گوادر: چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور

گوادر: چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور
گوادر: چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گوادر پاکستان کے لئے سونے کی چڑیا ثابت ہورہا ہے۔ آج پاکستان عالم اسلام میں واحد ایٹمی پاور ہے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت اس خطہ میں سب سے زیادہ ہے۔ فوجی قوت کے حوالے سے دنیاکی پانچویں بڑی حیثیت ہے۔ اب چین کے ساتھ معاشی معاہدوں کے بعد اس کی معاشی زندگی کا نیا باب شروع ہوا چاہتا ہے۔ اب چین نے پاکستان کے ساتھ اربوں ڈالر کے معاہدے کئے ہیں۔ چین گوادر پانچ منصوبے شروع کرے گا۔ اس میں پینے کے صاف پانی کا منصوبہ بھی شامل ہے ۔اس میں چین کے سرمایہ کار شامل ہوں گے۔ اس منصوبہ پر تیرہ ارب بیس کروڑ روپے خرچ کئے جائیں گے۔ یہ منصوبہ سمندر کے کھارے پانی کو میٹھا کرے گا۔ اس منصوبے میں واٹر فلٹریشن پلانٹ لگائے جائیں گے۔ یہ گوادر کے ساحل کے کنارے لگائے جائیں گے۔ گوادر فری ٹریڈ زون پر ایک ارب چالیس کروڑ روپے خرچ کئے جائیں گے اور عوام کی سہولت کے لئے اس حصہ میں دس ارب روپے کی لاگت سے ہسپتال قائم کیا جائے گا اور اس میں تمام سہولیات مفت فراہم کی جائیں گے اور ایک جدید ایئرپورٹ تعمیر ہوگا اور جدید ایکسپریس وے تعمیر ہوگی۔کاشغر سے گوادر تک 2400 کلو میٹرکا فاصلہ ہے اور اس تمام راستے میں اہم معاشی زون بنائے جائیں گے۔چین پاکستان اقتصادی راہداری ایک سنہرے باب کااضافہ کرے گا۔گوادر تا کاشغر صرف کسی شاہراہ کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ مختلف صنعتی منصوبوں کا مجموعہ ہوگا اور جہاں جہاں سے اکنامک کوریڈور گزرے گا، ان حصوں میں معاشی نئی صبح طلوع ہوگی۔ گوادر بندرگاہ کو اندرون وبیرون ملک منڈیوں سے سڑکوں کے نیٹ ورک کے ذریعے جوڑا جائے گا ،جس میں مغربی اور مشرقی روٹس شامل ہیں اور اس معاہدہ میں طے ہے کہ مغربی روٹس کو ترجیحی بنیادوں پر 2016ء تک مکمل کرلیا جائے گا۔


گوادر پاکستان کے لئے گولڈن گیٹ ثابت ہوا ہے۔ اس منصوبے میں کراچی تا پشاور ریلوے ٹریک کے موجودہ نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا۔ یہ معاشی ٹریڈ کو ریڈور چاروں صوبوں سے گزرے گا اور ان حصوں میں نئے معاشی زونز بنائے جائیں گے۔
اب تک وفاقی حکومت نے یہ نہیں بتایاکہ گوادر کے علاوہ بلوچستان کے جن حصوں سے یہ روٹس گزریں گے ،وہاں کون کون سے معاشی زون بنائے جائیں گے۔ اس حوالے سے وفاق کوئی واضح موقف بیان نہیں کررہا ہے۔مغربی روٹ کاشغر سے پشاور تک آئے گا۔ اس کے بعد پشاور سے گزرتا ہوا ڈیرہ اسماعیل خان تک پہنچے گا۔ اس روٹ کو روٹ نمبر ون کا نام دیا گیا ہے۔ یہ روٹ ڈی آئی خان سے ژوب تک آئے گا، اس کے بعد قلعہ سیف اللہ تک آئے گا۔ پھر کوئٹہ اور اس کے بعد مستونگ سے قلات اور پھرسوراب سے خضدار سے پنجگور آواران تربت گوادر تک روٹ نمبر ون مکمل ہوجائے گا۔

قارئین محترم! لاہور سے اسلام آباد تک اس کی لمبائی 367 کلومیٹر ہے اور پشاور سے اسلام آباد تک اس کی لمبائی 154 کلومیٹر ہے، یہ روٹ نمبر دو ہے۔ پنڈی بھٹیاں فیصل آباد 53 کلومیٹر ہے۔ ملتان سے ڈیرہ غازی خان تک 84 کلومیٹر ہے ،پھر صادق آباد تک اس کے بعد رتوڈیرو سے خضدار کا روٹ ہے۔ اس کے علاوہ روٹ نمبر تین یوں ہے رتو ڈیرو سے ہوتا ہوا حیدرآباد اور پھر کراچی تک یہ روٹ جائے گا ،پھر کراچی سے گوادر یہ نیشنل ہائی وے کا روٹ ہے۔ حکومت کے مطابق یہ لانگ ٹرم روٹ ہے۔ شارٹ ٹرم روٹ وہ ہے ،جو مغربی کہلاتا ہے اور ژوب سے ہوتا ہوا کوئٹہ اور خضدار کے راستے گوادرتک جائے گا۔بلوچستان اور کے پی کے کی تمام قوم پرست پارٹیوں کا اضطراب ہے کہ اس روٹ پرحکومت یکسونہیں ہے اس لئے وہ سراپا احتجاج ہیں اور نواز شریف کا کھل کر اظہار خیال نہ کرنا بھی اس انتشار کا سبب بنا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین گوادر تک پہنچنا چاہتا ہے اور اس کا اصل ہدف گوادر ہے اور گوادر کے ذریعے مشرقِ وسطی اور پھر وسط ایشیاء اور مغرب تک اپنا معاشی پروگرام پہنچانا چاہتا ہے۔اس کے لئے اس نے طویل منصوبہ بندی کرلی ہے اور اس جانب آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے۔ افغانستان کے صوبہ ہلمند میں اس نے تین ارب کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ ایران کے ساتھ معاہدہ کرچکا ہے۔
قارئین محترم! سب سے زیادہ جو بات کھٹکتی ہے، وہ نواز شریف کی وہ بے نیازی کی روش ہے، جو انہوں نے چین سے معاہدہ کرتے وقت بلوچستان کے وزیراعلیٰ کو نظرانداز کرکے اختیار کی بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے تو اس موقع پر خاموشی اختیار کرلی اور کوئی احتجاج بھی نہیں کیا۔ اور چند دن قبل اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرے علم میں نہیں ہے، کون سا روٹ اختیار کیا جارہا ہے اور کہاکہ مجھے ویسے تو علم ہے، لیکن حکومت نے باضابطہ سرکاری طور پر نہیں بتلایا ہے ۔یوں انہوں نے دبے الفاظ میں اپنا احتجاج ریکارڈ کردیا ہے۔


پنجاب کو اب اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ اپنی آبادی کی بنیاد پر چھوٹے صوبوں کو نظرانداز کرنا کسی طور درست نہیں ہے اور ایسا معاہدہ ،جس کی ساری چابیاں بلوچستان کے ہاتھ میں ہیں، اس سے اس طرح بے نیازی اور بے رخی کسی طرح درست نہیں ہے۔ اس معاہدہ میں وزیراعلیٰ بلوچستان کی موجودگی ہر لحاظ سے ضروری تھی۔ *

مزید :

کالم -