امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے جرم سے رہائی تک کی داستان۔ ۔ ۔قسط نمبر 10

امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے جرم سے رہائی تک کی داستان۔ ۔ ۔قسط نمبر 10
امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے جرم سے رہائی تک کی داستان۔ ۔ ۔قسط نمبر 10

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ایک اور پولیس افسر نے بھی مجھ سے تفتیش کی ۔ وہ بے تکلفی سے کمرے میں بیٹھ گیا اور اس نے مجھے بتایا کہ اسے امریکی ایف بی آئی نے تربیت دی ہے ۔ وہ سفید پینٹ شرٹ اور ٹائی میں پولیس افسر کی بجائے بینکر لگتا تھا ۔ اس کا انداز عام پولیس والوں سے بہت مختلف تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں کبھی لاہور میں ڈی ایچ اے گیا ہوں۔ میں نے اسے جواب دیتے ہوئے بہت محتاط رویہ اختیار کیا اور کہا کہ ایک آدھ بار میرا اس علاقہ میں جانا ہوا ہے ۔ اس کے بعد اس نے مزنگ چونگی والے واقعہ پر گفتگو شروع کر دی ۔ میں نے اسے کہا کہ میں اس سارے واقعہ کی تفصیل متعدد بار زبانی بتا چکا ہوں اور اپنا بیان بھی لکھ کر دے چکا ہوں اوراب اس سلسلے میں مزید کسی سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا ۔ وہ چھ گھنٹے کمرے میں رہا ۔ اس دوران اس نے مجھے دوپہر اور رات کا کھانا کھاتے ہوئے دیکھا لیکن بالآخر وہ بھی مایوس ہو کر کمرے سے باہر چلا گیا ۔

امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے جرم سے رہائی تک کی داستان۔ ۔ ۔قسط نمبر 9 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

پولیس ٹریننگ کالج میں چھٹا دن
پولیس کی اس پوچھ گچھ کے دوران مجھے کئی عدالتوں میں پیش کیا گیا ۔ ایک عدالت میں مجھے غیر قانونی طور پر اسلحہ رکھنے کے الزام میں تو دوسری عدالت میں مزنگ چونگی میں دو بے گناہ افراد کے قتل کے کیس میں پیش کیا گیا۔ان دونوں عدالتوں کا ماحول ایک جیسا تھا یعنی چھوٹے تنگ اور غیر ہوادار کمرے تھے جو کسی صورت عدالت کا کمرہ محسوس نہیں ہوتے تھے ۔ اس کے باوجود وہاں بہت سارے لوگ اپنی جگہ بنا لیتے تھے ۔ اس کیس کے دوران میں نے پراسیکیوٹرکے بیان میں اہم تبدیلی محسوس کی ۔ پہلی پیشی پر پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ مسٹر ڈیوس نے دو ایسے افراد کو گولی ماری جو اسے مارنا چاہتے تھے ۔ دونوں کے پاس اسلحہ اور گولیاں موجود تھیں ۔ اگلی پیشی پر پراسیکیوٹر نے عدالت کو کہا کہ مسٹر ڈیوس نے دو ایسے افراد کو گولی ماری جو اسے مارنا نہیں چاہتے تھے۔ یہ درست ہے کہ دونوں کے پاس اسلحہ موجود تھا لیکن ان کے پستول کے چیمبر میں کوئی گولی نہیں تھی ۔ اس غلط بیانی کی وجہ پولیس افسروں کی جانب سے دیا گیا مواد تھا ۔ اس کے بعد ایک پیشی میں پراسیکیوٹر نے کہا کہ جنہیں میں نے گولیاں ماریں وہ آئی ایس آئی کے ایجنٹ تھے جو ڈی ایچ اے میں کسی کے ساتھ میری ملاقات کے بعد میرے پیچھے لگے تھے ۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ ایک پولیس افسر نے دوران تفتیش مجھے یہ کیوں کہا تھا کہ وہ ایف بی آئی کا تربیت یافتہ ہے اور اس نے مجھ سے ڈی ایچ اے کے بارے میں سوال کیوں کیا تھا ۔ اس سے اگلی پیشی پر پراسیکیوٹر صاحب نے دعویٰ کیا کہ دونوں مقتولین غیر مسلح تھے ۔ پراسیکیوٹر کے اس دعوی کو غلط ثابت کرنا اب میرے لئے بہت مشکل تھا کیونکہ میرا وہ کیمرہ پولیس کے پاس تھا جس سے میں نے اس حادثہ کے بعد دونوں مقتولین کی تصاویر بنائیں تھیں ۔ ان تصاویر میں مقتول فہیم کے ہاتھ میں پستول واضح طور پر نظر آ رہا تھا ۔
مجھے زیادہ دکھ اس بات کا تھا کہ ہر بار پراسیکیوٹر کے بیان بدل لینے کے باوجود جج نے اسے ٹوکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔پاکستان کے کمزور عدالتی نظام کا ذکر تفصیل سے یو ایس ایڈ کی 2008 کی رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے ۔ اس کیس کی پانچویں پیشی پر میں نے قونصلیٹ جنرل کارمیلا سے مایوسی کا اظہار کیا اور اس سے پوچھا کہ کیا مجھے وکیل مل سکتا ہے ۔ اس سے اگلی پیشی پر مجھے معاون مل گیا ۔ اس کا تعلق امریکن قونصلیٹ سے تھا اور وہ اچھی اردو بول سکتا تھا ۔ اسی دوران مجھے نیا سفارتی پاسورٹ اور ویزہ بھی جاری کر دیا گیا تھا جس کی معیاد 2016 تک تھی ۔امریکی حکومت کے نمائندے یا کنٹریکٹر کے لئے پاکستانی ویزے کی درخواست کی منظوری پاکستانی سفیر دیتا ہے ۔ پاکستانی حکام کے نرم موقف کی وجہ سے پاکستانی سفیر حسین حقانی بڑی فراخ دلی کے ساتھ امریکی حکام کو ویزے جاری کیا کرتے تھے۔انہوں نے ہی میرے اور دیگر کنٹریکٹرز کے ویزوں کی منظوری دی تھی۔ گمنام امریکی اہلکاروں کی اس بڑھتی تعداد پر پاکستانی حکام نالاں تھے لہذا انہوں نے امریکا کو حراساں کرنے کے لئے میرا کیس اچھالنا شروع کر دیا ۔ سب سے زیادہ موقع پرستی کا مظاہرہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کیا ۔ انہوں نے حکومت کے اصرار پر مجھے سفارتی استثنی دینے سے انکار کرتے ہوئے بیس جنوری کو اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔
جاری ہے ، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
ریمنڈ ڈیوس کو پاکستان آنے والاایسا امریکی جاسوس قرار دیا جاتا ہے جس نے لاہور میں دو افراد کودن دیہاڑے گولیاں مار کر قتل کیا اور پھر گرفتار ہوا ۔ اس پر قتل کا مقدمہ چلا اور قریب تھا کہ اسے سزائے موت سنا دی جاتی لیکن حالات نے ڈرامائی موڑ لے لیا ۔ اچانک مقتول کے ورثا دیت پر راضی ہو گئے ۔ کروڑوں روپے دیت کی رقم کس نے ادا کی اس پر متضاد رائے ہے کیونکہ کوئی بھی اس رقم کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہ ہوا ۔ بہرحال یہ شخص جسے کبھی سفارتی عملہ کا حصہ قرار دینے کی کوشش کی گئی تو کبھی اسے بلیک واٹر کے قاتل کورڈ کا حصہ قرار دیا گیا، باآسانی پاکستان سے امریکہ پہنچنے میں کامیاب ہو گیا ۔ وہاں اس نے اس ساری صورت حال پر ’’ کنٹریکٹر ‘‘کے نام سے ایک کتاب لکھی جس کا اردو ترجمہ ڈیلی پاکستان آن لائن میں قسط وار پیش کیا جا رہا ہے ۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ادارہ یا قاری کا اس کتاب کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔ کتاب پڑھتے وقت یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ یہ کتاب ایک ایسے شخص نے لکھی ہے جو خود کو کچھ بھی کہے لیکن پاکستان کے عوامی حلقوں میں اسے جاسوس قرار دیا جاتا ہے ۔ ریمنڈ ڈیوس کے عزائم اور اسکے ’’مالکوں‘‘ کی فطرت اور طریقہ کار کو سامنے لانے کی غرض سے اس کتاب کا اردو ترجمہ کرنا قومی مفاد کا درجہ رکھتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی اس کتاب میں جو ’’انکشافات‘‘ کئے گئے ہیں انہوں نے ایک بار پھر پاکستانی سیاست میں بھونچال پیدا کر دیا ہے ۔ کتاب کا ترجمہ و تلخیص نامورتحقیقاتی صحافی سید بدر سعید نے کیاہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے بعد پاکستان میں چھپنے والی پہلی اردو تحقیقاتی رپورٹ سید بدر سعید نے ہی لکھی تھی ۔ مصنف اس سے قبل ’’خودکش بمبار کے تعاقب میں ‘‘ اور ’’صحافت کی مختصر تاریخ . قوانین و ضابطہ اخلاق ‘‘ جیسی تحقیقاتی کتب لکھ چکے ہیں ۔ انہیں دہشت گردی ، طالبانائزیشن اور انٹیلی جنس امور پر اتھارٹی سمجھا جاتا ہے ۔وہ پاکستان کے اہم صحافتی اداروں میں اہم عہدوں پر ذمہ داریاں سر انجام دے چکے ہیں ۔

مزید :

دی کنٹریکٹر -