ایک روشن چراغ :پروفیسر ڈاکٹر محمداسلم صدیقی ؒ

ڈاکٹر محمداسلم صدیقی ایک شاندار ،بھرپور اور جدوجہد سے معمور زندگی گزار کر اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے۔ ان کی زندگی روشن چراغ کی مانند تھی ۔ چراغ کی روشنی بکھیرتے رہے اور یہ روشنی دین ،ایمان ،یقین و عمل ،اخلاص ، خیر خواہی اور قرآن و سنت کی تھی۔
ڈاکٹر محمداسلم صدیقی ایک عہد کا نام ہے۔ ایک ایسا عہد جو فریضہ اقامت دین کی جدوجہد سے عبارت ہے ، ان کی ساری زندگی دین متین کے لئے مسلسل محنت، تگ و دو ،علم کی تڑپ ، قرآن و سنت کے ابلاغ کی جستجو اور اس کی گہری بصیرت کے حصول میں بسر ہوئی ۔ ڈاکٹر محمداسلم صدیقی ایک عالم باعمل تھے ، ان کی وفات ایک عالم کی نہیں ایک عالم (World)کی ہے۔
اقبال ؒ و مودودی ؒ کے خوشہ چیں ،بے مثل خطیب ،محدث مفسرقرآن ،وہ اُجلے کردار کے باذوق ،نفیس ، متین ،ظریف اور شجاع انسان تھے۔ وہ ہر موضوع پر بہت فکر انگیز ، مدلل اور منظم گفتگو کرتے ، ان کے لہجے میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا بانکپن اور شورش کاشمیری کا جوبن اور سیدمودودی ؒ کااستدلال نمایاں ہوتا۔ گفتگو کے لئے وہ نکات ترتیب دیتے تو قرآن و سنت سے لوازمہ فراہم کرتے ،اشعار کاانتخاب کرتے۔وہ اپنی گفتگو سے سامعین پر سحر طاری کردیتے اور سننے والے اتنے محو ہوجاتے کہ ان کو وقت کے گزرنے کا احساس تک نہ ہوتا۔
یہ سحر اس وقت ٹوٹتا جب وہ اپنی گفتگو کے اختتام کامژدہ سناتے ۔ خطبہ جمعہ ہوتا یا درس قرآن و حدیث وہ پوری طرح تیار ی کے ساتھ بولتے۔ ان کی گفتگو کی روانی جوئے کہکشاں کی طرح ہوتی ،اس دوران ان کاطنطنہ عروج پر ہوتا ۔
اپنی گفتگوؤں میں وہ حکمرانوں کی بھی پوری طرح خبر لیتے ، انہیں آئینہ دکھاتے ،جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے سے نہ گھبراتے جن دنوں وہ جامعہ مسجد پنجاب یونیورسٹی میں خطابت کرتے ان کی گفتگو معاشرے کے مسائل کااحاطہ کرتی وہ اس ضمن میں کسی مصلحت کے قائل نہ تھے ، جو بات کہنی ہوتی وہ برسر مجلس کہہ دیتے ، بات کہنے کا سلیقہ انہیں آتا، رمضان المبارک میں قرآن کا خلاصہ بیان کرتے مگر ایسے کہ دریا کوزے میں بند کردیتے، لیکن کبھی تشنگی باقی نہ رہتی ۔
اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ وہ نہایت گہرا اور محبت کا تعلق رکھتے ، ان کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتے ، مسائل ومعاملات میں ان کو پیار سے رہنمائی دیتے اور سمجھاتے ، ان کو تعلیم وتربیت کی طرف متوجہ کرتے ۔ دعوت کے کام کو آگے بڑھانے بارے رہنمائی کرتے ۔
جماعت اسلامی اور سید مودودی ؒ کے ساتھ وہ بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔ جناب میاں طفیل محمد ، جناب قاضی حسین احمد، جناب سیدمنورحسن اور جناب سراج الحق کے ساتھ ان کاتعلق احترام محبت اور اخلاص کا تعلق تھا۔ وہ آخری دم تک اپنی ذمہ داری ادا کرتے اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے ، ان کی زندگی شاندار تھی ،ان شاء اللہ ،ان کی آخرت میں بھی زندگی شاندار ہوگی۔
ہم سب ان کے پسماندگان میں شامل ہیں ، اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کے لئے صدقۂ جاریہ بنیں، ان کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ وہ اپنی گفتگو میں اقبال کا یہ قطعہ اکثر پڑھتے ۔
وہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز
نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا
مولانا محمدعلی جوہر ؒ ،علامہ قبال ؒ ،ظفر علی خاں ؒ کاکلام ان کو از بر تھا۔ موقع محل کی مناسبت سے اشعارکا برمحل استعمال کرتے اور مجلس کو گرما دیتے۔ اقبال ؒ کے بارے میں کہتے کہ اقبال اُمید کا شاعر ہے جو اپنے پڑھنے والے کو عزم و حوصلہ دیتاہے اور مایوسی و نااُمیدی سے نکالتاہے۔
مولانا ڈاکٹر محمداسلم صدیقی بولتے بھی خوب تھے اور لکھنے پہ آئے تولکھا بھی خوب۔
ان کی تفسیر ’’روح القرآن ‘‘ عمدہ اسلوب اور تفسیری نکات پر مبنی تفسیر ہے ، جو اپنے پڑھنے والے کو عصر حاضر کے بارے میں مکمل رہنمائی کا سامان فراہم کرتی ہے۔ اس طرح ان کے خطبات کے کئی مجموعے زیور طباعت سے آراستہ ہو کر شائقین سے داد سمیٹ چکے ۔ مولانا محمداسلم صدیقی صاحب کی تقریر ہو یا تقریر تحریراُمید ،روشنی ، جذبے اور عزم کا باعث بنتیں ۔