تختِ لاہور اور میوزیکل چیئر 

 تختِ لاہور اور میوزیکل چیئر 
 تختِ لاہور اور میوزیکل چیئر 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 چیف سیکرٹری پنجاب کامران علی افضل دو ہفتوں کی چھٹیوں پر چلے گئے ہیں  ان کی جگہ پی اینڈ ڈی کے چیئرمین عبداللہ خان سنبل کوچیف سیکرٹری کا بھی اضافی چارج دیا گیا ہے۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری شہریارسلطان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے، ان کی جگہ کیپٹن (ر) اسداللہ خان کو ایڈیشنل چیف سیکرٹری کا اضافی چارج دیا گیا ہے اور ساتھ ہی سیکرٹری زراعت کا بھی اضافی چارج،کیونکہ اس عہدہ پر متعین علی سرفراز حسین نے بھی چارج چھوڑ دیا ہے،بہت اہم بات یہ ہے کہ چیف سیکرٹری پنجاب کامران علی افضل نے وفاق سے درخواست کی کہ وہ میوزیکل چیئر کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ ایک با اصول اور با ضمیر بیوروکریٹ یہی چاہتا ہے  وہ چونکہ وفاقی سروس سے تعلق رکھتے ہیں اور پنجاب نے ان کی خدمات مستعار لے رکھی ہیں اس لئے فی الحال انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ وہ دو ہفتوں کی چھٹی پر چلے جائیں اور انتظار کریں کہ انہیں وفاق کب واپس بلاتا ہے۔ اس سے قبل وہ وفاقی سیکرٹری خزانہ کی حیثیت سے عمران خان حکومت میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ کامران علی افضل کو وفاقی سیکرٹری خزانہ اور چیف سیکرٹری پنجاب عمران خان حکومت نے لگایا تھا اس لئے یہ سوچنا درست نہ ہو گا کہ وہ کسی مخالف کیمپ سے تعلق رکھتے ہیں وہ صرف اور صرف ایک ذمہ دار اور پروفیشنل بیوروکریٹ ہیں جن کا کوئی سیاسی رحجان نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی گند میں پڑنا چاہتے ہیں۔

ایڈیشنل چیف سیکرٹری شہریارسلطان کا بھی یہی مسئلہ ہے،وہ بھی با ضمیر اور با اصول بیوروکریٹ ہیں اور وہ بھی خوامخواہ کسی میوزیکل چیئر کا حصہ نہیں بننا چاہتے،  بالکل یہی معاملہ سابق آئی جی پنجاب راؤ سردار علی خان کے ساتھ تھا   وہ بھی صرف میرٹ اور اصول پر یقین رکھتے ہیں اور انہیں بھی آئی جی پنجاب عمران خان حکومت نے لگایا تھا لیکن جب پنجاب میں میوزیکل چیئر کا کھیل شروع ہوا تو انہوں نے درخواست کی کہ انہیں پنجاب سے تبدیل کر دیا جائے  ان کی درخواست قبول ہو گئی اور انہیں اس گند سے باہر نکال لیا گیا۔ مجھے امید ہے کہ راؤ سردار علی خان کی طرح کامران علی افضل اور شہریار سلطان کی درخواستیں بھی منظور ہو جائیں گی۔ وفاق سے محاذ آرائی کے نتیجہ میں تختِ لاہور کی لرزش کوئی نیا معاملہ نہیں ہے۔ جس زمانہ میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف کے درمیان سخت سیاسی ٹکراؤ چل رہا تھا تو اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری اعتزاز احسن نے بے نظیر بھٹو کو کہا کہ میاں نواز شریف کی طاقت ایڈیشنل آئی جی سردار محمد چوہدری کی وجہ سے ہے اس لئے انہیں وفاق میں واپس بلا لینا چاہئے۔ وفاق کے احکامات کے باوجود وزیراعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف نے سردار محمد چوہدری کی خدمات واپس کرنے سے انکار کر دیا تو معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں چلا گیا جہاں جسٹس خلیل الرحمن خان نے تاریخی جملہ کہا کہ وفاق اور پنجاب کی لڑائی میں سرکاری افسروں کو فٹ بال بنایا جا رہا ہے۔  


