نظام کی جونکیں 

  نظام کی جونکیں 
  نظام کی جونکیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

باتیں سبھی اچھی کرتے ہیں پھر ملک میں سب اچھا کیوں نہیں ہوتا؟یہ سوال شاید ہر پاکستانی کو تنگ کرتا ہے۔ کل ایک رشوت لینے والے سرکاری اہلکار کو انٹی کرپشن پولیس نے پکڑا تو ساتھ ہی یہ بیان بھی سامنے آیا کہ محکمہ انٹی کرپشن کی رشوت اور بدعنوانی کے حوالے سے زیرو ٹالرینس ہے۔بلے  بلے جی بلے بلے۔یہ تو کمال ہو گیا پھر تو رشوت کا نام و نشان باقی نہیں رہنا چاہئے، کچھ روز پہلے ملتان ڈویژن کے ایک اعلیٰ افسر نے خوشخبری سنائی کہ عوام کو سہولتیں فراہم کرنا اور دفاتر میں ہر شہری کا کام میرٹ پر کرنے کے لئے وزیراعلیٰ مریم نواز کی ہدایت پر مکمل عمل کیا جا رہا ہے۔یہ بھی اچھا ہو گیا،پھر تو شہریوں کی موجیں ہو گئیں۔ایک بڑے پولیس افسر کا بیان تھا پولیس کی طرف سے کسی قسم کا ظلم اور ناانصافی برداشت نہیں کی جائے گی،جو پولیس اہلکار و ملوث پایا گیا،اُسے محکمے سے نکال دیا جائے گا،تھانوں کو عوام دوست بنا دیا گیا ہے،پولیس کلچر اور تھانہ کلچر میں نمایاں تبدیلی آ چکی ہے ارے واہ یہ تو بڑی خوشخبری مل گئی۔اب تو عوام پولیس سے ڈریں گے نہیں، بلکہ پولیس والوں سے جپھیاں ڈالیں گے۔اس سے پہلے اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان یہ خوشخبری تو ہمیشہ سناتے رہتے ہیں کہ بلاامتیاز فوری انصاف فراہم کرنا عدالتوں کا مشن ہے اور وہ اس پر پوری شدت سے عمل کر رہی ہیں جہاں تک حکمرانوں کا تعلق ہے تو وہ دن رات یہ مژدہ سناتے ہیں کہ عوام کے مسائل حل کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا جائے گا۔کوئی غیر ملکی ان باتوں،ان دعوؤں اور ان خوشخبریوں کو سنے تو یہ کہے بغیر نہ رہے کہ پاکستان جیسا تو کوئی فلاحی ملک نہیں،اس کا ہر ادارہ اور ہر ادارے کا ایک ایک فرد اپنے فرائض کی بجا آوری میں پوری تندہی سے لگا ہوا ہے۔دن دیکھتا ہے نہ رات بس ایک ہی لگن اسے متحرک رکھتی ہے کہ کسی طرح عوام کی خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دے،لیکن خدانخواسطہ اُس کا واسطہ کسی دفتر سے پڑ گیا تو اُس کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔وہ کانوں کو  ہاتھ لگا کر اپنے اچھے خیالات پر توبہ کرے گا اور پہلی فرصت میں جہاز پکڑ کر بھاگ جائے گا۔علامہ اقبالؒ تو ہمارے بارے میں بہت پہلے کہہ گئے تھے کہ ہم گفتار کے غازی ہیں کردار کے غازی نہیں بن سکے۔باتیں جتنی مرضی کرا لو،عمل کے لئے نہ کہنا کہ ہمارے پَر چلنے لگتے ہیں، پولیس افسر کی باتوں کا ابھی رنگ بھی مدھم نہیں پڑا ہوتا کہ خبر آ جاتی ہے،پولیس والوں نے تشدد کر کے بندہ مار دیا۔رشوت نہ دینے پر کسی کی ٹانگ توڑ دی کسی کا بازو علیحدہ کر دیا۔اب تو وڈیو کیمروں کا زمانہ ہے ایسی ایسی وڈیوز دیکھنے کو ملتی ہیں کہ اس نظام پر تین نہیں چار صرف بھیجنے کو جی چاہتا ہے۔ پنجاب کے تھانے موجودہ آئی جی ڈاکٹر عثمان انور نے چمکتے دمکتے بنوا دیئے ہی،اچھے صوفے،اچھے ائرکنڈیشنڈ ماحول اور خوبصورت انفراسٹرکچر اور چائے پانی کی فراہمی جیسے اقدامات سے گویا ایک رنگ لگا دیا ہے،مگر ٹھہریئے صاحب یہ اوپر کی لش پش ہے۔اندر وہی بوسیدگی ہے جسے ختم کرنے کے لئے ماضی میں سردار محمد چودھری بھی بہت کوششیں کرتے دنیا سے رخصت ہو گئے  میرا ایک شعر ہے:

