غلط بیانی پر نیب کی سپریم کورٹ سے معافی ، احتساب عدالت کا فیصلہ ،مفروضے پر مبنی ، اسلام آباد ہائی کورٹ

غلط بیانی پر نیب کی سپریم کورٹ سے معافی ، احتساب عدالت کا فیصلہ ،مفروضے پر ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے تحریری حکم جاری کیا ہے کہ اگر شریف فیملی کی سزا معطلی کی درخواستوں پر نیب پراسیکیوٹر کے دلائل مکمل نہ بھی ہوئے تو (آج) بدھ کو فیصلہ سنا دیا جائے گا، احتساب عدالت کا فیصلہ مفروضے کی بنیاد پر ہے،کہ آمدن سے متعلق چارٹ واجد ضیا نے پیش نہیں کیا، تفتیشی افسر نے بھی کہا تھا معلوم نہیں یہ چارٹ کس نے تیار کیا،آپ نے فرد جرم یہ عائد کی کہ یہ جائیداد نواز شریف کی ہے، آپ کی فرد جرم یہ نہیں ہے کہ مریم نواز مالک ہے،جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا دو طرح کی ملکیت ایک ہی وقت میں کیسے ہوسکتی ہے، یا وہ ظاہری مالک ہیں یا حقیقی مالک ہیں،اگر جائیداد نواز شریف کی ہے تو مریم نواز کو 9 اے 5 میں سزا کیسے ہوگئی، بیٹی کو سیکشن 5 کے تحت سزا نہیں دی جانی چاہیے تھی۔ منگل کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن(ر)محمد صفدر کی سزا معطلی کی درخواستوں پر سماعت کی۔سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ مفروضہ کہ جائیداد بچوں کے قبضے میں ہے لیکن ملکیت نواز شریف کی ہے، بظاہر احتساب عدالت کا فیصلہ مفروضے کی بنیاد پر ہے۔نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے کہا کہ اس کیس کو اتنے مختصر وقت میں تفتیش کرنا ممکن ہی نہیں تھا، اس مرحلے پر عدالت کا کوئی بھی تبصرہ مناسب نہیں ہوگا جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ بہت اچھی بات کہی آپ نے۔نیب پراسیکیوٹر نے دلائل میں کہا کہ بچے والدین کے ہی زیر کفالت ہوتے ہیں، لندن اپارٹمنٹس کا قبضہ بچوں کے پاس تھا، باپ بچوں کا نیچرل سرپرست ہے جس کے قبضے میں جائیداد ہے ملکیت کا بار ثبوت اس پر ہے۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا والد اور سرپرست ہونے کی وجہ سے بار ثبوت ان پر ہے اور یہ کہتے ہیں حسن اور حسین ہی بتا سکتے ہیں، اخراجات ریکارڈر پر نہیں ہیں جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ یہ کہتے ہیں کہ آمدن سے متعلق چارٹ واجد ضیا نے پیش نہیں کیا، تفتیشی افسر نے بھی کہا تھا معلوم نہیں یہ چارٹ کس نے تیار کیا۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا 'بوگس ٹرسٹ ڈیڈز بنائی گئیں جس پر فاضل جج نے استفسار کیا کہ کیا یہ ٹرسٹ ڈیڈز وہاں پر رجسٹرڈ ہوئیں؟' اکرم قریشی نے جواب دیا یہ ٹرسٹ ڈیڈز صرف بھائیوں کو بتانے کی حد تک تھیں۔جسٹس میاں گل حسن نے کہا بھائی بھی تو نواز شریف کے بیٹے ہیں جب کہ جسٹس اطہر من اللہ نے نیب پراسیکیوٹر کو کہا آپ نے فرد جرم یہ عائد کی کہ یہ جائیداد نواز شریف کی ہے، آپ کی فرد جرم یہ نہیں ہے کہ مریم نواز مالک ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کیا اب مفروضے پر فوجداری قانون میں سزا سنا دیں؟، یہ مفروضہ کہ جائیداد بچوں کے قبضے میں ہے لیکن ملکیت نواز شریف کی ہے، بظاہر احتساب عدالت کا فیصلہ مفروضے کی بنیاد پر ہے۔جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا دو طرح کی ملکیت ایک ہی وقت میں کیسے ہوسکتی ہے، یا وہ ظاہری مالک ہیں یا حقیقی مالک ہیں جس پر پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ مریم نواز نے معاونت کی ہے جس پر جسٹس میاں گل حسن نے کہا اگر جائیداد نواز شریف کی ہے تو مریم نواز کو 9 اے 5 میں سزا کیسے ہوگئی۔جسٹس اطہر من اللہ نے نیب پراسیکیوٹر کو کہا جسٹس میاں گل حسن کا سوال یہ ہے کہ دونوں کو ایک ہی فرد جرم میں تو سزا نہیں ہوسکتی، نواز شریف اور مریم نواز کو ایک ہی فرد جرم میں سزا کیسے سنا دی گئی۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا بیٹی کو سیکشن 5 کے تحت سزا نہیں دی جانی چاہیے تھی۔نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے جسٹس اطہر من اللہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا 'آپ سے متعلق کہا جاتا ہے کہ آپ کا نوازشریف سے بڑا تعلق رہا اور سابق وزیراعظم کی تحریک میں آپ کا بڑا حصہ رہا۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وہ قانون کی بالادستی کی تحریک تھی، میری ججمنٹس دیکھ لیں۔اکرم قریشی نے نواز شریف، مریم اور صفدر کی سزا معطلی کی اپیلوں کی سماعت کرنے والے بنچ پر اعتراض اٹھایا تو جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم نے شروع میں پوچھا تھا کہ ہم پر اعتماد ہے، لوگ کیا کہتے ہیں ہمیں اس سے تعلق نہیں ہے۔جسٹس میاں گل حسن نے پراسیکیوٹر نیب کو ہدایت کی کہ آپ دلائل دیں جس پر اکرم قریشی نے کہا کہ جناب سے یہ درخواست ہے کہ ان درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ دیں۔عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کی استدعا مسترد کردی جس کے بعد اکرم قریشی نے دلائل دینا شروع کیے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر ) احتساب عدالت میں سماعت سے پہلے بیگم کلثوم نواز کی مغفرت کیلئے دعا کے دوران سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کمرہ عدالت میں آبدیدہ ہوگئے۔ سماعت کے بعد احتساب عدالت کے باہرصحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ کل تک کلثوم نوازکی صحت کے لیے دعا کر رہے تھے، آج ان کی مغفرت کے لیے دعا کر رہے ہے۔ احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس کیس کی سماعت(آج) بدھ تک ملتوی ہوگئی۔ علاوہ ازیں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ سٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنسز کی منتقلی کے معاملے میں غلط بیانی پر قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے غیرمشروط معافی مانگ لی۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے نیب کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر سماعت کی۔سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران ایڈیشنل پراسیکیوٹر نیب حیدر علی نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ نیب ریفرنسز کی منتقلی کے خلاف معاملہ 11 ستمبر کو سماعت کیلئے مقرر تھا اور تفصیلی فیصلے تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔ایڈیشنل پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ انہوں نے تفصیلی فیصلہ نہ آنے کا بیان انچارج پراسیکیوٹر کے ساتھ مشاورت کی بنیاد پر دیا۔

مزید :

صفحہ اول -