بھٹو، عمران اور مریم نواز
پی ٹی آئی کیا کہتی تھی؟ کہتی تھی کہ پچھلے چالیس سال کی خرابی ہے چار سالوں میں کیسے ٹھیک ہو سکتی ہے جبکہ عمران خان حکومت لینے سے قبل کہتے تھے کہ میرے پاس بہترین معاشی ٹیم ہے جو ملک کو ترقی کے راستے پر ڈال دے گی۔ پھر جب حکومت ملی تو ہوا یہ کہ اس بہترین معاشی ٹیم کے سرخیل اسد عمر پہلے برس ہی آئی ایم ایف کے سامنے پاکستان کا مقدمہ لے کر پیش ہوئے تو ابھی واشنگٹن میں ہی تھے کہ اپنی وزارت سے ہاتھ دھو بیٹھے،پھر عاطف میاں کا غلغلہ گونجنے لگا، عاطف میاں،عاطف میاں، عاطف میاں ہونے لگی، مگر ان کا قادیانی ہونا ان کے آڑے آ گیا اور عمران خان وہ فضا بنانے میں ناکام رہے جس کے طفیل وہ انہیں پاکستان میں لا پاتے، کیونکہ ان کے لئے بھی ختم نبوت کی دیوار پھلانگنا ممکن نہ تھا۔ اس کے بعد مقامی طور پر ایک بینکر شوکت ترین کو لایا گیا،جنہوں نے وہ گل کھلائے کہ بالآخر ان پر غداری کے مقدمات قائم ہوئے اور اب وہ پاکستان سے مفرور ہیں۔اسی طرح شبر رضوی کو ٹیکس ریفارمز کے لئے لایا گیا تو انہوں نے بھی ایک سال میں ہی ہاتھ جوڑ دیئے۔ جب سب کچھ ناکام ہوگیا، تو پی ٹی آئی نے افواہ سازی کا بازار گرم کردیا کہ معیشت کو نون لیگ نے بگاڑ ہی اس قدر دیا ہے کہ اس کو ٹھیک کرنے کے لئے کئی سال چاہئیں، کبھی کہا گیا کہ 40سال کا گند چار سال میں کیسے صاف ہو سکتا ہے اور یوں ساری خرابی کی ذمہ داری نون لیگ کی حکومت پر ڈال کر عمران خان کو معصوم قرار دینے کی کوشش کی جاتی رہی۔
آج جب نون لیگ کو دوبارہ سے حکومت میں آنے کا موقع ملا ہے تو نون لیگ نے معاشی تنزلی کی وجوہات گنواتے ہوئے تو ضرور عمران حکومت کو ذمہ دار قرار دیا کہ ملک کو ڈیفالٹ کے دہانے پر لے آئی تھی، ڈالر کو روپے کے مقابلے میں کھلا چھوڑ دیا تھا، آئی ایم ایف کی شرائط کو توڑ کر بجلی اور پٹرول کی قیمتوں کو کم کردیا تھا، مگر نون لیگ نے کبھی نہیں کہا کہ چار سال کا گند چار دِنوں میں صاف نہیں ہوسکتا یا یہ انہیں بھی کئی سال درکار ہیں، اس کے برعکس انہوں نے اپنی محنت شاقہ سے دو سال میں ہی معیشت کی سمت کو درست کرلیا ہے اور اب اس کے ثمرات آنا شروع ہو گئے ہیں کہ مہنگائی میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے اور بینکوں کی شرح سود بتدریج گھٹتی جا رہی ہے، اگلے سال تک یہ بھی کم ترین سطح پر آجائے گی اور ملک میں سرمایہ کاری کے رجحان میں تیزی دیکھی جائے گی۔