تم نئے شہر میں ہر چیز نئی دیکھو گے

یہ بھی سچ ہے کہ وہاں لوگ پرانے ہوں گے

اس میں تھوڑی سی ترمیم کر کے آپ شہر کی جگہ  تھانے کر سکتے ہیں۔کیا پولیس کی ذہنیت بدلے بغیر پولیس کلچر بدل سکتا ہے؟ یہ سوال میں نے ایک اعلیٰ پولیس افسر سے پوچھا۔ انہوں نے کہا نام نہ لکھیں البتہ میرا جواب نفی میں ہے۔ یہاں تو ہم خود پولیس کا غیر قانون استعمال کرتے ہیں،سیاسی وجوہات پر ایسے ایسے احکامات دیئے جاتے ہیں جو لاقانویت کی انتہاء ہوتے ہیں،جب ہم خود ایسی مثالیں قائم کرتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے ہم اپنے ماتحتوں سے یہ توقع کریں وہ موقع ملنے پر اپنا اُلو سیدھا نہیں کریں گے۔انہوں نے نوشیرواں کا قصہ سنایا،اُس کے ایک درباری نے کہا میں آپ کے لئے باغ سے تازہ سیب تڑواتا ہوں۔نوشیرواں نے پوچھا سیب توڑنے کون جائے گا۔ درباری وزیر نے کہا اپنے سپاہی بھیج دیتے ہیں۔ نوشیرواں نے یہ سُن کر سختی سے منع کر دیا۔اس نے کہا یہ دس سیب اگر میرے لئے توڑیں گے سو سیب اپنے لئے توڑ کے پورا باغ اُجاڑ دیں گے۔ انہوں نے کہا جب پولیس کو راستے ہم خود دکھائیں گے،استعمال خود کریں گے تو پھر یہ توقع کیسے رکھ سکتے ہیں کہ وہ خود اپنے لئے اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کریں گے۔میں نے کہا آپ تو بہت سچ بول رہے ہیں، کہنے لگے ہم سب سچ بولتے  ہیں،مگر آف دی ریکارڈ، کبھی یہ نہیں ہوتا کہ غلط حکم ماننے سے انکار کریں،سو اِسی طرح یہ نظام چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔

مجھے چند روز پہلے ایک یہ خبر ملی کہ وزیراعلیٰ مریم نواز نے سرکاری ہسپالوں میں سینئر ڈاکٹروں کی موجودگی یقینی بنانے کے لئے بائیو میٹرک حاضری کا نظام لاگو کروا دیا ہے۔اب صبح آٹھ بجے ہسپتال کی لوکیشن پر پہنچ کر حاضری لگتی ہے اور دوپہر ایک بجے بائیو میٹرک حاضری کے بعد چھٹی ہوتی ہے اِس سے کیا فرق پڑا، اسے چیک کرنے کے لئے میں نے اپنے ایک دوست ڈاکٹر سے رابطہ کیا،جو خیر سے ایک پروفیسر کی سطح کے ڈاکٹر ہیں۔انہوں نے اس کی تصدیق کی،میں نے پوچھا تو کیا آپ11بجے اپنے پرائیویٹ کلینک پر نہیں ملیں گے؟انہوں نے کہا ملوں گا کیوں نہیں ملوں گا،کوئی مریض چیک کرانا ہے؟میں نے کہا ہاں ایک دوست اپنی اہلیہ کو چیک کرانا چاہتے ہیں،میں نے پوچھا آپ تو ایک بجے تک بائیو میٹرک کی وجہ سے ہسپتال نہیں چھوڑ سکتے۔ہنس کر کہنے لگے یہ تمہیں کس نے کہا صرف حاضری ہسپتال کی لوکیشن پر پہنچ کر موبائل  ایپ کے ذریعے لگتی ہے۔ اُس کے بعد کون چیک کرتا ہے ہاں چھٹی کے وقت پھر جانا پڑتا ہے اور پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر کے بائیو میٹرک کر کے واپس آ جاتا ہوں،تم انہیں بھیج دینا۔ لو جی یہ پڑی  ہے گڈ گورننس اور یہ پڑی ہے بائیو میٹرک حاضری۔ جب نیت خراب ہو تو ٹیکنالوجی کیا بگاڑ سکتی ہے، جس زمانے میں پولیس والوں کے پاس میٹرولا وائرلیس سیٹ ہوتے تھے،اُس زمانے میں ایک پولیس افسر دوست شریف ظفر مجھے رات کے وقت گشت میں اپنے  ساتھ لے جاتے،ہم جس چوک پر پہنچتے وہاں پولیس موجود نہ ہوتی،وہ جب کال کرتے تو متعلقہ اہلکار بتاتا جناب میں چوک پر کھڑا ہوں،جب وہ اسے کہتے میں تو خود اس چوک پر ہوں تو وہ شرمندہ ہو کر کہتا سر میں تھوڑی دیر کے لئے گھر آ گیا تھا تو صاحبو! حکمرانوں کی بات چھوڑیں ذرا اپنے اس نچلے نظام پر غور کریں تو اندازہ لگانے میں مشکل نہیں ہو گی ہم سب پاکستان سے فلرٹ کر رہے ہیں۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -