چینی بلاک یا نیو ورلڈ آرڈر

چینی بلاک یا نیو ورلڈ آرڈر
 چینی بلاک یا نیو ورلڈ آرڈر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیراعظم نوازشریف گزشتہ روز 6روزہ دورہ چین مکمل کر کے وطن واپس پہنچے۔دورے کے دوران جہاں ملکی معیشت کو سہارا دینے والے متعدد معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے وہیں ان کی عالمی رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کی گونج بھی سنائی دی۔ دورہ چین میں خاکسار بھی صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے ہمراہ تھا اور وہاں نہ صرف پاکستانی قیادت،بلکہ مختلف چینی سرمایہ کاروں کے گروپوں سے پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری پربھی سیرحاصل گفتگو کرنے کا موقعہ ملا۔ گو پاکستان کے معاشی حالات 2013ء کی نسبت آج خاصے حوصلہ افزا اور بہتر ہیں اور اس میں ایک اہم کردار بلاشبہ چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری کا بھی ہے، مگر یہاں ہمیں اس کا باریک بینی سے جائزہ بھی لیناہو گا کہ آیا سٹاک ایکسچینج کا بلند ہونا ،کریڈٹ ریٹنگ کا مستحکم ہونا اور ڈالر کی قیمت مسلسل کچھ مہینوں سے رکی رہنا مستقل بنیادوں پر ہوا ہے یا اس میں مصنوعی گراوٹ کا عنصر بھی شامل ہے۔ اس نقطے کو ہم آئندہ کسی کالم میں ضرور ڈسکس کریں گے کہ معاشی استحکام کے لئے حکومت کیا کررہی ہے اور کیا کرنا ہو گا۔ ہم بات کررہے تھے کہ چینی سرمایہ کاری نے پاکستان کی معیشت کو سہارا دیا ہے۔چین کے دورہ کے موقعہ پر سب سے خوشگوار حیرت اس لئے بھی ہوئی کہ دورے میں وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ صوبوں کے چاروں وزراء اعلیٰ بھی تھے۔چین پہنچنے پر وزیراعظم اپنے وفد اور چاروں وزراء اعلیٰ کے ساتھ ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرے اور چینی قیادت سے چاروں وزراء اعلیٰ نے بھی ملاقاتیں کیں۔وزیراعظم کے دورے کا مقصد چین میں ہونے والے بیلٹ روڈ فورم میں شرکت کرنا تھا،جس میں 100سے زائد ممالک کے وفود اور28 ممالک کے سربراہان بھی شریک تھے۔


بیلٹ روڈ فورم درحقیقت چینی قیادت کا مستحکم اور خوشحال چین کا خواب ہے، جس میں وہ تین براعظموں کو ایک روڈ کے ذریعے جوڑ رہا ہے اور قدرتی طورپر پاکستان اس کا پہلا شراکت دار ہے اور سلک روڈ پر اقتصادی راہداری کا روٹ بھی اسی کا سلسلہ ہے۔ گو بیجنگ میں عالمی رہنماوں کی موجودگی میں سجنے والے بی آر فورم میں عالمی اداروں خصوصا آئی ایم ایف،ورلڈ بنک کے سرابراہان موجود تھے،بلکہ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کی موجوگی نے بھی اس فورم کو چار چاند لگائے۔فورم میں جہاں چینی صدر نے سلک روڈ کو ترقی کی شاہراہ سے تعبیر کیا وہیں روس، ترکی اور افریقی ممالک کی جانب سے اس میں بھرپور شامل ہونے کے اعلانات نے کئی اشارے بھی دے دئیے ہیں اور کبھی کبھی گمان ہوتا ہے کہ دنیا کی طاقت کا مرکز بھی شاید آنے والے 10 سال میں امریکہ کی بجائے چین ہو گا اور اس نئے بلاک میں بلاشبہ کئی ترقی یافتہ ممالک تو شامل ہوں گے، مگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لئے اس بلاک میں اپنی جگہ بنانا بھی آنے والی حکومتوں کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھے گا، کیونکہ اگر امریکہ بہادر اس شاہراہ کی مخالفت نہیں کرتا تو لازمی طور پر افریقہ، یورپ اور ایشیاء ناصرف قریب آئیں گے،بلکہ ان تمام براعظموں کی منڈیاں بھی وسیع ہوں گی اور اگر سپر پاور اس کی مخالفت کرے گی تو کم از کم پاکستان میں اس کے منفی نتائج جلد سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ فورم میں بھارت کی جانب سے شرکت نہ کرنے کو ناصرف پاکستان، بلکہ چین نے بھی محسوس کیا اور اس امر کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کیا بھارت اس سلک روڈ پر پروپیگنڈہ تو شروع نہیں کرنے جا رہا۔وزیراعظم نواز شریف کے دورے میں اگر پاکستانی سفارت خانہ مزید بہتر حکمت عملی شامل کرتا تو اس عالمی فورم کے موقعہ پر کئی عالمی رہنماؤں سے مزید ملاقاتیں بھی ہو سکتی تھیں، مگر سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے اس پر خصوصی توجہ نہیں دی جاسکی جس سے حقیقی طور پر فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے دورے کے دوران مختلف سرمایہ کاروں کے گروپوں سے ملاقاتیں ضرورکیں اور انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کی ناصرف دعوت دی،بلکہ بیرونی سرمایہ کاروں کے لئے سازگار ماحول اور نرم ویزہ پالیسی کے حوالے سے بھی یقین دہانی کرائی گئی۔ وزیراعظم نوازشریف دورہ چین مکمل کر کے وطن کو لوٹ رہے تھے تووہیں عالمی عدالت انصاف کی جانب سے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کو روکنے کی خبر نے بھی عالمی اور مقامی میڈیا میں اپنی جگہ بنائی اور وہیں ایک مرتبہ پھر پاکستان کی خارجہ پالیسی پر سوالات اٹھنا بھی شروع ہوئے۔


وزیراعظم کے دورہ چین کے بعد اب سعودی عرب کا دورہ بھی کافی اہمیت کا حامل ہے جس میں وہ امریکی صدر ٹرمپ سے غیر رسمی ملاقات کریں گے، جبکہ عالمی عدالت انصاف کی جانب سے کلبھوشن کی سزا روکنے کے فیصلے کو بھی عالمی سطح پر بھارت اٹھائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کیسے چین سے شروع ہونے والے اقتصادی راہداری منصوبے سے مزید فائدہ اٹھا کر عوام اور ملک کے حالات بہتر بنانے میں کامیاب ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس نئے ورلڈ آرڈر پر بھی کیا کوئی عمل درآمد شروع ہوتا ہے یا نہیں ۔ اس کے لئے آنے والے چند سال بہت اہمیت کے حامل ہوں گے، اگر یہ شاہراہ حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے تو پھر وہ دن بھی دور نہیں جب طاقت کا توازن امریکہ کی بجائے چین ہو گا اور چین نئی سپر پاور کے طور پرابھرے گا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق سی پیک اب ون بیلٹ ون روڈ میں تبدیل ہو چکا اور آنے والے دنوں میں مزید عالمی طاقتوں کی اس میں شمولیت اس کے قابل عمل ہونے کا بھی اشارہ دیگی اور وہ دن دور نہیں جب گوادر کی بندرگاہ پاکستانیوں کے لئے زبانی معاشی انقلاب کا باعث بنے گی، مگر اس کے لئے دعووں کی بجائے تمام صوبائی حکومتوں کو بھی مل کر کام کرنا ہو گا۔

مزید :

کالم -