توہینِ رسالت کرنا ان کا ایک محبوب مشغلہ ہے۔ مغربی حکمران توہین کرتے کرواتے بھی ہیں اور توہین رسالت کے مجرموں کو شیلٹربھی فراہم کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ سرے سے 295c قانون کے ہی خلاف ہیں وہ اس قانون کے ’’غلط استعمال‘‘ کو آڑ بناکر اسے معطل اور غیر مؤثر بنانا چاہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں 295-C کے نئے مسودہ میں توہین رسالت کے لئے نیتِ توہین کی شرط لگادی گئی ہے Tribune نے لکھا ہے :اس قانون کی ترمیم کا نچوڑ یہ ہے کہ کسی بھی جرم سے سرزد ہونے کے تعین کا معیار اس کے درپردہ منفی ارادہ ہوگا (یعنی اگر ارادہ برا نہیں تو کوئی جرم نہیں حقائق سے ثابت ہے کہ مغرب 295c کے صحیح استعمال کے بھی خلاف ہے۔توہین رسالت کی وجہ سے انسان کا واجب القتل ہونا مغرب کو ہرگز برداشت نہیں ہے بلکہ وہ اسے معمولی جرم ماننے کو بھی تیار نہیں ہے ۔جب امریکہ میں بنائی گئی گستاخانہ فلم پر عالم اسلام نے احتجاج کیا تو امریکی صدر اوباما نے 25 دسمبر 2012 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 67 وین اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا:
میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم توہین رسول ﷺپر مبنی اس ویڈیوپر پابندی کیوں نہیں لگاتے ہیں اس سوال کا جواب ہمارے قوانین میں موجود ہے ہمارا آئین ہر شخص کے آزادی اظہار کے حق کا تحفظ کرتا ہے ہمارے ہاں ریاستہائے متحدہ امریکہ میں بے شمار ایسی کتابیں ہیں جو لوگوں کو غصہ دلاتی ہیں میری طرح امریکیوں کی اکثریت عیسائیوں پر مشتمل ہے اس کے باوجود ہم اپنے مقدس ترین عقائد کی گستاخیوں پر پابندی نہیں لگاتے ۔ ملک کے سربراہ اور فوج کے کمانڈر انچیف ہونے کے لحاظ سے لوگ ہر روز میرے بارے میں عجیب و غریب باتیں کرتے ہیں اس کے باوجود میں ان کے اس حق کی حفاظت کروں گا کہ وہ ایسا کریں ‘‘ ۔
پیرس میں بنائے گئے گستاخانہ خاکوں پر جب مسلمانوں نے احتجاج کیا اس کے جواب میں CBS کو انٹرویو دیتے ہوئے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا: ’’ میرے خیال میں ایک آزاد معاشرے میں کسی کے مذہب کو آزار پہنچانا جائز ہے میں ایک عیسائی ہوں اگر کوئی شخص حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق کوئی توہین آمیز بات کہے تو مجھے اس سے آزار تو پہنچے گا مگر ایک آزاد معاشرے میں مجھے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ میں اس پر غضب ڈھا سکوں۔ ہمیں ان جرائد و اخبارات کو قبول کرنا ہو گا جو اس طرح کی آزار پر مبنی چیزیں چھاپتے ہیں جبکہ قانون بھی اس کی اجازت دیتا ہے۔‘‘
3 مئی کو امریکی ریاست ٹکساس میں سرکاری سرپرستی میں AFDI کی طرف سے گستاخانہ خاکوں کی اعلانیہ نمائش لگائی گئی اور سب سے زیادہ گستاخانہ خاکہ بنانے والے کو دس ہزار ڈالر انعام دیا گیا اس موقع پر گستاخانہ نمائش کا انعقاد کرنے والی بدنام زمانہ عورت Pamela Geller نے گستاخانہ خاکوں کے اس مقابلہ کو آزادی اظہار کی جنگ قرار دیا اور اپنے اس مذموم عزم کا اظہار کیا کہ ہم یہ گستاخانہ سلسلہ مزید آگے بڑھائیں گے ۔یہ تمام اس بات کے دلائل ہیں مغرب کے نزدیک توہین رسالت کوئی جرم نہیں ہے اور توہین رسالت کی سزا قتل انہیں منظور نہیں ہے۔ ہمارے حکمران جو مغرب کے کہنے پر 295C میں سزا کے لئے نیتِ توہین کو شرط قرار دے رہے ہیں ۔وہ مغربی حکمرانوں سے اعلانیہ اور ارادے سے توہین رسالت کرنے والوں کے خلاف تو کوئی قانون سازی کروانہیں سکے اور ان اعلانیہ گستاخی کرنے والوں کو سزا ئے موت دلوا نہیں سکے۔الٹا ان کے دباؤ میں اپنے ہی دین و ایمان پر حملہ کرنے کی پلاننگ کی جا رہی ہے ۔قانون ناموس رسالت کو بدلنے کا سبب ایک نصرانی جوڑے کا زندہ جلایا جانا بتایا جا رہا ہے جبکہ وہ واقعہ مبینہ طور پر انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے رونما ہوا ۔اگر اس واقعے کا باعث 295c ہے تو بتایا جائے کہ یوحنا آباد میں نصرانیوں کی طرف سے دو مسلمانوں کو زندہ جلائے جانے کا باعث کون سا قانون ہے ؟اصل میں تمام پس منظر دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ یورپ کا دباؤ295c ختم کرنے پر ہے اور 295c کے معاذ اللہ خاتمے کیلئے اس کے غلط استعمال کو آڑ بنایا جا رہا ہے ورنہ کون سا قانون ہے جس کا استعمال غلط نہیں ہو رہا اور اس غلط استعمال کے خلاف کبھی کوئی آواز بلند نہیں ہوئی ۔
حقیقت میں یہ سارا کھیل مغرب کے گستاخانہ مزاج اور اس کے حواریوں کے تحفظ کیلئے کھیلا جا رہا ہے ۔حالانکہ ہٹلر کی طرف سے یہودیوں کے قتل عام ’’ہولو کاسٹ ‘‘پر تنقید کو کئی مغربی ممالک میں قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے ۔مغربی ممالک کی جو حکومتیں پاکستان میں قانون ناموس رسالت 295c کا خاتمہ چاہتی ہیں وہ پہلے اپنے ہاں ’’ہولوکاسٹ‘‘ پر تنقید کے خلاف بنائے گئے قوانین ختم کروائیں ۔تحفظ ناموس رسالت مسلمانوں کو جان سے بھی زیادہ عزیز ہے ۔پوری تاریخ اسلام اس امر کی گواہ ہے لہذا مغربی ممالک 295c کے خلاف سازشوں سے باز آ جائیں اور اپنے ہاں تعظیم انبیاء کرام علیہم السلام کا قانون پاس کرائیں ۔