عوام کے طرز عمل میں تبدیلی کی ضرورت

عوام کے طرز عمل میں تبدیلی کی ضرورت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان سے والہانہ محبت کے دعوے دار تو ہم سب ہیں لیکن حقیقت میں پاکستان سے سچی محبت کون کون کرتا ہے؟ اگر اس سوال کا جواب انفرادی طور پر خود سے اور اجتماعی طور پر تمام اہل وطن سے پوچھا جائے تو جواب یقینا مثبت اور وطن پرستی کے جذبہ سے معمور ملے گا۔ ہم سب پاکستان پر مرمٹنے کو تیار ہیں لیکن پاکستان کی تعمیر اور ترقی میں ہم اپنا کردار ذمہ داری سے ادا نہین کر رہے یہی وجہ ہے کہ گذشتہ 65 سالوں میں پاکستان میں سیاسی استحکام اپنی جڑیں مضبوط نہیں کرسکا۔ ہماری اجتماعی غفلت اور لاپرواہی نے پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط طرزِ حکمرانی نہیں دیا اور عوام کی عدم دلچسپی نے ہمارے سیاسی نظام کو بار بار فوجی آمروں کے سپرد کردیا ہے۔ عوام اور سیاستدانوں کی مشترکہ غفلت نے 65 سالہ سیاسی تاریخ میں نصف سے زائد عرصہ فوجی آمروں کے لئے مختص کئے رکھا۔ عوام اور سیاستدانوں کی مشترکہ لاپرواہی نے پاکستان کی عدلیہ کو بھی کبھی آزاد اور خودمختار نہ بننے دیا، لیکن 2007 ءکے آمرانہ صدارتی ریفرنس نے پاکستان کی سیاست میں ایک انقلاب بپا کردیا جب چیف آف آرمی نے چیف جسٹس سے زبردستی استعفیٰ طلب کیا تو چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چودھری کی مضبوط قوتِ ارادی نے پاکستانی عوام، سیاستدانوں، قانون دانوں کے ضمیر کو جھنجوڑا اور فوجی آمریت کے سامنے مرد آہن بن کر اک نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی آزاد الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے غیر جانبدارانہ اور نہایت مثبت ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے ججز بحالی تحریک کو بھرپور کوریج دے کر پاکستان کے عام آدمی کو سیاست اور ریاست کے امور میں دلچسپی لینے پر مجبور کر دیا اور یوں 2008 ءمیں عوامی لانگ مارچ نے جنرل پرویز مشرف کے غیر آئینی فیصلے کو حق و انصاف کے عوامی مطالبے کے قدموں تلے روند ڈالا۔ججز بحالی کی عوام تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور آزاد عدلیہ کے منصفانہ فیصلوں نے عوامی مفادات کی ترجمانی کی اور حق و انصاف کے تاریخ ساز فیصلے صادر کرکے پاکستان کی تاریخ بد ل دی۔
2008 ءکے عام انتخابات کے نتائج سے معرض وجود میں آنے والی وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے اپنے اپنے 5 سال پورے کئے۔ اگر وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ بات سب پر عیاں ہے کہ حکومت پنجاب عوامی فلاح و بہبود اور عوامی ترقیاتی کاموں میں سب پر سبقت لے گئی ہے۔ لاہور کی اطراف میں 40 کلومیٹر رنگ روڈ، آشیانہ ہاﺅسنگ سکیم، دانش سکولوں کا پنجاب کے دور دراز علاقوں میں قائم کیا جانا، پراپرٹی لینڈریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن سے پٹواری کی اجارہ داریوں کا خاتمہ، میٹرو بس سروس کا اجرائ، پنجاب کے متعدد اضلاع میں اربوں روپے کی خطیر رقم سے ترقیاتی سکیموں کا اجرائ، لیپ ٹاپ کی میرٹ پر طلبہ و طالبات کو فراہمی، اجالا پراجیکٹ کے تحت سولر لائٹ سسٹم کی مفت فراہمی، ذہین اور مستحق طلبہ کے تعلیمی اخراجات کے لئے 10 ارب روپے کے فنڈ کی فراہمی سے تعلیم کے لئے وظائف کا اجرائ، سرکاری سکولوں اور کالجز کی اپ گریڈیشن، سکولز اور کالجز کے لئے کمپیوٹر لیب کی فراہمی، پنجاب بھر کے ڈاکٹرز کے لئے سروس سٹرکچر کا اجرائ، تعلیم کے شعبہ میں انقلابی اقدامات کا اجرائ، پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور دیہاتوں و شہروں میں سیوریج سسٹم کی بہترین سہولتوں کی فراہمی، ریسکیو سروسز کی سہولتوں میں گراں قدر اضافہ، کنزیومر کورٹس کے ذریعے صارفین کی شکایات کا ازالہ اور نقصانات کی جلد اور فوری تلافی، صحت کے شعبہ میں عوام کو معیاری ادویات کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام، رشوت، اقربا پروری اور کرپشن کے خاتمہ کے لئے فیڈ بیک سروسز کا اجراءیہ سب ایسے کارنامے ہیں جو پنجاب کے علاوہ کسی صوبائی حکومت کے توسط سے عوام کو میسر نہیں ہوسکے۔ صرف پنجاب حکومت کی لیڈر شپ نے پنجاب کو ترقی دے کر ثابت کیا ہے کہ محض عوامی خدمت کے دعوے نہیں بلکہ عملی اقدامات اٹھا کر ملک و قوم کی تقدیر کو تبدیل کیا گیا ہے۔