اس وقت پنجاب حکومت کا ریموٹ کنٹرول وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کی بجائے ان کے فرزند ممبر قومی اسمبلی مونس الٰہی کے ہاتھ میں ہے جس پر وہ بنی گالہ سے ہدایات لے رہے ہیں اور انہی ہدایات پر پنجاب میں میوزیکل چیئر کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور اس کھیل میں راؤ سردار علی خان کی طرح کامران علی افضل اور شہریار سلطان جیسے ذمہ دار، پروفیشنل اور با اصول افسر حصہ نہیں بننا چاہتے، ان سب کو ان کے عہدوں پر عمران خان نے ہی لگایا تھا لیکن وہ مہرے بن کر نہیں بلکہ اصولوں اور پیشہ ورانہ مہارت کے بل بوتے پر کام کرنا چاہتے ہیں، اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک پنجاب حکومت ریموٹ کنٹرول سے چلائی جائے وہ اس کا حصہ نہ بنیں۔ تختِ لاہورلرز رہا ہے اور اس کے معاملات چوہدری پرویز الٰہی کے مکمل کنٹرول میں نہیں ہیں وہ کب تک اس حکومت کو چلا پائیں گے اس کے بارے میں تجزیہ کاروں کی آرا مختلف ہیں لیکن بہت سوں کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کی مدد سے چوہدری پرویز الٰہی حکومت زیادہ دن نہیں چل پائے گی  اس کی ایک اہم وجہ تو یہ ہے مسلم لیگ (ق) کا کنٹرول ابھی تک چوہدری شجاعت حسین کے ہاتھ میں ہے اوراس کے دس میں سے چھ، سات یا آٹھ ممبران صوبائی اسمبلی چوہدری شجاعت حسین کی ہدایات پر عمل کریں گے۔ ظاہر ہے چوہدری پرویز الٰہی بہت دیر تک اس حقیقت سے منہہ نہیں موڑ سکتے اور انہیں اپنی پارٹی کو متحد رکھنے کے لئے کوئی حتمی فیصلہ کرنا پڑے گا۔ عمران خان بھی ساری صورت حال بھانپ چکے ہیں اور جانتے ہیں کہ ان کی پنجاب میں حکومت کسی بھی وقت گر جائے گی اس لئے صوبہ چلانے سے زیادہ دلچسپی انہیں کم سے کم مدت میں فرح گوگی اور دوسرے پارٹی راہنماؤں کے کرپشن کیسز کو ختم کرانے پر ہے اور وہ تسلسل سے اپنے بندوں کو محکمہ اینٹی کرپشن سے ہنگامی بنیادوں پر کلین چٹیں دلوا رہے ہیں۔ ان کی دوسری ترجیح یہ ہے کہ اگلے ماہ ہونے والے ضمنی انتخابات تک ان کی حکومت برقرار رہے تاکہ ان انتخابات میں پنجاب حکومت کی سرکاری مشینری استعمال کر سکیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اس وقت تک شائد پی ٹی آئی کی پنجاب میں حکومت برقرار نہیں رہ سکے گی کیونکہ لرزتے ہوئے تختِ لاہور کی لرزش ہر گذرتے دن بڑھتی جا رہی ہے اور مونس الٰہی کوئی اتنے تجربہ کار سیاست دان تو ہیں نہیں کہ وہ ان معاملات کو کنٹرول کر سکیں۔ یہی وجہ ہے پچھلے تمام بیانیوں جیسے امریکی سازش، حقیقی آزادی، غلامی نامنظور، امپورٹڈ حکومت وغیرہ جیسے بیانیوں کو پس پشت ڈال کر پی ٹی آئی بہت تیزی سے ایک نیا بیانیہ تشکیل دے رہی ہے کہ ان کی اسٹیبلشمنٹ سے صلح ہو گئی ہے اور اس صلح کے نتیجہ میں اسٹیبلشمنٹ والے عمران خان کو دوبارہ حکومت میں لے آئیں گے، آنے والے دنوں میں عمران خان کا تمام فوکس مہنگائی کے علاوہ اسی بیانیہ پر ہوگا۔بہر حال اس کا اندازہ تو آنے والے دنوں میں عدالتی فیصلوں، خاص طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلوں سے ہو جائے گا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کا نیا بیانیہ محض ایک سیاسی بلف ہے اور اصل حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں میوزیکل چیئر جاری ہے اور تختِ لاہور لرز رہا ہے۔ 

مزید :

رائے -کالم -