ماہِ شعبان المعظم اور شبِ برات کی فضیلت
ضیاء الحق سرحدی پشاور
ziaulhaqsarhadi@gmail.com
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’شعبان میرا مہینہ ہے ، رجب اللہ کا اور رمضان المبارک میری امت کا، شعبان گناہوں کو دور کرنے والا ہے اور رمضان بالکل جلا کر پاک کر دینے والا مہینہ ہے‘‘۔حضرت سیدنا اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں میں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میں آپﷺ کو شعبان کے روزے رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں کہ آپ ﷺ کسی بھی مہینے میں اس طرح روزے نہیں رکھتے فرمایا رجب اور رمضان کے بیچ میں یہ مہینہ ہے لوگ اس سے غافل ہیں اس میں لوگوں کے اعمال اللہ رب العزت کی طرف اٹھائے جاتے ہیں اور مجھے یہ محبوب ہے کہ میرا عمل اس حال میں اٹھایا جائے کہ میں روزہ دار ہوں۔(سنن نسائی)
ماہِ شعبان اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ ترین مہینہ ہے اور شب برات (جوکہ ماہِ شعبان ہی کی رات ہے) اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ رات ہے ماہِ شعبان کے نصف کو ’’ شبِ برات‘‘ہوتی ہے۔ شبِ برات ایک تو بدبخت لوگ اللہ تعالیٰ سے مزید دور ہوجاتے ہیں دوسرا اولیاء اللہ اورمومن ذلت اور گمراہی سے دور ہوجاتے ہیں۔ یہ رات صرف اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب پاک ﷺ کے امتیوں کو ایک بہت بڑے انعام کی صورت میں عطا فرمائی ہے ہم سے پہلے کسی قوم کو یہ رات نہیں ملی اس رات اللہ تعالیٰ کے حکم سے رحمتوں اور بخششوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور ان مہربانیوں اوربخششوں کا سلسلہ اتنا وسیع ہوتا ہے کہ جس کا اندازہ اس روایت سے کیا جاتا ہے کہ’’اس رات اللہ تعالیٰ قبیلہ بنی کلب کی بھیڑوں کے بالوں سے بھی زیادہ تعداد میں گناہگاروں کی بخشش فرما دیتا ہے‘‘اور جنت کو غلامان مصطفی ﷺ کیلئے سجانے کا حکم دیا جاتا ہے۔
علامہ امام ابوالقاسم جار اللہ محمود بن عمر زمخشریؒ اپنی تفسیر کشاف میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے شب برات کی رات کو چھ فضیلتیں بخشی ہیں۔پہلی فضیلت اس رات تمام حکمت والے کام فرشتوں میں بانٹ دئیے جاتے ہیں تاکہ وہ اس کے مطابق اپنے پورے سال میں فرائض سرانجام دیں۔دوسری فضیلت اس میں عبادت سے جو ثواب ملتا ہے دوسری راتوں کے مقابلہ میں زیادہ ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے حضورﷺ نے فرمایا ’’ جو شخص(صحیح العقیدہ مسلمان) اس رات میں سو نوافل پڑھے گا اللہ اس کے پاس ایک سو فرشتہ بھیجے گا ان میں سے تیس فرشتے اسے جنت کی خوشخبری سنائیں گے اور تیس فرشتے اسے دوزخ کے عذاب سے امان کی خوشخبری سنائیں گے اور تیس فرشتے اس سے دنیا کی آفات و بلیات کو دور کریں گے اور باقی دس فرشتے شیطان کے فریب و دھوکہ کو دور کریں گے۔تیسری فضیلت اس رات کو حضورﷺ کی امت پر خاص رحمت اترتی ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ اس رات میں میری امت کے اتنے لوگوں پر خاص رحمت فرماتا ہے جتنے بنی کلب قبیلے کی بکریوں کے بال ہیں۔چوتھی فضیلت اس رات بخشش ہوتی ہے چنانچہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ بے شک اس رات میں اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو بخشش دیتا ہے مگر اس رات کاہن اور جادوگر اور دل میں بغض و دشمنی رکھنے والے ، شراب کے عادی، ماں باپ کے نافرمان اور زناء کے عادی کی بخشش نہیں ہوتی (جب تک یہ لوگ سچے دل سے تونہ کر کے باز نہ آجائیں)۔پانچویں فضیلت اس رات میں رسولﷺ کو تمام امت کی شفاعت دی گئی وہ اس طرح کہ جب شعبان کی تیرھویں رات کو آپ ﷺ نے امت کے بارے میں اللہ سے شفاعت مانگی تہائی امت کے حق میں بخشش کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ کی بقیہ امت کی بخشش کا وعدہ بھی فرمایا گیا جو شخص سرکش ہو کر اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت سے ایسے بھاگے جیسے اونٹ اپنے مالک کے ساتھ زور آزمائی کر کے رسی چھڑا کر بھاگ جائے اس کی شفاعت نہ فرمائیں۔ چھٹی فضیلت علامہ زمخشری لکھتے ہیں کہ ہر شب برات میں اللہ تعالیٰ زمزم کے کنویں میں بھی برکت نازل فرماتا رہتا ہے۔
شب برات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم انعام ہے جو اپنے دامن میں ہمارے لئے بے بہار حمتیں،برکتیں اور سعادتیں لے کر جلوہ گر ہوتی ہے اس کے تقدس اور عظمت کا تقاضا ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اس کا استقبال ذکر و عبادت ،توبہ اور استغفار ،درود و سلام،نوافل،تلاوت اور دعا سے کریں۔لیکن بد قسمتی سے بعض لوگ پاکستان میں شب برات کا آغاز آتش بازی اور پٹاخوں سے کرتے ہیں اورمختلف قسم کے دھماکہ خیز مواد اور انواع و اقسام کے بارودی پٹاخوں سے اس رات کا تقدس پامال کیا جاتا ہے۔یہ کتنی بد نصیبی کی بات ہے کہ جیسے ہی ماہ شعبان کا چاند طلوع ہوتا ہے تو شہر شہر ،گلی گلی، کوچہ اور بازار وں میں دکانیں آتش بازی کے سامان سے ہی سج جاتی ہیں اور بے تحاشا خرید و فروخت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ہر طرف آتش بازی سے بدبودار ماحول پیدا ہوجاتا ہے حالانکہ یہ ایک شیطانی کھیل ہے اور نمرودی طریقہ کار ہے جس سے قلب اور ذہن ظاہری و باطنی طور پر متاثر ہوجاتاہے اور ذکر و عبادت میں وہ کامل یکسوئی پیدا نہیں ہو پاتی جو کہ پیدا ہونی چاہئے ۔ جو لوگ پر سکون ہو کر اس رات اپنے مالک سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنا چاہتے ہیں ان کیلئے چاروں طرف آگ بارود دھماکوں اور شور شرابہ کے ماحول میں ایسا کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے اس طرح اس مقدس اور رحمت والی رات میں بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کے عبادت میں مصروف لوگوں کو سخت پریشانی اور کوفت کا سامنا کرناپڑتا ہے جو کہ بہت بڑا گناہ ہے ۔
اس مبارک مہینہ میں رحمت عالم، معصوم کائنات ﷺ کی یہ حالت ہوتی کہ آپﷺ سجدے میں جبین نیاز رکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور یہ الفاظ ادا فرماتے ’’ یا اللہ ! میرا جسم اور میرا دل صرف تجھے سجدہ کرتا ہے ، میرا دل تجھ پر ایمان لایا، اور میں تیری نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہوں، اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں، میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تو مجھے بخش دے، تیرے سوا کوئی گناہوں کو بخشنے والا نہیں ہے میں تیرے عذاب سے بچنے کیلئے تیری پناہ میں آتا ہوں، تیرے غضب سے بچنے کیلئے تیری رضا کا طالب ہوں تیرے عذاب سے امن میں رہنے کیلئے تجھ ہی سے درخواست کرتا ہوں، تیری حمد و ثناء کوئی بیان نہیں کر سکتا، تو نے آپ اپنی ثناء کی ہے تو ہی آپ اپنی ثنا ء کر سکتا ہے اور کوئی نہیں کرسکتا‘‘۔کسی نے اس کا سبب پوچھا توآپ ﷺ نے ارشاد فرمایا’’شعبان کے درمیان موت لکھی جاتی ہے میں چاہتاہوں کہ جب میری موت لکھی جائے تو میں روزے سے ہوں،شعبان میں نامہ اعمال اٹھایا جاتا ہے حضور ﷺ نے فرمایا جب میرا نامہ اعمال اٹھایا جائے تو میں روزے سے ہوں‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضورﷺ اور اولیاء کرام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا ء فرما ئے دُعا ہے کہ اللہ ہماری پستی کی اس حالت زار پر رحم فرمائے اور ہمارے دلوں میں اپنا خوف پیدا فرمائے اور ہمیں ماہ شعبان کی رحمتوں اوربرکتوں سے مستفید فرمائے۔