مولانا فضل الرحمن، ملکی اور بیرونی حالات کی روشنی میں!

 مولانا فضل الرحمن، ملکی اور بیرونی حالات کی روشنی میں!
  مولانا فضل الرحمن، ملکی اور بیرونی حالات کی روشنی میں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں بڑی اہم تقریر کی۔ان کے مطابق ملکی حالات اچھے نہیں اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ اس کا احساس نہیں۔مولانا نے کہا کہ ملک کدھر جا رہا ہے یہاں کسی کو فکر نہیں۔مولانا صاحب بصیرت دینی اور سیاسی رہنما ہیں،حالات حاضرہ یا2002ء کے بعد کی سیاست کے ادوار کے حوالے سے ان کی اہمیت باباء اتحاد نوابزادہ نصر اللہ کی محسوس کی جا رہی تھی،لیکن وہ بوجوہ یہ کردار نبھا نہ سکے۔اُلٹا اپنی جماعت کے حوالے سے شکایات کا دفتر کھولے احتجاج کرتے نظر آئے۔ ایک دور میں وہ اپنے صاحبزادوں سمیت اتحادی حکومت کا حصہ تھے اور اب حالت یہ ہے کہ وہ اعلانیہ کہتے ہیں کہ وہ ایسے مولوی ہیں، جنہوں نے دو کشتیوں میں پاؤ رکھے اور پار ہو گئے۔ایک وقت وہ بھی آیا جب وہ اور ان کی رہائش فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی حیثیت اختیار کر گئے اور ہر پروانہ اسی شمع کی طرف جاتا تھا جو ان کی رہائش پر جگمگاتی تھی۔

میں جب عملی رپورٹنگ کا حصہ تھا تو مولانا کو تب سے جانتا ہوں جب وہ نوجوان اور صاحبزادے تھے اور ہم ان کے والد گرامی مفتی محمود سے ملنے جایا کرتے تھے، پھر وہ دور بھی آیا،جب محترم مفتی محمود کی وفات کے بعد جمعیت کی امارت میں مولانا کو برتری حاصل ہوئی۔اس میں مولانا شیرانی کا تعاون زبردست اور کچھ ہم دوستوں کا بھی حصہ تھا۔ یہ سب یوں یاد آ رہا تھا کہ مولانا فضل الرحمن ایک نوجوان سے بزرگ اور سنجیدہ سیاستدان بن چکے اور چاروں اُور  ان کا ڈنکا بج رہا ہے،لیکن عرض کروں بُرا نہ مانیں تو مجھے انہوں نے مایوس کیا کہ مجھے1988ء کا وہ دور بھی یاد ہے،جب اسلام آباد ایم این اے ہوسٹل کے دو کمروں میں آنا جانا لگا رہتا تھا اور مولانا صدارتی انتخاب کے لئے پُرجوش اور نوابزادہ نصر اللہ خان کے لئے مہم چلا رہے تھے۔یہ الگ بات کہ ایسا ہو نہ سکا اور بی بی بوجوہ اپنا وعدہ پورا نہ کر سکیں اور غلام اسحاق خان سکائی لیب کی طرح آ گرے۔مولانا اور نوابزادہ دونوں ناراض ہوئے، لیکن یہ ناراضی زیادہ عرصہ نہ چلی اور پھر آصف علی زرداری کام آئے اور دونوں چچا بھتیجا کو منوا لیا۔

اب مولانا کا یہ نیا دور پشاور موڑ والے دھرنا سے شروع ہوتا ہے جو ایک بڑا پُرامن اجتماع تھا اور مولانا ایک نئے ایجی ٹیٹر کی طرح ابھرے تھے(اگرچہ جمعیت کی تاریخ پاکستان قومی اتحاد سے بھی جڑی ہوئی ہے) مولانا کے اپنے بیان کے مطابق ان کو چودھری شجاعت حسین اور ان کے بعد مقتدر باجوہ صاحب نے یقین دلایا تھا کہ جلدی نئے انتخابات ہوں گے،لیکن یہ وعدہ پورا نہ ہوا۔شاید یہ رنج ان کے دِل سے اب تک نہیں گیا اور وہ اس دور کے غصہ کی زد میں آ کر پینترے بدلتے رہے ہیں،حالانکہ مولانا کو آج جو اہمیت حاصل ہے وہ پہلے کبھی نہیں تھی، حالات حاضرہ کا جو تقاضہ ہے اس کے مطابق مجھے خاص طور پر اُمید تھی کہ مولانا اقتدار کی دوڑ میں شامل ہوئے بغیر ایک سینئر اور بزرگ رہنما(بقول عوام۔ نوابزادہ نصراللہ) کی حیثیت اختیار کر کے سیاسی رہنماؤں اور جماعتوں کو جوڑیں گے،لیکن افسوس ہے کہ حضرت صاحب خود اقتدار کی دوڑ میں سر تا پا شامل ہو گئے ہیں جس کے باعث اکثر اوقات ان کے عمل میں تضاد نظر آتا ہے۔وہ کے پی کے حکومت کو جعلی قرار دیتے ہیں تو وفاقی حکومت کے لتے بھی لیتے ہیں،26ویں ترمیم کے لئے ترلے کرواتے اور مان جاتے ہیں، لیکن پھر ان کو تحریک انصاف بھی اچھی لگتی ہے اور ان کو آئین و اصول نظر آتے اور وہ سب کیڑے بھی دکھائی دیتے ہیں جو مبینہ طور پر وفاقی اتحادی حکومت میں ہیں ان کی موجودہ اہمیت کا اندازہ اِس امر سے ہی لگا لیں کہ ان کی ناگوار اور سخت تنقیدی باتوں کو بھی سبھی لوگ رس گلے کی مٹھاس سمجھ کر برداشت کر لیتے ہیں اور اب ان کی اہمیت پھر ایک مرتبہ بڑھ گئی، جب گرینڈ الائنس کا غلغلہ ہے۔بات پھر پروانے کی آ گئی کہ کدھر جاتا ہے کہ اب شمع دو اور مولانا کی اپنی حیثیت پروانے کی ہے، میں تو ان سے قومی اسمبلی کی حالیہ تقریر کی روشنی میں ایک اتحاد کے کردار کی توقع رکھتا ہوں کہ وہ بزرگی کی لاج رکھیں گے اور خود اپنے بقول ملک کی طرف توجہ دیں گے۔

