امریکہ میں خشک سالی اور اناج کی عالمی قیمتیں

امریکہ میں خشک سالی اور اناج کی عالمی قیمتیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app




گزشتہ 56سال میں امریکہ اس سال سب سے زیادہ خشک سالی کا شکار ہوا ہے۔جولائی کا مہینہ امریکی تاریخ کا گرم ترین مہینہ تھا۔آب و ہوا میں تبدیلیوں کی وجہ سے کبھی بارشیں ،کبھی غیر معمولی درجہ حرارت اور کبھی طوفان معمول بنتے جارہے ہیں۔آب و ہوا میں ان تبدیلیوں کی وجہ سے امریکی زرعی شعبے پرمنفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔معاشی لحاظ سے امریکہ عالمی سطح پراس قدر اثر انداز ہوتا ہے کہ اگر امریکہ کو چھینک بھی آجائے تو پوری دنیا معاشی زکام کا شکار ہوجاتی ہے۔ڈالر کی قیمت.... تیل، سونا، زرعی اجناس اور دیگر کاروباری اشیاءپر اثراندازہوتی ہے۔ امریکہ دنیا بھر میں اناج کی پیداوار میں سرفہرست ہے۔مکئی،گندم اور سویابین سب سے زیادہ امریکہ میں پیدا ہوتی ہیں۔اگرامریکہ میں پیداوار کم ہو جائے تو عالمی سطح پر اناج کی قیمتیں براہ راست متاثر ہوتی ہیں۔
عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے مطابق جولائی کے مہینے میں اناج کی عالمی قیمتوں میں 6فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔اس اضافے کی اہم وجہ امریکہ میں حالیہ خشک سالی کو قرار دیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے امریکہ میں اناج کی پیداوار میں کمی کا امکان ہے۔دنیا بھر میں اناج درآمد کرنے والے ممالک امریکہ میں اناج کی پیداوار کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔میکسیکو میں 2007ءمیں اناج کی قیمتوں میں اضافے سے شدید فسادات شروع ہوگئے تھے۔اسی خدشے کے تحت میکسیکو نے پچھلے ہفتے کے دوران اناج کی عالمی منڈی سے وسیع پیمانے پر خریداری کی ہے۔میکسیکو دنیا بھر میں مکئی درآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ میکسیکوکی اناج کی بڑے پیمانے پر خریداری نے اناج کی عالمی قیمتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اناج درآمد کرنے والے ممالک میں اناج کی عالمی قیمتوں کے بارے میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے گزشتہ چند سال میں پاکستان میں گندم کی پیداوار اور قیمتوں میں کافی استحکام نظر آیا ہے۔گزشتہ برس ملک میں گندم کی ریکارڈ پیداوار حاصل ہوئی اور اس سیزن میں بھی گندم کی پیداوار گو کہ پچھلے سال کی سطح پر حاصل نہیں ہو سکی، پھر بھی گندم کی پیداوار گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کافی مستحکم رہی ہے۔خوش قسمتی سے پاکستان اب گندم بیرون ملک برآمد کرنے کے قابل ہوچکا ہے۔ہمیں اناج کی عالمی قیمتوں میں ردوبدل کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے۔ماضی میں ایسا بھی ہو چکا ہے کہ ہم نے غلط منصوبہ بندی کے ذریعے اپنی گندم سستے نرخوں پر بیرون ملک برآمد کردی ، پھر بعد میں ہمیں مہنگی گندم بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑی،جس سے ملک کو نقصان ہوا۔
امریکہ میں خشک سالی کی وجہ سے اناج کی پیداوار میں جو کمی واقع ہوگی،اس پر ہمارے پالیسی سازوں کو نظر رکھنی چاہیے۔خوش قسمتی سے ہمارے ہاں اناج کی پیداوار مستحکم رہنے کا امکان ہے۔مون سون کے آخری حصے میں گندم کی کاشت کے بارانی علاقوں میں اچھی بارشیں ہوئی ہیں،جن کی وجہ سے گندم کی اگلی فصلپرخوشگوار اثرات مرتب ہوں گے،لیکن بارشوں سے بھرپور استفادے کے لئے کاشتکاروں کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ حالیہ بارشوں کی نمی کو گندم کی کاشت کے لئے استعمال کیا جانا چاہیے اور بارشوں کے پانی کے ضیاع کو روکا جانا چاہیے۔زمین میں گہرا ہل چلاکر اور وٹوں کو مضبوط کرکے پانی کے ضیاع کو روکا جا سکتا ہے۔ہمارے گندم کے کل کاشتہ رقبے کا تقریباً13فیصد بارانی رقبہ ہے۔ اس رقبے کی فی ایکڑپیداوار بڑھانے کی ضرورت ہے۔ہمارے بارانی رقبے کی فی ایکٹر پیداوار آبپاش رقبے کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے۔
