بیگم کے معصوم طعنے  

بیگم کے معصوم طعنے  
بیگم کے معصوم طعنے  

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

’’  واصف آپ کا کام صرف یہی رہ گیا ہے کہ بس مجھے پریشان کرتے رہیں ، میرا تو اس گھر میں رہ رہ کر دماغ ہی ختم ہو چکا ہے ۔ ‘‘ نیناں کا پارہ آج پھرہائی تھا ۔ 
’’ ہیں دماغ کے بغیر آپ کیسے زندہ ہیں یہ تو واقعی سوچنے کی بات ہے ۔ ‘‘ واصف کے لہجے میں حیرت تھی ۔ 
’’ اب زیادہ مت بنیں ۔ پتہ نہیں کیا سوچ کر میرے ابا نے آپ کیساتھ میری شادی کر دی ، شاید خوش تھے کہ انھیں رائٹر داماد مل گیا ہے تو ایک دن بیٹی کی قسمت کھل جائے گی اور میری قسمت دیکھو کہ رائٹر بھی ایسا کہ جس کی کہانیاں چھاپنے کو کوئی تیار تک نہیں ۔  شکر ہے کہ ہمیں آپ کے خاندانی کاروبار کا سہارا ہے ورنہ آپ رائٹر تو کیا ٹائپ رائٹر تک نہ بن سکے ۔ ‘‘ نیناں غصے سے بولی 
’’ بیگم اب بس بھی کر دو تم بھی تیز گام کی طرح فراٹے بھرتی ہو ، بھئی یار آج کل کی دنیا رنگینوں کو پسند کرتی ہے اور ہم بےچارے سچ لکھنے والے ہیں جو کسی کو ہضم نہیں ہوتا  ۔ ‘‘ واصف نے معصومیت سے کہا ۔ 
’’ اچھا یعنی کہ آپ کو آج کل کے ڈرامے لکھنا مشکل لگتے ہیں  ، اتنے پیسے ملتے ہیں آج کل کے ڈرامہ نگاروں کوکہ میں کیا بتاؤں ؟ ‘‘ نیناں بولی 
’’دیکھو یار میں آج کل کے ڈرامے نہیں لکھ سکتا میں تھپڑ اور طلاق کا کلچر لکھ ہی نہیں سکتا ، میرے پاس  وہ برش ہی نہیں ہے جو کورے کاغذوں کو رنگوں سے سجا  سکے ، لیکن میرا تم سے وعدہ ہے کہ جس دن میں نے منافقت سیکھ لی اس دن ہم بھی ٹیلی فلموں  کے خالق ہوں  گے ۔لیکن نیناں  پتہ نہیں میں منافقت کیوں نہیں کر سکتا  ‘‘ واصف کے لہجے میں تھکاوٹ کیساتھ ساتھ حوصلہ بھی تھا ۔
’’ بس رہنے دیں میں نے دیکھ لئے آپ کے وعدے ، کل سیما بھابھی آئی تھیں کہہ رہی تھیں کہ تمھارا  خاوند  تو بالکل ہی نکما ہو کر گھر بیٹھ گیا ہے اسکی تو اتنی بھی اوقات نہیں کہ تمھیں ایک سونے  کی انگوٹھی ہی بنا کر دیدے ۔ آپ کو پتہ ہے کہ ان کی دونوں  کلائیوں  میں  سونے  کی چوڑیاں تھیں۔ ‘‘نیناں نے  کلائی میں پڑی  کانچ کی لال چوڑیوں کو گھماتے ہوئے کہا ۔
’’ تم پتہ نہیں کیسی باتیں کرتی ہو نیناں تمھیں کچھ کہوں  گا تو برا مان جاؤ گی ، تمھارے بھائی جاوید کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آرہا ہے یہ سب کو ہی پتہ ہے اور پھر اس شوشا کا تم نے کیا کرنا ۔ تم اتنی پڑھی لکھی عورت ہو ان  مادی چیزوں سے  مرعوب مت ہوا کرو ۔ ‘‘ واصف نیناں کو سمجھاتے ہوئے بولا ۔ 
’’ وہ تو ٹھیک ہے پر ہمیں بھی تو زمانے کے ساتھ چلنا چاہیے ناں میں کوئی ناشکری نہیں کر رہی کمی تو کسی چیز کی نہیں ہے لیکن پتہ نہیں دل کو سکون کیوں نہیں ہے ۔ ‘‘ نیناں بے بسی سے بولی 
’’ اس بے بسی اور بے سکونی کی وجہ تمھارے اندر مقابلے بازی کا رحجان ہے ، دیکھو ہمیں کھانے پینے کو سب میسر ہے ۔ بچے بہترین نہیں تو اچھے سکولوں میں پڑھ رہے ہیں ، انھیں ہم خود پڑھا کر اکیڈمی کا خرچ بچاتے ہیں ۔ لیکن پھر بھی تم اگر چاہتی ہو کہ ہم بھی یونہی کریں تو ٹھیک ہے میں بھی اپنی تحریروں میں منافقت کی ملاوٹ کر لیتا ہوں تاکہ انھیں مہنگے داموں خرید لیا جائے اور تمھیں سکون ملے ۔ اب کمرے سے باہر چلی جاؤ اور لائیٹ بند کرنا مت بھولنا ۔ مجھے رات کو ایک سکرپٹ پر کام کرنا  ہے ۔ ‘‘
’’ ٹھیک ہے ہر دفعہ مجھے ہی خاموش کروایا کریں، اوکے جو مرضی کرتے رہیں ۔ آفس کے کپڑے خود استری کر لیجئیے گا براہ مہربانی آپ کی باتوں سے میرے سر میں درد ہو گیا ہے ۔ ‘‘ نیناں نے غصے سے کشن بیڈ پر پھینک دیا ۔ 
’’ اوکے مجھے بھی بحث کی عادت نہیں  ہے تم تو جب دیکھو لڑائی پر آمادہ ہو ۔ حالانکہ اگر تم لڑائی کرنے  پر  تلی رہنے کی بجائے جیسا کہ آج اتوار ہے پوریاں ہی تل لو تو بچے اور میں دونوں پوری  حلوہ کھا کر ہی خوش ہو جائیں گے ۔‘‘ واصف مسکرایا 
’’ آپ بھی بس اب ڈائیلاگ رہنے ہی دیں ۔ پکے رائٹر ہیں آپ ۔ ‘‘ نیناں بھی ہنسنے لگی 
’’ چلو کسی بہانے تم نے یہ تسلیم تو کیا کہ ہم کوئی لکھاری ہیں ویسے میری پہلی قاری اور نقاد تم ہی ہو ، اچھا اب اگر پوریاں نہیں تلنیں تو پلیز ایک کپ چائے ہی بنا دو ۔ ‘‘ اس نوک جھونک سے واصف کا موڈ بھی اچھا ہو گیا تھا ۔ 
’’ اچھا جا رہی ہوں ابھی کچن میں اتنا  کام  پڑا ہے اور آپ کو چائے کی سوجھ رہی ہے خیر آپ کا حکم بھی سر آنکھوں پر ۔ ‘‘ نیناں خوشدلی سے بولی ۔ 
دن گزرتے گئے نیناں اور  واصف میں روز بحث ہوتی اور یونہی ایک کہانی بھی تیار ہو گئی ہاں البتہ واصف نے سوچا تھا کہ طلاق اور تھپڑکو اپنا موضوع کبھی نہیں بنائے گا ۔ ایک شام واصف نے نیناں اور بچوں کو شام کے کھانے کے لئے باہر چلنے کو کہا لیکن کہا کہ ایک سرپرائز ہے جو میں گاڑی میں بتاؤں گا ۔ نیناں  بچوں کے ساتھ خوشی خوشی تیار ہو کر آئی ۔ گاڑی میں بیٹھی تو واصف نے ایک کاغذ اس کے سامنے لہرایا جس میں ٹیلی فلمز اور کئی سلسلہ وار ڈراموں کے کانٹریکٹ تھے  اور واصف کو بطور مصنف چن لیا گیا تھا ۔ 
’’ ارے واہ آپ نے تو بتایا ہی نہیں کہ آپ کو اتنے اچھے ادارے سے لکھنے کی آفر آئی ہے ، اتنا راز کیسے رکھا آپ نے آخر ؟ ویسے کہانی کیا ہے پہلی ٹیلی فلم کی ؟ آپ کون کون سے پلاٹ پر کام کر رہے ہیں ؟ ‘‘ نیناں نے پوچھا 
’’ ہاں مجھے پتہ تھا تم یہ سوال ضرور کرو گی تو جناب پہلی فلم کا سکرپٹ میرے سامنے ہی موجود ہے ۔ دراصل میں نے سوچا کہ تمھاری اور میری گھر میں اتنی لڑائیاں مطلب نوک جھونک ہوتی ہےتو کیوں نہ یہی سکرپٹ رکھ لوں  اور ٹیلی فلم کا نام سوچا ہے ’’ واصف کی معصومیت ، نیناں کے طعنے ‘‘  کیوں ٹھیک ہے ناں ؟ ‘‘ 
’’ کیا ؟ آپ معصوم ہیں   اور میں طعنے دیتی ہوں ، نیناں کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ 
’’ جی نہیں ٹیلی فلم کا عنوان ہے ’’  بیگم کے معصوم طعنے ‘‘  اب خوش ؟ ‘‘ واصف کو مسکراتا دیکھ  کر نیناں بھی ہنس پڑی اور  ڈیش بورڈ پر پڑے پھولوں کے گجرے کلائیوں میں سجانے لگی ۔ 

۔

 نوٹ:یہ  افسانہ نویس کا  ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

 ۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ  کچھ لکھ کر شیئرکرنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.   

مزید :

ادب وثقافت -