امریکہ کے خلاف کوریائی جنگ کی تیاریاں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ ٹویٹ میں شمالی کوریا کے لیے انتہائی سخت الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا بہت غلط رویہ کا مظاہرہ کر رہا ہے ،وہ امریکہ سے کئی سالوں سے کھیل رہا ہے ۔ شمالی کوریا کی جارحانہ دھمکیوں اور میزائل پروگرام میں تیزی لانے کے باعث امریکی وزیر خارجہ جنوبی کوریا، جاپان اور چین کے دور ے پر جا چکے ہیں۔ جنوبی کوریا میں امریکی وزیر خارجہ نے بیان دیا ہے کہ اگر شمالی کوریا نے کوئی غلط اقدام اٹھایا تو امریکہ اُس کا بھرپور جواب دے گا۔ امریکی وزیر خارجہ نے فوجی آپشن کو بہتر قرار نہیں دیا۔
شمالی کوریا نے سال ہی میں میزائل ٹیسٹ اور ایٹمی دھماکہ کیا اور خبریں یہی آرہی ہیں کہ شمالی کوریا ایک اور ایٹمی دھماکہ کی تیار ی کر رہا ہے ۔ امریکہ کے نئے صدر نے اقتدار میں آتے ہی تمام ممالک کے متعلق نئی پالیسیوں کو اپنانے کا اعلان کیا ہے وہاں شمالی کوریا کی پالیسی کو بھی تبدیل کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ تبدیلی کس نوعیت کی ہو گی۔ کورین امریکہ اور جنوبی کوریا کے خلاف آئندہ چند دنوں میں فوجی مشقیں کرنے والے ہیں جس سے چین نے پہلے ہی امریکہ اور جنوبی کوریا کو منع کیا ہے تاکہ شمالی کوریا کو اچھا پیغام جائے۔
اس صورتحال میں چین اور امریکہ کے درمیان بھی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے امریکہ نے جنوبی کوریا اور چین کے تعلقات میں خرابی کا ازسر الزام چین کے سرٹھہرایا ہے بلکہ چین کو فوجی اور معاشی لحاظ سے جنوبی کوریا کو دھمکانے کا الزام بھی لگایا ہے ۔ حالات کی سنگینی کے تحت امریکی وزیر خارجہ کا یہ دور بھی بہت اہم ہے جو امریکی صدر باراک اوباما کے 2012 ء کے دورہ کے بعد پہلا دورہ ہے ۔ امریکی وزیر خارجہ نے علاقہ میں موجود 23000 فوجیوں سے بھی ملاقات کی اور دونوں کو ریا کے درمیان خطرناک سیکیورٹی علاقہ میں جہاں دونوں افواج آمنے سامنے کھڑی ہیں وہاں کا بھی دورہ کیا گیا۔
کوریائی خطہ میں اس تازہ کشیدگی کی وجہ سے ٹرمینل ہائی ایریا الیچدڈوڈ ڈیفنس میزائل سسٹم بھی ہے ۔ جنوبی کوریا میں اس میزائل سسٹم کو نصب کرنے کا مقصد شمالی کوریا کے میزائلوں کو روکنا تھا۔ لیکن جنوبی کوریا میں زیادہ لوگ اس میزائل سسٹم کی تنصیب کے خلاف تھے ۔ کیونکہ چین نے بھی اس میزائل سسٹم کو سخت مخالفت کی تھی اور بدلے کیلئے کئی کمپنیوں پر پابندیاں لگادی تھیں جو جنوبی کوریا کے لیے کام کر رہی تھیں۔ چین کا کہنا ہے کہ یہ میزائل جس راڈر سسٹم سے لیئے ہیں وہ چین کے اندر تک جاسوسی کر سکیں گے۔ جنوبی کوریا اور چین کے تعلقات بہت پروان چڑھ چکے ہیں اور پچھلے دس سالوں میں جنو بی کوریا اور چین تجارت اور معیشت میں بہت مضبوط پارٹیز بن چکے ہیں۔ چینی باشندے جنوبی کوریا کے شہر سیؤل میں سب سے زیادہ خریداری کر تے ہیں اور جنوبی کوریا کے کئی ثقافتی اور میڈیا آفس چین میں کھل چکے ہیں۔ اسی لیے جنوبی کوریا کی عوام اس موقع پر میزائل سسٹم کی تنصیب اور امریکی پالیسیوں پر عمل در آمد کے باعث اپنی حکومت سے سخت ناراض ہیں۔ اسی لیے 5 مئی 2017 ء میں ہونے والے انتخابات میں لبرل رہنماؤں کی کامیابی نظر آتی ہے۔ کیونکہ اُس نے اعلان کیا ہے کہ اگر وہ منتخب ہو گیا تو شمالی کوریا کا دورہ کرے گا۔
امریکی وزیر خارجہ کا دورہ زیادہ کامیاب نظر نہیں آتا اور امریکہ وزیر خارجہ کی تیاری اور مسئلہ کا صحیح ادراک بھی ایک نیا سوال بن چکا ہے ۔ جنوبی کوریا اس سارے معاملہ میں امریکہ کے ساتھ کھڑا نظر نہیں آتا۔ جاپان اگرچہ امریکی پالیسی کے ساتھ کھڑا ہے لیکن مستقبل میں علاقہ میں امریکی اثرورسوخ بہت محدود ہوتا نظر آرہا ہے ۔ اس علاقہ میں موجود ہ کشیدگی کی وجہ بھی امریکی ہی نظر آرہے ہیں۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