جنرل عاصم منیر کی آواز

پورے پاکستان اور کشمیر تو کیا پوری دنیا میں جہاں جہاں پاکستانی، کشمیری اور ہندوستانی رہتے ہیں، جنرل عاصم منیر کی تقریر کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ انہوں نے اسلام آباد کنونشن سنٹر میں منعقد ہونے والے سمندر پار پاکستانیوں کے بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان اور کشمیر کے حال اور مستقبل پر جو کچھ کہا، اِس پر بحث جاری ہے۔ بھارتی ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر سخت نکتہ چینی جاری ہے،پاکستانیوں کے بعض حلقے بھی ناک بھوں چڑھا رہے ہیں لیکن اہل ِ پاکستان اور کشمیر کی بھاری ہی نہیں بہت بھاری تعداد اِس پر تالیاں بجا رہی ہے،نعرے لگا رہی ہے،اِس سے ولولہ تازہ حاصل کر رہی ہے۔پاکستان یا دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں اِس تقریر کی داد دینے میں کوئی رسک نہیں ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں بیٹھ کر اگر اِس کی داد دی جائے تو پھر ایسا کرنے والوں سے زیادہ کوئی داد کا مستحق نہیں۔حریت کانفرنس نے ڈنکے کی چوٹ کہا ہے کہ جنرل عاصم منیر نے جو کچھ کہا، وہ کشمیریوں کے جذبات کی ترجمانی ہے،اِس سے اُن کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈووکیٹ عبدالرشید منہاس کا کہنا ہے کہ کشمیری پاک فوج کو اپنا محافظ سمجھتے ہیں،مملکت ِ خداداد میں شامل ہونے کا دیرینہ خواب ضرور پورا ہو گا،بھارت نے جموں و کشمیر کے بڑے حصے پر جو غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور وہ اُن کی آزادی کی آواز کو دبانے کی جس پالیسی پر عمل پیرا ہے،اُس کا خاتمہ ہو کر رہے گا۔ اُنہوں نے للکارتے ہوئے کہا ہے کہ 1947ء کے بعد سے آج تک پانچ لاکھ کشمیری شہید کئے جا چکے ہیں جبکہ ہزاروں لاپتہ ہیں۔ اگست 2019 ء کے بعد نریندر مودی کی حکومت نے جموں و کشمیر کا جو ریاستی تشخص چھینا ہے،وہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے،اِس کا واحد مقصد جموں و کشمیر کے اسلامی تشخص اور شناخت کو مٹانا ہے لیکن اِس ظلم کا خاتمہ ہو کر رہے گا۔
جنرل عاصم منیر نے قائداعظمؒ کے الفاظ کو دہراتے ہوئے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا اور اِس عہد کو دہرایا کہ ہم اسے آزاد کرا کر رہیں گے۔اُنہوں نے اہل ِ وطن کو یقین دلایا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ تھا، ہے اور رہے گا۔اِس کے ساتھ ہی بلوچستان میں برپا شورش کا ذکر کرتے ہوئے گویا ہوئے کہ پاکستان کے دشمنوں کا یہ خیال ہے کہ مٹھی بھر دہشت گرد پاکستان کی تقدیر کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔دہشت گردوں کی دس نسلیں بھی بلوچستان اور پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ بلوچستان پاکستان کی تقدیر اور ہمارے ماتھے کا جھومر ہے،جب تک اِس ملک کے غیور عوام افواجِ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں،آپ کی فوج ہر مشکل سے بآسانی نبرد آزما ہو سکتی ہے۔اُنہوں نے قرآنی آیات پڑھتے ہوئے واضح کیا کہ جو پاکستان کی ترقی کی راہ میں حائل ہو گا، ہم سب مل کر اُسے راستے سے ہٹا دیں گے۔آرمی چیف نے اپنے سامنے موجود سمندر پار پاکستانیوں کو مخاطب کرتے ہوئے پُرزور انداز میں کہا:”جو لوگ برین ڈرین کا بیانیہ بناتے ہیں،وہ جان لیں کہ یہ برین ڈرین نہیں برین گین (GAIN) ہے اور بیرون ملک پاکستانی اِس کی عمدہ مثال ہیں“۔
گذشتہ کچھ عرصے سے بعض اہل ِ سیاست کی طرف سے یہ بات بار بار دہرائی جا رہی ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی باہر جا رہے ہیں اِس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اپنے عالی دماغوں سے محروم ہو رہا ہے،اِس کے حالات سے مایوس ہو کر وہ بیرون ملک سدھار رہے ہیں، جنرل عاصم منیر نے اسے سو فیصد اُلٹ معانی دے دیے،اُن کا کہنا تھا کہ بیرون ملک جانے والے پاکستان کو ”خالی“ نہیں کر رہے بلکہ اِس کے خزانے بھر رہے ہیں۔ اِس کے سفیر بنے ہوئے ہیں۔25کروڑ پاکستانیوں میں سے اگر چند ہزار یا چند لاکھ بیرون ملک جاتے ہیں تو اِس سے قیامت نہیں ٹوٹ پڑتی۔