خطرناک سیاسی بحران
عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کا دھرنا آج ایک مہینے سے بھی زیادہ کا ہو چکا ہے۔ان پچیس دنوںمیں پاکستان کو جس اقتصادی اور سیاسی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کا مکمل اندازہ فوری طور پر ممکن نہیں۔ وزیراعظم سے استعفیٰ کے مطالبے کے بعد جنم لینے والی سیاسی بے چینی بے حد خطرناک ثابت ہو ئی ہے۔ مخدوش سیاسی صورت حال کے پیش نظر عالمی سطح پربھی ایک منفی تاثر ابھر اہے اور عالمی برادری میں اس بارے تشویش پائی جاتی ہے۔© عمران خاں اور طاہر القادری اپنے مطالبات سے ہٹنے کو تیار ہیں اور نا ہی وزیراعظم استعفیٰ دینے پر۔ حکومت کا موقف اصولی طور پر درست ہے یا نہیں، ایک الگ بحث ہے۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ اتنے وسیع وقت کے باوجود حکومت قضیہ حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔یہ حکومت کی ناکامی ہے، جسے نظر اندازنہیں کیا جاسکتا۔
کیا قیادت سے غلطی سرزد نہیں ہوسکتی ہے؟ ایسا ہو سکتا ہے۔ لیڈر فرشتہ نہیں انسان ہوتا ہے،لیکن کامیاب لیڈر وہی ہوتا ہے جو غلطیاں دھرانے کی بجائے انہیں دور کرے اور مشکل وقت میں مشکل فیصلے کرسکے۔ہر قوم کی سیاسی تاریخ میں ایسے بحران جنم لیتے ہیں، جس کا آج ہمیں سامنا ہے۔قیادت کا درست اندازہ اسی صورت حال میں ہوتا ہے۔ گویا یہ میاں صاحب کی سیاسی بصیرت کا امتحان ہے۔ حقائق تو یہی بتاتے ہیں کہ میاں صاحب سے کئی غلطیاں سرزد ہو ئیں ، لیکن اب انہیںجذبات کو علحدہ رکھ کے جرا¿ت مندانہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے میاں صاحب کے کئی فیصلوں سے سخت اختلاف ہے، مگر دوسری طرف مشترکہ پارلیمانی اجلاس بلانے کا فیصلہ لائق تحسین ہے۔ مجموعی طور پر اس سے کئی مثبت چیزیں دیکھنے کو ملی ہیں۔خصوصاً پارلیمینٹ نے کسی بھی غیر آئینی اقدام کو مسترد کر دیا ہے۔ تمام ارکان اسمبلی نے پالیمینٹ کے تقدس کی خاطر جس یکجہتی کا اظہار کیا ہے ، وہ بھی قابل تعریف ہے۔چندروز کے دوران ہم دنیا تک یہ واضح پیغام پہنچانے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ جمہوریت کے تسلسل کی خاطر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں متحد ہیں اور وہ کسی غیر آئینی اقدام کی حمایت نہیں کریں گی۔ دوسری مثبت تبدیلی میڈیا کے حوالے سے سامنے آئی ہے۔ میڈیا نے اپنی ذمے داری کا احساس کیا ہے اور ریڈزون میں موجود مظاہرین کو غیر ضروری کوریج دے کر ہیرو بنانے کی کوشش ترک کر دی ہے۔ مشترکہ پارلیمانی اجلاس سے قبل ایسا نہیں تھا۔ حکومت کے لئے یہ دونوں باتیں اہمیت کی حامل ہیں۔
اگر واقعات کی چند کڑیوں کو باہم جوڑ کے دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید حکومت موجودہ بحران مذاکرات کے ذریعے حل کرنے میں زیادہ سنجیدہ نہیں۔ اس کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ مذاکرات کی صورت میں حکومت کو کچھ نہ کچھ کھونا پڑے گا اور حکومت ایسا نہیں چاہتی۔ اب تک مذاکرات کے جتنے بھی دور چلے ہیں، سب کے سب ناکام ہوئے ہیں۔ ناکامی کی وجہ عمران خاں کی ڈھٹائی بھی تھی اور حکومتی وزراءکا رویہ بھی۔ بعض ایسے مقامات ضرور آئے تھے جہاں فریقین کی طرف سے لچک نظر آرہی تھی، مگر چند وزرا کی زبان درازی نے ساری پیش رفت پر پانی پھیر دیا۔ وفاقی وزرا کے اس رویے کے بعد اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ حکومت مذاکرات کی بجائے کوئی دوسری پالیسی اپنا رہی ہے اور مظاہرین کو اعصابی شکست دینا چاہتی ہے۔ لہٰذا ہمیں ایک بات ضرور واضح کر لینی چاہئے کہ مذاکرات کے ذریعے نکلنے والا سیاسی حل ہی حالات کو مثبت سمت میں لے جا سکتا ہے۔اگرحکومت اس کی بجائے کوئی اور حکمت عملی اپناتی ہے تو حالات کے تناظر میں یہ فیصلہ درست نہیں ہوگا۔
اس بحران میں جو کردار اپوزیشن ادا کر رہی ہے ایسا ماضی میں نہیں ہوا۔ یہ ایک مثبت تبدیلی ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ آج پاکستانی سیاست تبدیل ہورہی ہے۔ بھٹو کی حکومت کا خاتمہ ہو یا وزیراعظم نواز شریف کی دوسری حکومت پر ہونے والا شب خون، اپوزیشن کا کردار ہمیشہ رہا، لیکن آج حالات تبدیل ہوچکے ہیں۔پی ایم ایل (ن) کی سیاسی حریف پیپلز پارٹی سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں غیر آئینی طریقے سے حکومت گرانے کی کھل کر مخالفت کر رہی ہیں۔پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی بڑے خلوص کے ساتھ بحران کا حل تلاش کرنے میں تعمیری کردار ادا کر رہی ہیں۔بادل ناخواستہ اگر اپوزیشن جماعتیں بھی عمران خاںکا راستہ اپنا لیتیں تو شاید حالات بہت مختلف ہوتے۔ اس بات میں دو آرا نہیں کہ اب تحریک انصاف کو اپنا دھرنا ختم کر دینا چاہئے۔ اگرچہ عمران خاں استعفیٰ کے مطالبے کو جس بلندی پر لے گئے ہیں، وہاں سے واپسی مشکل ہے۔ اس سے انہیں کافی سیاسی نقصان ہوسکتا ہے،لیکن ابھی بھی سارے راستے مسدود نہیں ہوئے۔ عمران خاں کے بہت سے مطالبات ایسے ہیں، جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انتخابی اصلاحات، انتخابی تحقیقات اور الیکشن کمیشن کے قیام سمیت بہت سے مطالبات مثبت ہیں اور ان پر عمل درآمدبھی ہو سکتا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ عمران خاں کے لئے ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ لیکن عمران خاں کے نزدیک اگر سب سے بڑی کامیابی استعفیٰ ہے تویہ اصولی طور پر درست نہیں۔ ابھی تک تو ایسا ہوتا ہو ا کہیں نظر نہیں آتا، الٹا اس سے خود عمران خاں کی اپنی سیاست کے گرد خطرات منڈلانے لگیں گے، لہٰذا مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ عمران خاں استعفے کے علاوہ اپنے دیگر جائز مطالبات منوا لیں اور دھرنے کے خاتمے کا اعلان کر دیں۔اگر سیاسی جرگے کے ذریعے اپوزیشن جماعتیں ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئیں تو یہ ایک تاریخی واقعہ ہو گا، لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو عمران خاں کو بھی ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