شریف آدمی
غفور صاحب اچھے آدمی ہیں بلکہ شریف آدمی ہیں۔ یہ میر ا خیال ہے۔ خود غفور صاحب کو جب میں شریف آدمی کہتا ہوں تو خوش ہوتے نظر نہیں آتے۔ شریف کہلانا شاید اتنا مقبول نہیں اس سوشل فارمیٹ میں جس میں ہم غفور صاحب کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔
آپ نے سوشل فارمیٹ میں سروائیو کرنا ہے تو وہ کیجیے جو متعلقہ سوشل فارمیٹ کی ڈیمانڈ ہے۔ ورنہ آپ تیزی سے مقبولیت کے گراف میں گریں گے۔ آپ نے سوشل فارمیٹ کے نارمز کو توڑا یا ہنسی اڑائی تو سوسائٹی آپکو اس کی سزا دے گی۔ غفور صاحب ایک محتاط اور سماجی طور پر قابل قبول آدمی ہیں۔ اکثر اوقات مجھے ٹوکتے ہیں کہ ایسا ویسا کرنے سے لوگوں پر برا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ میں غفور صاحب کو چھیڑتا ہوں کہ دیکھیے آپ تعلیم یافتہ ہیں۔ آئیے ٹرینڈ سیٹر بنتے ہیں۔ نئی روایات ڈالتے ہیں۔ وہ کرتے ہیں جو درست ہے۔ یعنی جو کتابوں میں پڑھا ہے کہ کرنا چاہیے۔ اب بس بھی کریں کیوں سوسائٹی سے ڈریں۔ آئیے تبدیلی کی بات کریں۔ نئی زندگی کی بات کریں۔ آئیے خود کو گلوبل ویلج کے تناظر میں دیکھیں ۔
غفور صاحب اگر آپ جیسے پڑھے لکھے لوگ ڈرے سہمے رہے تو تبدیلی کس نے لانی ہے؟ غفور صاحب ہم باغی نہیں ہیں ہم تو کہتے ہیں تبدیلی کی گاڑی کو دوسرا گیر لگاؤ۔ جلدی کرو۔
بولے جلدی نہ کرو۔ سنی نہیں تم نے وہ کہاوت کہ جلدی میں بکری ٹرک کے نیچے آگئی تھی۔ تبدیلی کو اسکی اپنی رفتار سے آنے دو۔ دانشمندی یہی ہے۔ مصلحت پسندی یہی ہے۔تمھیں جلدی کس بات کی ہے؟ تمہیں معلوم ہے جنہوں نے سٹیج سجایا ہے وہ سٹیج پر تبدیلی نہیں آنے دیں گے۔ میں نے عرض کی میں سٹیج خراب کرنے کی بات تو نہیں کررہا۔ میں تو چاہتا ہوں یہ سٹیج ترقی یافتہ ہوجائے۔ فکر میں سوچ میں تدبر میں جدت آجائے۔غفور صاحب آپکو معلوم ہے۔ جس طرح دنیا نے آگے چلنا ہے اسی طرح تبدیلی نے آنا ہے۔ ہماری خواہش ہے جلدی آئے۔ بولے جنہوں نے سٹیج سجایا ہے وہ اپنی مرضی سے ضرورت کے مطابق تبدیلی کو خوش آمدید کہیں گے۔ میں نے عرض کی یہ سٹیج انہوں نے معاشرے کی دہلیز پر سجایا ہے جہاں آپ اور میں موجود ہیں۔ ہماری نسل زندگی کی دوڑ میں برسر پیکار ہے۔ آپکے اور میرے بچے ایک پر جوش مستقبل کے تعاقب میں ہیں۔ یہ سٹیج ہمارے اور ہمارے جیسوں کے کاندھوں پر سجا ہے۔
ؓبولے پھر کیا کریں؟ میں نے عرض کی آئیے سٹیج والوں کو بتاتے ہیں کہ گاڑی آہستہ چل رہی ہے۔ گاڑی کی مرمتی درکار ہے۔ ہماری سواریاں شیڈول سے بہت پیچھے ہیں۔ ہمیں شک ہے کہ سواریوں میں مڈبھیڑ اور فساد ہوجائے گا۔ گڑبڑ ہوجائے گی۔ غفور صاحب کہنے لگے یار تم بات سمجھ نہیں رہے کیا؟ تم گاڑی کو دوسرا گیر نہیں لگا سکتے یہ کام ڈرئیور کا ہے۔ اور گاڑی کا ڈرائیور اپنی سیٹ چھوڑے گا نہیں۔ اپنی تبدیلی کا فلسفہ اور معلومات اپنے پاس رکھو۔ باغی کی سزا معلوم تو ہے تمھیں۔ غفور صاحب میں آپ کو کیسے سمجھاؤں کہ میں باغی نہیں ہوں۔ مجھے تشویش ہے۔ مجھے فکر لاحق ہے۔