پیپلز پارٹی نے بھی اس طرح سے کم شدومد سے نون لیگ کو ساری خرابیوں کا ذمہ دار قرار دیا ہے مگر اس کو بھی معیشت کے بگاڑ کو درست کرنا نہیں آتا،اسی لئے اس کے باوجود کہ فروری 2024ء کے انتخابات کے بعد نون لیگ نے پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کو دعوت دی کہ وہ مل کر حکومت بنالیں اور نون لیگ حزب اقتدار میں بیٹھ جائے گی، مگر دونوں ہی پتلی گلی سے نکل گئے اور اب نون لیگ کے کاموں میں کیڑے نکالنے کے علاوہ کچھ کام نہیں کرتے،وہ تو شکر ہے کہ پیپلز پارٹی کو احساس ہو گیا ہے کہ ایک زرداری سب پر بھاری کے نعرے تلے پنجاب کو جس طرح پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈالا گیا اس سے بلاول کے راستے میں سوائے کانٹے بچھانے کے کچھ حاصل نہیں ہوا ہے اور اب کوشش جاری ہے کہ کسی طرح پیپلز پارٹی کا ورکر دوبارہ پی ٹی آئی سے ٹوٹ کر اس سے آن جڑے، اس لئے پیپلز پارٹی بھی پی ٹی آئی کے لتے لے رہی ہے وگرنہ ان دو جماعتوں میں اگر اب بھی گاڑھی چھن رہی ہوتی تو وہ دھماچوکڑی مچاتیں کہ الامان و الحفیظ!
پاکستانیوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان ایسے شعبدہ بازوں نے پاکستان کی اکانومی کو وہ زک پہنچائی ہے کہ پچھلے پچاس برسوں میں سب کچھ ٹوٹ پھوٹ کر رہ گیا ہے، بھٹو نے پرائیویٹ سیکٹر کے آگے ڈکا لگایا توعمران خان پبلک سیکٹر کی تباہی کے درپے ہو گئے تھے اور آرمی اور عدلیہ سے لے کر ہر ادارے میں عثمان بزدار بٹھانے کے درپے تھے، یوں ان دو پاپولر لیڈروں نے مل کر اس درخت کو دونوں طرف سے کاٹا ہے، نتیجہ یہ نکلا ہے کہ معیشت کو بگاڑ کر مسلم لیگ کے کھاتے میں ڈال کر ڈنڈے بجاتے پھرتے ہیں۔ عوام کو چاہئے کہ جذباتیت سے باہر نکلیں، ملکی معیشت کو بہتر کرنے کے لئے کمر کس لیں، حکومت کا ساتھ دیں۔ انہیں اس ایک بات سے ہی سبق سیکھنا چاہئے کہ ایک ایسے وقت میں جب سندھ حکومت سیلاب کے نتیجے میں ورلڈ بینک سے ملنے والی ڈالروں میں امداد کے مزے لے رہی ہے اور کے پی حکومت ملک کا سیاسی استحکام تلپٹ کرنے میں جتی ہوئی ہے،وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اپنے والد اور چچا کی تقلید کرتے ہوئے چین کا کامیاب دورہ کر کے وہاں کی ترقی سے چند خوشے توڑ کر لے آئی ہیں اور جلد ہی پنجاب میں ان کا عکس نظر آنے لگے گا۔
اگر مریم نواز اپنے والد اور چچا کی طرح چین کی ترقی کے چند نمونے پنجاب میں اجاگر کرنے میں کامیاب ہو گئیں تو جس طرح ان کے والد نواز شریف نے بھٹو کی مقبولیت کو مات دے دی تھی اسی طرح مریم نواز عمران خان کی مقبولیت کو مات دے دیں گی، کیونکہ آخر میں عوام کو نام نہیں کام لبھاتا ہے اور وہ ترقی کو ترک زبانی پر ترجیح دیتے ہیں۔ پنجاب کے عوام نے جس طرح بدترین پراپیگنڈے کے باوجودپچھلے 40برسوں سے نون لیگ کا ساتھ دیا ہے، اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے!
٭٭٭٭٭