بارانی گندم کی کاشت کے علاقوں میں کاشتکاروں کو جدید سفارشات اور ٹیکنالوجی سے روشناس کراکر اور زرعی لوازمات کی فراہمی کو یقینی بنا کر ان علاقوں میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔عالمی سطح پر اناج کی پیداوار میں کمی اور قیمتوں میں اضافے کے پیش نظر ہمیں گندم کی کاشت کی منصوبہ بندی ابھی سے کرلینی چاہیے۔ایک تو زیادہ رقبے پر گندم کاشت کی جائے ، دوسرے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔گندم کی فی ایکڑ پیداوار بڑھانے میں جو عوامل درکار ہوتے ہیں، ان میں زرعی لوازمات مثلاً کھاد، بیج، زرعی بوٹی مار زہروں کی بروقت فراہمی سرفہرست ہے۔ربیع کے سیزن میں کھاد کی فراہمی بالخصوص فاسفورسی کھادوں کی بروقت دستیابی کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔
ہمارے ہاں اقدامات اس وقت کئے جاتے ہیں،جب ان کا وقت گزر چکا ہوتا ہے۔گندم کی کاشت آخر اکتوبر میں شروع ہوکر نومبر کے مہینے میں جاری رہتی ہے۔گوکہ گندم کی کاشت کا بہترین وقت نومبر کا مہینہ ہی ہے،لیکن گندم کی پچھیتی کاشت دسمبر کے مہینے میں بھی جاری رہتی ہے۔گندم کی پچھیتی کاشتہ فصل سے کم پیداوار حاصل ہوتی ہے، اس لئے گندم کی بروقت کاشت کو یقینی بنانا چاہیے۔اس مقصد کے حصول کے لئے آبپاشی کے لئے پانی کی فراہمی کا بروقت انتظام کرنا چاہیے۔ کھادوں اور پانی کی فراہمی کی صورت حال کا جائزہ اس وقت لینے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ جب گندم کی کاشت کا آغاز ہوگیا تو پھر ان مسائل کو حل کرنا مشکل ہوجائے گا۔اناج کی بڑھتی ہوئی عالمی قیمتوں کے تناظر میں ہمارے لئے گندم برآمد کرکے زرمبادلہ کمانے کا بہت سنہری موقع دستیاب ہے۔گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرکے اور گندم کی برآمدات عالمی اور ملکی سطح پر قیمتوں کی پشین گوئی کا کوئی نظام موجود نہیں اور اس سلسلے میں کاشتکاروں کو فراہم کی جانے والی معلومات میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔
جدید زراعت اب کاروبار اور تجارت کی شکل اختیار کرچکی ہے۔کسی بھی کاروبار یا تجارت کی منصوبہ بندی کرکے ہی اس میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ہمارے کاشتکاروں کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ وہ اپنے اندازوں کے ذریعے مستقبل میں فصلوں کی زرعی پیداوار اور قیمتوں کا تعین کرتے رہتے ہیں۔اس سلسلے میں سائلین تک معلومات کی دستیابی ناپید ہے۔ہمارے کاشتکاروں کو اگر ایک سال آلو کی کاشت سے منافع حاصل ہوتا ہے اور مارکیٹ میں آلو کی قیمتیں زیادہ ملتی ہیں تو اگلے سیزن میں تمام کاشتکار آلو کاشت کرنا شروع کردیتے ہیں اور پیداوار میں زیادتی اور قیمتوں میں کمی سے ان کو نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔یہ تو ایک فصل کی مثال ہے۔تقریباً تمام زرعی اجناس میں کاشتکار اسی طرح کے نقصانات برداشت کرتے رہتے ہیں۔جدید زراعت کا بنیادی جزو فصلوں کی پیداوار اور ڈیمانڈ کا پیشگی تخمینہ لگانا ہے۔اس تخمینے کے بغیرنہ فصلوں کی منافع بخش کاشت کی جاسکتی ہے اور نہ ہی ان کی فروخت سے منافع کمایا جا سکتا ہے۔
زرعی فصلوں کی نہ صرف ملکی سطح پر متوقع پیداوار کا اندازہ لگایاجانا چاہیے، بلکہ ان فصلوں کی پیداوار کے عالمی رجحانات کا پیشگی اندازہ لگانا ازحد ضروری ہے۔اسی طرح ملکی سطح پر اور عالمی پیمانے پر زرعی اجناس کی طلب کے بارے میں بھی پیشگی اندازہ لگایا جانا بے حد ضروری ہے۔اسی طرح ملکی سطح پر اور عالمی پیمانے پر زرعی اجناس کی طلب کے بارے میں بھی پیشگی اندازے لگانے کی اشد ضرورت ہوتی ہے، تاکہ رسد اور طلب کے معاشی اصولوں کے ذریعے زرعی اجناس کی مستقبل کی متوقع قیمتوں کی پشین گوئی کی جا سکے۔اس طرح کا کام حکومتی ادارے ہی کرسکتے ہیں اور کاشتکاروں کی بروقت رہنمائی کرکے زرعی اجناس کی پیداوار اور فروخت کے بارے میں ان کی مدد کی جا سکتی ہے۔تیل پیدا کرنے والے ممالک تیل کی رسد اور طلب کا اندازہ وقتاً فوقتاً لگاتے رہتے ہیں، اسی طرح دیگر برآمدات کرنے والے ممالک اپنی اشیاءکی قیمتوں کی طلب اور رسد کے بارے میں باخبر رہتے ہیں۔پاکستان جیسے زرعی ممالک کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ زرعی اجناس کی عالمی پیداوار اور قیمتوں کا پیشگی اندازہ لگاتے رہیں، تاکہ ان اجناس کی پیداوار اور مارکیٹنگ کے سلسلے میں درست فیصلے کرکے زراعت سے زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جا سکے۔

مزید :

کالم -