غفور صاحب سے ہماری بحث چلتی رہتی ہے۔ جی د ار آدمی ہیں لیکن ہم اندر ہی اندر انہیں قدامت پسند کہتے ہیں لیکن ہیں مخلص آدمی۔ انہیں معلوم ہے دانشمندی کیا ہوتی ہے؟ وہ مصلحت پسندی کو کیوں قبلہ و کعبہ مانتے ہیں؟ اس لیے کہ وہ سمجھدار آدمی ہیں اور شریف آدمی ہیں۔
غفور صاحب کہنے لگے دیکھو میاں مانا کہ تم وہ دیکھ آئے ہو جو اس سوسائٹی نے محض سنا ہے۔ تمھیں وہ معلوم ہوگا جو سوسائٹی کو شاید کم معلوم ہو یا شاید سوسائٹی جاننا ہی نہیں چاہتی۔ لیکن ڈھنڈورا مت پیٹو۔ اکثریت کی صف میں کھڑے ہوجاؤ اور وہی نعرہ مارو جو بج رہا ہے۔ وہی کرو جو ہورہا ہے۔ اکثریت ہنسے تو ہنس دو۔ اکثریت روئے تو رو دو۔ یہی تمھارے حق میں اچھا ہے۔
دیکھتے نہیں کتنے ہی لوگ مغرب سے اعلی تعلیم لے کر آتے ہیں اور آکر اکثریتی صف میں آرام سے کھڑے ہوجاتے ہیں گویا انہوں نے کچھ دیکھا ہی نہیں جانا ہی نہیں۔ میں نے ہار ماننا مناسب نہیں سمجھا ۔ میں نے عرض کی کہ میں نے دنیا کے ترقی یافتہ ترین ملک کی بیوروکریسی میں خدمات انجام دی ہیں۔ میں انیس برس ایک ایسی سوسائٹی کا حصہ رہا ہوں جس کا مشرقی سوسائٹی سے عشروں کا اور صدیوں کا فاصلہ ہے۔ غفور صاحب میں نے وطن عزیز کی بیوروکریسی میں بھی خدمات انجام دی ہیں۔ میرا تجربہ اور مشاہدہ ہمہ گیر ہے۔ آپ کیوں نہیں مانتے ؟ غفور صاحب چند برس کے لیے تعلیم حاصل کرنے مغرب جانا یا کسی سیاسی دورے پر جانا ایک بالکل مختلف بات ہے۔ کیا کتاب کا دیباچہ اور پہلا چپٹر پڑھنا پوری کتاب پڑھنے کے مترادف ہوسکتا ہے؟
غفور صاحب مغرب کے لوگ اچھے یا برے نہیں ہوتے۔ وہ بہت سمارٹ لوگ ہیں۔ غفور صاحب وہ بہت مختلف لوگ ہیں انہیں سمجھنا اتنا آسان نہیں ہوتا جنتا نظر آتا ہے۔خیر چھوڑیں اس بحث کو۔ لگتا آپ ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ پنگا لینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ سٹیج انکے پاس ہے جو سٹیج کو سنبھالنا جانتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے انہوں نے کیا کرنا ہے۔ جیسا دیس ویسا بھیس!
بولے اچھا تم ریفارمز کی بات کرتے ہو؟ سیاسی ریفارمز، سوشل ریفارمز یا عدالتی ریفارمز ؟ سیاسی ریفارمز سیاستدانوں کا کام ہے۔ سوشل ریفارمز میں سیاستدانوں کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ تم کون سی تبدیلی کی بات کرتے ہو؟ کچھ پتہ تو چلے۔ میں نے چپ سادھ لی۔ غفور صاحب سے کون سی تبدیلی کی بات کریں؟ کتنے جملوں میں سمیٹیں؟ غفور صاحب ہم کوشش کریں گے کہ تبدیلی کی رفتا قدرے تیز ہو۔ لیکن آپکی نصیحت سرآنکھوں پر۔ پنگا نہیں لینا۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ پر بھیج دیں۔