مہنگائی کا جن، ماہِ رمضان اور انسان!

پرانے وقتوں میں لوگ جنگل میں ہوتے تھے تو جن بھوتوں سے ڈرتے تھے۔وہ دور گزر گیا، جنگل میں منگل ہونے لگا اور آج کے دور میں عوام جس چیز سے ڈرتے ہیں،بلکہ مشہور فقرے کا سہارا لوں تو جس جن سے ان کی ”کانپیں ٹانگتی ہیں“ وہ ہے ’مہنگائی کا جن‘۔ یہ وہ جن ہے جسے نہ تو تعویذ سے قابو میں لایا جا سکتا ہے اور نہ ہی دم درود سے بھگایا جا سکتا ہے۔ بڑے بڑے پیر اس جن کے مرید ہیں اور اس کے چرنوں کو چھو کر اپنی اپنی خواتین اوّل کے ہاں سرخرو ہوتے ہیں۔ یہ جن جتنا بھگایا جائے، اتنا ہی تگڑا ہو کر واپس آتا ہے۔ پہلے پہل یہ جن صرف چینی اور آٹے کے دام بڑھاتا تھا،لیکن جب سے یہ جن مسلمان ہوا ہے تب سے اسے کچھ زیادہ ہی طاقت مل گئی۔ اس جن نے باقاعدہ تاجر بن کریا دوسرے الفاظ میں ریاست کا روپ دھار کر پٹرول، گیس اور بجلی پر بھی قبضہ جما لیا ہے۔گھروں میں گیس ملے نہ ملے، لیکن آپ جیب میں ہاتھ ڈالیں تو وہاں گیس ضرور ملے گی۔
پرانے وقتوں میں ”چائے پر گپ شپ“ ہماری ثقافت تھی۔ کیا ادبی اور علمی محافل چائے کے نام سجتی تھیں، لیکن مہنگائی کے جن نے وہ قیامت ڈھائی ہے کہ آج کل فیملی، دوست اور علم و ادب تو کجا انسان کے پاس اپنے لئے بھی وقت نہیں۔ انسان کی ساری تگ و دو صرف اور صرف کمانے پر تاکہ وہ مہنگائی کے جن کی بھینٹ چڑھنے سے بچ سکے۔مہنگائی کا جن لٹھ لے کر لوگوں کے پیچھے پڑا ہے اور وہ دوڑے جا رہے ہیں۔ کھاناکھلے تو لوگوں کی دوڑ دیکھ کر کیا لگتا ہے؟ ابھی پچھلے دِنوں فیصل مسجد میں افطار کا کیا عالی شان ”گھڑمس“ دیکھا۔وہ وقت گیا جب کہا جاتا تھا کہ ”کھانا کھل گیا ہے“، اب تو لگتا ہے جیسے ”انسان کھول دیے گئے ہوں“۔ بہت سے عامل یہ اشتہار تو لگاتے ہیں کہ ”محبوب قدموں میں“ لیکن کسی عامل نے آج تک اس جن کو قابو کرنے کا دعوی نہیں کیا۔ اس جن نے امیروں پر عقل پر بھی معکوس اثرات ڈالے ہیں۔ بیچارے پہلے پہل بڑی گاڑیاں خریدیں گے، اپنے بچوں کو مہنگے سکولوں میں داخلہ دلوائیں گے اور پھر بڑے ہی معصومانہ انداز میں پوچھیں گے کہ اتنے پٹرول اور بچوں کی فیس کے پیسے کہاں سے آئیں گے؟ اس جن نے بڑے بڑے اساتذہ کے فلسفہ زبان و بیان کو بھی بدل ڈالا ہے۔ پہلے لوگ کہتے تھے، ”بھائی، زندگی گزارنے کے لئے پیسا ضروری ہے“، لیکن اب کہتے ہیں، ”زندگی ہی پیسا ہے“۔ کیا دور تھا کہ لوگ تنخواہ لینے کے بعد ہنسی خوشی بازاروں میں نکل جاتے تھے، اب تنخواہ ملتے ہی وہ دودھ، کریانے اور سکول وغیرہ کا رخ کرتے ہیں تاکہ سابقہ بقایا جات چکا کر اگلے مہینے زندگی کا سامان کیا جائے۔ وہ وقت بھی لد گیا جب عوام ”سیل“ کا انتظار کیا کرتے تھے، آج تو سیل کے نام پر پچاس کی چیز اسی روپے دی جا رہی ہوتی ہے۔ بعض دانشوروں کا کہنا ہے کہ مہنگائی کا اصل قصور وار وقت ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدلتا جا رہا ہے، لیکن مجھے یہ درست نہیں لگتا کیونکہ وقت کے ساتھ قیمتیں تو بدل رہی ہیں، لیکن زندگی نہیں بدل رہی۔ قیمتیں آئے روز بڑھ رہی ہیں، لیکن انسان کا "قد کاٹھ "وہیں رکا ہوا ہے۔ جمہوریت نامی یونیورسٹی میں عوام کو ”بس عوام کو تھوڑا صبر کرنا چاہیے“، لیکن یہ نہیں بتاتے کہ صبر کا سیمسٹر کتنے سالوں میں مکمل ہوگا؟
رمضان المبارک میں جب شیطان قید ہو جاتا ہے تو یہ جن ”آزاد“ ہو جاتا ہے۔ مہنگائی کے کھیل میں ایمپائر بھی اس کے ساتھ مل جاتا ہے۔ نہ جانے کیا ماجرا ہے کہ رمضان آتے ہی یہ جن جیسے دکانداروں پر کوئی خاص وحی نازل کرتا ہے کہ ”اٹھو، قیمتیں بڑھاؤ، عوام کو رلاؤ!“۔ اس ماہِ مبارک میں ایک طرف اللہ تعالیٰ نیکیوں کا موسم بہار لاتا ہے تو دوسری طرف بالکل اسی طرح دکاندار حضرات مہنگائی کا ”اسپیشل ایڈیشن“ شروع کرتے ہیں۔پاکستان میں بھلے کوئی راکٹ چاند یا مریخ تک نہ پہنچ پایا ہو لیکن چینی، آٹا، پھل، اور سبزیوں کی قیمتیں بلیک ہول کراس کر کے وائٹ ہول تک ضرور پہنچ جاتی ہیں۔ایسا لگتا ہے جیسے دکاندار عبادت کے ایک نئے لیول: ”زیادہ کماؤ، ثواب پاؤ“پر وکٹری اسٹینڈ لے چکے ہوں۔سبزی فروش اور پھل فروش رمضان کی آمد پر کچھ الگ ہی مشن پر نکل آتے ہیں۔اشیائے خوردونوش ایسے مہنگے داموں فروخت کی جا رہی ہوتی ہیں گویا سونا ہو۔ اگر بھولے سے کوئی گاہک پوچھ ہی لے تو دکاندار فلسفیانہ انداز میں کہتا ہے: ”بھائی جان، امارا روزہ خراب نئی کرو“۔ ریٹ لسٹ میں قیمتیں اور ہوتی ہیں اور دکاندار کے ریٹ اور ہوتے ہیں۔اگر اس جانب توجہ دلائی جائے تو دکاندار کہتا ہے کہ حکومتی ریٹ لسٹ اور قیمتوں کا بھی آپس میں اتنا ہی تعلق ہے جتنا خود حکومت اور عوام کا ہے۔
رمضان میں مہنگائی اور نمازیوں کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ رمضان شروع ہوتا ہے تو مہنگائی بھی نمازیوں کی طرح یکلخت بڑھ جاتی ہے، لیکن آخری عشرے میں دونوں کم ہو جاتے ہیں لیکن آخری دنوں یعنی ختم قرآن کے موقع پر ایک بار پھر یہ دونوں آخری جھٹکے لگاتے ہیں۔ ہر رمضان میں حکومتی وزراء عوام کو تسلی دینے کے لئے نکلتے ہیں اور کہتے ہیں:”ہم مہنگائی کو کنٹرول کریں گے“،لیکن یہ مہنگائی کو اسی طرح کنٹرول کرتے ہیں جیسے عوام آبادی کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ جن کسی پیر فقیر کے قابو میں آنے کا نہیں لہٰذا دل تھامیے،خود کو صبر دیجئے اور کہتے جائیے: ”اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور دکاندار منافع بلکہ مزید منافع کے ساتھ“۔
٭٭٭٭٭