عادت یا روائیت
عورت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب وہ بہو ہوتی ہے تو اس کو ساس اچھی نہیں ملتی۔ اور جب وہ ساس بن جائے تو بہو بری مل جاتی ہے۔ ساس بہو کا معاملہ مذہبی فرقوں کی طرح ہے۔ جس میں ہر فرقہ دوسرے فرقے کی نظر میں حتمی طور پہ جہنمی ہوتا ہے۔ آج تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ بہو اچھی ہوتی ہے یا ساس۔ عام طور پہ خاندانی مسائل کے مطابق تو پلڑا ساس کی طرف بھاری ہوتا ہے، یعنی ساس بہت ظالم ہے۔ لیکن سچی بات ہے دوسری طرف بھی ایسی ہی شکائیت " بہو اچھی نہیں " سننے کو ملتی ہے۔ بقول شخصے ساس تو لیڈی ڈیانا کو بھی اچھی نہ ملی تو عام عورت کس کھاتے میں ہے۔ تاہم عورتوں کی اس معاملے میں اپنی شرح ہے جو وقت اور حالات کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔
شادی سے پہلے جو ساس بہو کے صدقے واری جاتی ہے، شادی کے اگلے ہی دن بہو کو صدقہ سمجھ کر جلد سے جلد گھر سے باہر نکالنے پر تل جاتی ہے۔ حسن کی دیوی لگنے والی بہو ناگن لگنے لگتی ہے۔ جس ہنسی پہ فدا ہو کے رشتہ کیا تھا، وہی مسکراہٹ اب زہر قاتل لگتی ہے۔ زبان کی مٹھاس لہجے کی کڑواہٹ میں بدل جاتی ہے۔ بہو کے ہر کام میں نقص نظر آتا ہے۔ اپنی صفائی میں بولنے والی بہو بدتمیز اور منہ پھٹ ہوتی ہے، چپ رہنے والی میسنی۔ بہو موٹی ہوجائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے، کہ بہو نے کھا کھا کر پتر نوں کنگال کردتا۔ تاہم اسمارٹ بہو بھی کم بدنام نہیں۔ دبلا پتلا رہ کر سسرال کو بدنام کرنے کی سازش سمجھی جاتی ہے۔ ایسی چالاکو بہو ہے کہ جسم تک کوسمجھا رکھا موٹا نہ ہوویں ۔ گوشت چاہے عید کے عید پکتا ہو لیکن بقول ساس سارے خاندان کے حصے کی بوٹیاں بہو کھا جاتی ہے۔ اس کے ورگہ ہی ایسا بندہ کھا جائے ڈکار نہ آئے، ہائے کچھ لگتا ہی نہیں ظالم کو۔ جب تک کوئی خوشخبری نہ آئے اس وقت تک بہو بانجھ ہوتی ہے۔ بچوں کی لگاتار آمد کا سلسلہ شروع ہوجائے تو بہو بے حس کہلاتی ہے، جو اتنی مہنگائی میں بچے پہ بچہ پیدا کئے جا رہی لیکن شوہر کا احساس نہیں کرتی۔ حالانکہ یہ احساس شوہر کے کرنے کا ہے۔ ساس کے مذہب میں شوہر کے پاس بیٹھنے والی بہو بے شرم ہوتی ہے۔
عموماً سارا دن ساس کے بہو پر اعتراضات چلتے رہتے ہیں۔ ساس نما خواتین بہو کو پیر دبانے کا کہتی ہیں جبکہ بیٹی کو ساس کا گلا۔ بیٹی کے لیئے الگ گھر کا مطالبہ جائز اور بہو کا الگ کمرہ بھی ناجائز تصور کیا جاتا ہے۔ میاں کو قابو کرنے کے تمام راز ہفتہ وار تعطیل پہ آئی بیٹی کو سینہ بہ سینہ منتقل کیئے جاتے ہیں۔ باتوں سے جلا جلا کر بہو کو کالا کرنے والی ساس کے تکیے کے نیچے ہمیشہ گولڈن پرل ہوتی ہے جسے وہ رات کو لگانا نہیں بھولتی۔
میرے پڑوس میں ایک بہو اپنی ساس کے ساتھ رہتی اور ساس اپنے بیٹے کے ساتھ۔ اور ان کے ساتھ لوگ رہتے ہیں جو انھیں الگ الگ بتاتے ہیں کہ دوسرا سراسر ظلم کرتا ہے۔ عموماً ساسوں کو بہو نہیں روبوٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو ان کے حکم پر من و عن عمل کرے۔ ہر طرح کی خواہشات اور احساسات سے عاری ہو۔ اچھی بہو وہ ہوتی ہے جس کے پاس زبان ہو نہ خواہشات۔ ایک انسان میں روبوٹ کی خوبیاں دیکھنا چاہیں گے تو مسائل ہی پیدا ہوں گے۔