نان فائیلر، کسے کہتے ہیں، بتا تو دیں!
یہ تو طے ہے کہ ایف بی آر میں اعلیٰ افسروں کی تعیناتی ان کی اہلیت کے حوالے سے کی جاتی ہے،قانون کی کتاب میں پڑھیں تو محکمہ،بلکہ ہر محکمہ عوامی بہبود اور سرکاری کام بہتر طور پر انجام دینے کے لئے بنایا جاتا ہے اور دنیا میں یہی ہوتا ہے تاہم ہمارے ملک میں ذرا پانی چڑھائی کی طرف بہتا ہے اور ہر محکمہ اپنی اہلیت ثابت کرنے یا پھر اپنے مفادات کے لئے عوام کو تنگ کرنے پر لگا رہتا ہے۔ایف بی آر سے شروع کیا تو بنیادی طور پر اس کا کام حکومت کے مالی امور کو آمدنی کے حوالے سے سنبھالنا ہے اور حکومتی ہدف کو پورا کرنے کے لئے شہریوں سے مقررہ ٹیکس وصول کرنا ہے بظاہر اس میں کوئی پیچیدگی نہیں اور نہ ہونا چاہئے، لیکن ہمارے ملک میں اُلٹا حساب ہے۔اس کا اندازہ لگانا ہو تو مقامی ٹیکس عدالتوں سے سپریم کورٹ تک زیر التواء مقدمات یا درخواستوں سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہریوں کو کیسی کیسی تکالیف اور شکایات ہیں۔یوں بھی جب سے ہوش سنبھالا ہے پٹواری اور محکمہ انکم ٹیکس کے حوالے سے کبھی تعریف والی خبر نہیں سنی۔البتہ شکایات کا دفتر بہت وسیع ہے، ہمارے صحافتی ساتھی مرحوم سجاد کرمانی کا تو قول ہی یہ تھا کہ انکم ٹیکس ریٹرن بھرنے سے بچنا اگر تم نے ایک بار ایسا کر لیا تو پھر قبر تک تمہارا پیچھا نہیں چھوٹے گا،وہ یہ بات ٹیکس نہ دینے کے لئے نہیں کہتے تھے کہ ملازمت پیشہ افراد کی تنخواہ جونہی ٹیکس کی مقررہ شرح تک پہنچتی ہے تو ادارہ ماہانہ انکم ٹیکس کے لئے کٹوتی شروع کر دیتا ہے۔ کرمانی صاحب تو یہ بات سب شہریوں کے لئے کہا کرتے تھے اور وضاحت کرتے کہ ایک بار جس کا نام انکم ٹیکس رجسٹر پر چڑھ جائے پھر اس کی جان نہیں چھوڑتے کہ انکم ٹیکس انسپکٹر موت کے وہ فرشتے ہیں جن کی آمدکی اطلاع ہی تیز بخار چڑھا دیتی ہے کہ یہ انسپکٹر لوگ ٹیکس سہولت سے وصول کرنے نہیں آتے،بلکہ شہریوں کی آمدنی میں اپنا حصہ وصول کرنے کے لئے تشریف لاتے ہیں، ان کے ساتھ سیٹ ہونا مقررہ ٹیکس میں بھی بچث کرنا ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ شہری خواہ ان کا تعلق کسی بھی شعبہ زندگی سے ہو وہ ان ”فرشتوں“ سے خوفزدہ ہی رہتا اور بہی کھاتوں کے ساتھ ساتھ ان حضرات کی فرمائشوں سے بچنے کے لئے خود کو ٹیکس دہندہ شمار ہی نہیں کراتا اور متعلقہ انسپکٹر حضرات کی ”خدمت“ ٹیکس ریٹرن بھرنے سے بچنے کے لئے کرتا ہے، یہ ہمارے معاشرے کا اصول ہے جو چل رہا ہے،اب تک اس شعبہ کی اصلاحات کے لئے بڑے بڑے اعلیٰ دماغ حضرات کی خدمات بھی حاصل کی گئیں وہ بھی اس شعبہ سے کچھ وصول نہیں کر سکے،چنانچہ پانی اُلٹا بہنا شروع ہوتا ہے اور شہریوں کی شامت آ جاتی ہے کہ پہلے سے ہی موجود ٹیکسوں میں ردوبدل کر کے نئے قواعد لاگو کر دیئے جاتے ہیں اور یوں بالواسطہ ٹیکسوں کا سلسلہ بڑھ جاتا ہے۔