جن لوگوں کو روزگار کے بہتر مواقع حاصل ہو رہے ہیں، اُنہیں باہر جانے سے روکا نہیں جا سکتا۔ ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ اپنی درس گاہیں اور تربیت گاہیں منظم کریں،اُن کا معیار بلند رکھیں تاکہ اگر ایک ہنر مند باہر جاتا ہے تو اُس کی جگہ لینے کے لیے کئی موجود ہوں۔دنیا کے ہر ملک سے لوگ روز گار اور تجارت کے لیے دوسرے ممالک میں جا رہے ہیں۔ چین اور بھارت کے بھی لاکھوں باشندے مختلف ممالک میں موجود ہیں۔ امریکہ میں تو بھارت سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اعلیٰ مناصب پر فائز ہو رہے ہیں اور وہاں موثر کردار ادا کر کے اپنے وطن کا نام اونچا کر رہے ہیں۔ پاکستانی ڈاکٹر، انجینئر اور استاد بھی اگر بیرون ملک اپنے آپ کو منوا رہے ہیں، تو اِس پر ہمیں فخر ہوناچاہیے۔ضرورت پاکستانی تعلیمی اور تربیتی اداروں کا معیار بلند کرنے اور اُن میں سرمایہ کاری کرنے کی ہے۔اگر سپلائی چین مضبوط ہے اور ہمارے نوجوان تعلیم اور تربیت سے آراستہ ہو رہے ہیں تو پھر پریشانی کی کوئی ضرورت نہیں۔سمندر پار پاکستانیوں نے اِس مشکل گھڑی میں جو زرِمبادلہ بھیجا ہے،اُس نے پاکستانی معیشت میں نئی جان ڈال دی ہے۔ایک ہی ماہ میں چار ارب ڈالر سے زیادہ پاکستان کے خزانے میں جمع کرا کر نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ ختم ہو چکا ہے اور خرچ سے زیادہ آمدنی کی توقعات نے پوری قوم کے حوصلے بڑھا دیے ہیں۔ سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر نے ہماری برآمدات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔25کروڑ لوگ مل کر جتنے ڈالر کماتے ہیں، باہر بیٹھے ہوئے اُن کے بھائی اب اس سے زیادہ اُن کے خزانے میں جمع کرا رہے ہیں۔ لاکھوں خاندانوں کے ہاں خوشحالی کا چراغاں ہو رہا ہے اور کاروبارِ مملکت میں نئی رونق دیکھنے میں آ رہی ہے۔ جو اہل ِ سیاست سمندر پار پاکستانیوں کو اپنی جیب میں سمجھتے تھے اور انہیں ترسیلاتِ زر نہ بھیجنے کی تلقین کر رہے تھے،وہ منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کر سو بھی نہیں پا رہے۔ سمندر پار پاکستانیوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ ریاست کے مفادات کو گروہی سیاست کی نذر نہیں ہونے دیں گے۔
اسلام آباد میں منعقد ہونے والا کنونشن جہاں تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا اور منفرد اجتماع تھا، وہاں حاضرین کے جوش و جذبے نے پاکستانی قیادت کو بھی نیا حوصلہ بخش دیا،جہاں اوورسیز پاکستانی فاؤنڈیشن کے چیئرمین سید قمر رضا اور اُن کے رفقاء کے سر اِس کا سہرا بندھا اور اُن کے لیے نعرہ ہائے تحسین بلند ہوئے، وہاں وزیراعظم شہبازشریف اور آرمی چیف کے خطاب نے بھی قومی منظر پر اُجالا بکھیر دیا۔ وزیراعظم پُرعزم نظر آئے کہ فوجی قیادت کے ساتھ مل کر وہ ترقی اور خوشحالی کا سفر جاری رکھیں گے تو جنرل عاصم منیر نے یہ کہہ کر دِل جیت لیے کہ اُن کے پاکستان کو ”ہارڈ سٹیٹ“ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی ریاست جہاں آئین اور قانون کی حکمرانی ہو۔ انہوں نے یقین دلایا کہ افواجِ پاکستان اپنا آئینی کردار ادا کرتی رہیں گی۔ اُن کے الفاظ شہر شہر، گلی گلی،کوچہ کوچہ گونج رہے ہیں کہ آپ سب نے پاکستان کی کہانی اگلی نسل کو سنانی ہے۔ وہ کہانی جس کی بنیاد پر ہمارے آباؤ اجداد نے پاکستان حاصل کیا تھا،وہ کہانی یہی ہے کہ پاکستان اللہ کے نام پر حاصل کیا گیا اور اُسی کے نام سے وابستہ رہے گا، یہ پندرہ سو برس پہلے قائم ہونے والی ”ریاست طیبہ“ کا دوسرا جنم ہے، پاکستان، پاک سرزمین۔۔۔ جنرل عاصم منیر کی تقریر ختم ہوئی تو کچھ فاصلے پر بیٹھے ہوئے پاکستان کے نامور ایڈیٹر اور دانشور سہیل وڑائچ آگے بڑھے، اُن سے مصافحہ کیا اور اُنہیں مبارکباد پیش کی کہ پاکستان کو آئین کے ساتھ جوڑے رکھنے کے لیے ہر پاکستانی اُن کے ساتھ جُڑا رہے گا۔ جنرل عاصم منیر کی آواز سے آواز ملاتا رہے گا۔یہ آواز گونج رہی ہے، اِسے گونجتے رہنا چاہیے۔
(یہ کالم روزنامہ ”پاکستان“ اور روزنامہ ”دُنیا“ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)