 ملک بھر میں وفاقی حکومت کے غلط طرزِ حکمرانی نے پاکستان پیپلز پارٹی کے مقبولیت کے گراف کو پستی کی طرف دھکیلا ہے۔ بجلی، پانی، گیس، پٹرول کی عدم فراہمی نے عوام پر روز گار کمانے کے دروازے بند کردیئے ہیں۔ گذشتہ 5 سالوں میں بڑے بڑے صنعتی یونٹ بجلی، گیس اور پٹرول کی عدم دستیابی کے باعث بند پڑے ہیں۔ وفاقی حکومت کے پاس کوئی ایک ایسا کارنامہ نہیں جس کی بنیاد پر اگلے الیکشن میں وہ عوام سے ووٹ مانگ سکے۔ خراب طرزِ حکمرانی کے باعث عوام کا جینا محال ہوچکا ہے۔ غربت میں شدید اضافہ، مہنگائی اور بیروزگاری کے سیلاب نے عوام کو خود کشیوں پر مجبور کردیا ہے۔ رشوت، اقرباپروری اور غیر ذمہ دارانہ رویوں کی بدولت کراچی، کوئٹہ اور سندھ بھر میں قتل و غارت گری کا کبھی نہ رکنے والا سلسلہ 5 سال جاری رہا۔ کراچی میں بے گناہ شہری صبح و شام بغیر کسی تعطل کے زندگی سے ہاتھ دھوتے رہے۔ وزارتِ داخلہ کی ناقص پالیسیوں کے باعث جرائم پیشہ افراد کی کارروائیوں میں گراں قدر اضافہ عمل میں آیا۔ ظلم و جبر اور مہنگائی کے جن سے ستائے عوام بنیادی ضروریاتِ زندگی کے حصول میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جاں بلب ہو رہے ہیں۔ پاکستانی عوام کی اس بدحالی میں خود عوام کا اپنا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ جب عوام کی اکثریت ووٹ ڈالنے کی ذمہ داری کو ادا ہی نہیں کرے گی تو پھر 500 یا 1000 روپے کے عوض اپنا قیمتی ووٹ بیچنے پر مجبور لوگوں کے ووٹ ڈالنے سے لولی لنگڑی اور فالج زدہ حکومت ہی سیاسی مفاہمتوں کے نام سے معرضِ وجود میں آتی رہے گی۔ آٹا اور گھی کے پیکٹ کے عوض ووٹ ڈالنے والے مجبور اور مفلس لوگ جعلی ڈگری ہولڈرز کو ہی کامیاب کرواتے رہیں گے۔
ان حالات میں اپنے سیاسی رہنماوﺅں سے پاکستان کی تقدیر بدلنے کے خواب دیکھنا ایک بیکار مشغلہ ہے۔ اب پوری قوم کو بیدار ہونا پڑے گا اور ملک کی بقاءاور ترقی کے لئے وہ سب لوگ جو کبھی الیکشن میں ووٹ کاسٹ نہیں کرتے انہیں بھی آئندہ انتخابات میں اپنا فیصلہ کن ووٹ کاسٹ کرکے ملک کی تقدیر بدلنے میں اپنا مثبت سیاسی کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان ہم سب کا ہے اور اس کو صرف جرنیلوں یا سیاست پر چھائے ہوئے چند گھرانوں کی ملکیت نہیں سمجھنا چاہیے۔ جعلی ڈگری ہولڈرز، بار بار سیاسی جماعتوں سے سیاسی وفا داری تبدیل کرنے والے لوٹوں کو شکست دے کر ہی ملک کی حالت سنواری جاسکتی ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے کہ اگرہم سب اپنا قیمتی ووٹ آزادانہ اور ملکی مفاد میں بہترین انداز سے استعمال کریں۔
 آئندہ انتخابات میں اگر ٹرن آﺅٹ 70 سے 80 فیصد ہو جائے تو یقینا پاکستان میں انقلاب آجائے گا۔ جو لوگ سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو گھر بیٹھے مسترد کردیتے ہیں اگر وہ انہی سب سیاستدانوں کو پولنگ سٹیشن جا کر اپنے ووٹ کی طاقت کے استعمال سے مسترد کردیں گے تو یقینا ایک بہترین پارلیمنٹ کا وجود عمل میں آئے گا۔ لہٰذا معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا قیمتی ووٹ کاسٹ کرکے ایک بہتر اور خودمختار پاکستان کی تکمیل میں اپنی قومی ذمہ داری کو نہایت دانش مندی سے اور فرض شناسی سے نبھانا ہوگا۔ ڈاکٹرز، وکلائ، انجینئرز، سرکاری ملازمین ادنیٰ و اعلیٰ، تاجر، طلبہ و طالبات، اساتذہ، کسان، مزدور، کارخانہ دار مختصر یہ کہ سب پاکستانیوں کو چاہیے کہ آئندہ الیکشن میں ووٹ ضرور کاسٹ کریں۔ کیونکہ ملک و قوم کی تقدیر سنوارنے میں اب ان سب لوگوں کو بھی اپنا ووٹ کاسٹ کرنا ہوگا جو کبھی ووٹ کا حق استعمال ہی نہیں کرتے۔ اگر ملک کے اکثریتی عوام نے دیانتداری اور ذمہ داری سے اپنا ووٹ کاسٹ کیا تو اس کے نتائج یقینا مثبت نظر آئیں گے۔     ٭

مزید :

کالم -