قارئین کرام! یہ سب گذارشات احوال واقعی ہیں اور ہمارے ملک میں بالواسطہ ٹیکسوں کی ”جھڑی“ لگی ہوئی ہے حتیٰ کہ ہمارے تو سانس لینے پر بھی ٹیکس عائد ہو جاتا ہے اور اگر خدانخواستہ کسی کی سالانہ آمدنی(تنخواہ کے حوالے سے) ٹیکس کی شرح والی حد سے تھوڑا زیادہ ہو جاتی ہے تو پھر آپ معزز ٹیکس دہندہ بن جاتے ہیں، بقول بزرگوں کے آپ اس قابل ہو جاتے ہیں کہ آپ کو سرکاری اداروں میں کرسی ملے۔
یہ عرض کرنے کی جرأت اس اطلاع سے ہوئی کہ ایف بی آر نے ٹیکس کی شرح بڑھانے کے لئے ٹیکس ریفارمز کے نام پر نئے نئے ٹیکس عائد کرنے اور نئے شعبے بنانے کی سعی شروع کر دی ہے اور اب نیشنل فرانزک ایجنسی بل 2024ء تیار کر کے نیا ٹیکس کلچر متعاف کرانے کی کوشش کی ہے اور فائیلر نان فائیلر کا خود ہی تعین کر کے ایک نئی کیٹگری متعارف کرائی ہے جسے مسلسل ”نان فائیلر“ کہا جا رہا ہے اور یہ ٹرم ابھی تک تو سمجھ ہی نہیں سکے تو عملدرآمد کے وقت جو کچھ ہو گا اس سے کون نبردآزما ہو گا،اس کیٹگری کو خود وزیر خزانہ اورنگزیب (رامے) بھی نہیں سمجھ سکے اور انہوں نے خود اعتراف کیا تھا، نان فائیلر کے حوالے سے جو مسودہ قانون پیش کیا گیا ہ دین اور آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہے کہ آپ نے نان فائیلر کا نام لے کر ان تمام شہریوں کو بنیادی حقوق سے محروم کر دیا ہے، جن کی سالانہ آمدن انکم ٹیکس کی شرح سے کم ہے، حالانکہ آپ ایسے سمجھدار(بنیئے) ہیں کہ پہلے ہی سے ان لوگوں سے مختلف طریقوں سے انکم ٹیکس وصول کئے جا رہے ہیں جن کی آمدنی انکم ٹیکس کی حد یا شرح سے کم ہے۔ آپ یہ ٹیکس بھی اپنی ہی اصطلاح ”وِد ہولڈنگ ٹیکس“ کے نام سے وصول رہے ہیں۔ یہ ٹیکس آپ مختلف یوٹیلٹی بلوں اور بعض اشیاء کی خریداری کے ذریعے وصول کرتے ہیں اب تو جو ٹیکس گذار اور آپ کے مطابق فائیلر ہیں وہ تو رسیدیں یا پرچیاں محفوظ رکھ کر سال بعد ریفنڈ کے لئے درخواست دے سکتے ہیں لیکن جن کو اب آپ نان فائیلر کا نام دے رہے ہیں،جو حقیقتاً برابر کے انسانی حقوق کے حامل شہری ہیں ان کا صرف یہی قصور ہے کہ وہ محنت کر کے یا ملازمت سے اتنی سالانہ آمدنی کے حامل نہیں ہیں جن کو آپ فائیلر کی آمدنی کہتے ہیں۔خود آپ ہی سالانہ بجٹ کے موقع پر انہی ”غربا“ کے لئے سالانہ آمدنی کی شرح مقرر کرتے ہیں جس کے مطابق کوئی شہری انکم ٹیکس دینے کا پابند ہو جاتا ہے اور تنخواہ دار طبقے سے آپ کا معاملہ بھی اسی شرح سے ہوتا ہے۔
قارئین! اگر بڑے بڑے مشاہروں والے اعلیٰ ترین اہلیت کے حامل برا نہ منائیں تو عرض کروں گا کہ آپ تو ”وِد ہولڈنگ ٹیکس“ کے نام سے کم شرح والے شہریوں سے پہلے ہی جگا ٹیکس وصول کر رہے ہیں جو یوٹیلٹی بلوں میں درج اٹھارہ اقسام کے ٹیکسوں میں شامل ہے، یہ ٹیکس جو پیشگی انکم ٹیکس ہے قواعد و قانون کے مطابق قابل واپسی ہے، لیکن یہ واپسی کسی”نان فائیلر“ کے لئے نہیں کہ اس کی آمدنی انکم ٹیکس کی سالانہ شرح سے کم ہے،لیکن آپ بلوں اور مختلف اشیاء کی خرید پر اس سے یہ ٹیکس وصول کر رہے ہیں۔ یوں اگر ذرا گہرائی میں جا کر جائزہ لیا جائے تو یہ سب شہری جو ”وِد ہولڈنگ ٹیکس“ کے نام پر اپنی جائز اور محنت کی کمائی میں سے ٹیکس دیتے ہیں، ان کو تو یہ واپس نہیں ہوتا، اور جگا ٹیکس کے طور پر خزانہ میں جمع ہو جاتا ہے،کیا یہ انصاف ہے؟
اب ذرا یہ بھی غور کر لیں کہ آپ متعدد قسم کے ٹیکس بالواسطہ طور پر صول کرتے ہیں، آپ نے یہ آسان طریقہ یوٹیلٹی بلوں میں درج کرنے کا اختیار کیا ہے۔ ان میں جنرل سیلز ٹیکس سے وِد ہولڈنگ ٹیکس تک شامل ہوتا ہے۔ صنعتکار اور تاجر حضرات جو آپ کے مطابق فائیلر ہیں وہ یہ پیشگی ٹیکس اپنے اخراجات میں شامل کر کے آپ سے وصول کر لیتے ہیں، لیکن جو شہری ٹیکس اہلیت کی آمدنی کا حامل نہیں، اس کا کیا قصور ہے کہ پہلے آپ اس سے مختلف قسم کے وہ ٹیکس وصول کر رہے ہیں جو قانون کے مطابق اس پر لاگو ہی نہیں ہوتے اور اب آپ نے ایک قانون کے ذریعے ایسے شہریوں کو اپنے ہی ملک میں ”شودر“ کا درجہ دے کر مختلف سہولتوں سے محروم کر دیا ہے۔
آپ تو بڑے لوگ ہیں آپ کو تو شاید ”پی سی“ یا ”کمیٹی“ کے نام کا بھی علم نہیں ہو گا جو گھریلو خواتین آٹے، سالن میں سے بچا کر جمع کرتی ہیں یا پھر دیوانے شہری کئی سال تک ماہانہ چند روپے جوڑ جوڑ کر بڑھاپے میں ”حج“ کے لئے جاتے ہیں آپ نے تو ان کو بھی روکنے یا پھر حج کے لئے مجموعی رقم میں، ”وِد ہولڈنگ ٹیکس“ کے نام پر رقم لے لینے کے باعث اسے مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ یہ فریضہ بھی ادا نہ کر سکے۔
مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ کوئی شہری اس ایکٹ کو آئینی عدالت میں چیلنج کر رہا ہے یا نہیں،لیکن میرے نزدیک یہ آئین ہی سے نہیں دین اسلام سے بھی متصادم ہے اور اسے چیلنج ہونا چاہئے۔،ٹیکس کی کمی پوری کرنا ہے تو ان سے کریں جو آمدنی کے حامل ہو کر ٹیکس نہیں دیتے۔وہاں آپ کے پَر جلتے ہیں کہ مارکیٹوں کے شٹر ڈاؤن کر دیئے جاتے ہیں۔
٭٭٭٭٭