قارئین کرام! مولانا سے اپنے دیرینہ تعلقات کا حوالہ دے چکا ہوں اور اسی حوالے سے یہ توقع کرتا ہوں کہ وہ اب اپنا کردار سیاسی سے زیادہ ایک دینی سربراہ کی حیثیت سے ادا کریں گے کہ اِس وقت ایسے ہی کردار کی ضرورت ہے،جو پاکستان کے لئے بہت اہمیت رکھتا تو عالم اسلام کے لئے بھی مشعل راہ ہو۔اِس وقت امریکی صدارتی انتخاب اور ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے سے عالمی سطح پر بنیادی تبدیلی ہو چکی، جو مسلمانوں کے لئے کسی صورت بھی بہتر اور اچھی نہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ کا صدر منتخب ہو جانے کے بعد پورا حق ہے کہ وہ اپنے ملک کی بہتری کے لئے سوچیں اور اس کے مطابق عمل کریں۔ ایک بڑے ملک اور سپر پاور کہلانے کے باعث صدر امریکہ کو منصفانہ کردار بھی ادا کرنا چاہئے جو ڈونلڈ ٹرمپ سے اُمید نہیں کہ انتخابی مہم سے لے کر اب تک ان کی طرف سے جو بھی ہوا ہے وہ ایک عالمی پراپرٹی ڈیلر اور تھانیدار کا تصور پیش کرتا ہے، کہ موجودہ صدر امریکہ کی نظر یں کینیڈا اور میکسیکو بھی پراپرٹی کی حیثیت رکھتے ہیں اور اگر ان کے مقابلے میں وہ غزہ کو خریدنے اور فلسطین کو بے دخل کرنے کی بات کرتے ہیں تو پھر پوری دنیا کو خبردار ہو جانا چاہئے کہ توسیع پسندی  کی کوئی حد نہیں ہوتی اور یہ تجربہ اسرائیل کی صورت میں امریکی پشت پناہی سے جاری ہے۔ اب تو نیتن یاہو کا یہ دعویٰ غلط نہیں کہ دنیا میں ٹرمپ ہی اسرائیل کے واحد اور حقیقی دوست اور خیر خواہ ہیں۔ مولانا سے عرض ہے کہ وہ خود ذرا  نبی آخر الزمان ختم الرسلؐ کے فرامین کی روشنی میں غور فرمائیں تو ان پر واضح ہو گا کہ ہم مسلمان اس معیار پر پورا نہیں اُتر رہے جس کی توقع کرتے ہوئے ان کو آگاہ کیا گیا تھا کہ ان کے کردار کی روشنی میں دنیا میں ان کے ساتھ سلوک ہو گا اور ہمارا کردار یہ ہے  کہ اسلام کے دشمن اللہ کی طرف سے مسلمانوں ہی کو دی گئی دولت کو انہی کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ٹرمپ صاحب دیوانہ بکار خویش ہوشیار ہیں کہ وہ سیدھے سعودی عرب کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ شہزادہ محمد کو واضح طور پر امریکہ میں اربوں کھربوں کی سرمایہ کاری کرنے کے لئے کہا تو اب یوکرین، روس کی جنگ بندی کے لئے شہزادہ محمد کو کردار دے کر نہ صرف روس سے مفاہمت کی راہ ہموار کر رہے ہیں بلکہ جنگ بندی ہوئی تو تعمیرنو کے حوالے سے بوجھ بھی سعودی عرب پر ڈالیں گے۔ اسرائیل کی حمایت اور فلسطینیوں کی مخالفت میں وہ دور تک چلے گئے ہیں۔ حتیٰ کہ خود کل تک ان کے اتحادی یورپی ممالک ان سے اختلاف کر رہے ہیں تاہم وہ (ٹرمپ) وہی کچھ کرتے چلے جا رہے ہیں جو خود ان کے حق میں ہے اور وہ یہ سب مسلم دنیا کے سرمائے سے کرانا چاہتے ہیں اور اپنے  فلسطین دشمن منصوبے کی تکمیل بھی مسلم ممالک سے چاہتے ہیں استدعا ہے کہ اک نظر ذرا ادھر بھی!

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -