چودھری شجاعت کی قابل تحسین کوشش

ملک آج جس سیاسی خلفشار اور فکری انتشارکا شکار ہے اس کا لازمی نتیجہ نفرت اور مخاصمت ہے، ایسے حالات،جن میں معاشی بحران نے ملکی اور عوامی معیشت کو سنگین خطرات سے دوچار کر رکھا ہو، سیاسی عداوت عروج پر ہوتو ملکی استحکام بھی داؤ پر لگ سکتا ہے،ہر کسی کا دہن جب شعلے اگل رہا ہو توبھائی چارہ،ہم آہنگی اور قومی اتحاد پارہ پارہ ہو جاتا ہے، ایسے میں ضرورت ہوتی ہے ایک ایسی میانہ رو قیادت کی جو قومی اتحاد کی دانہ دانہ بکھرتی تسبیح کو مزید بکھرنے سے بچائے اور پھر بکھرے دانوں کو ایک تسبیح میں پرو کر یکجان کر دے۔ماضی کے اخلاق و روایات کے امین چودھری شجاعت حسین نے اس پر آشوب دور میں پاکستانی قوم میں بھائی چارہ اجاگر کرنے اور انہیں متحد و یکجا کرنے کیلئے ایک دفعہ پھر تمام سیاسی جماعتوں سے رابطے اور انہیں اتحاد کے مختصر ایجنڈا پر مجتمع کرنے کی ایک سعی تحسین کی ہے،جو انتہائی قابل تعریف اقدام ہے۔
مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت نے اس مقصد کیلئے رابطہ کمیٹی بھی تشکیل دی ہے جو تمام سیاستدانوں سے رابطہ کر کے انہیں قومی مفاد میں متحد و یکجان کرنے کی کوشش بروئے کار لائے گی،سچ یہ ہے کہ با مقصد اور ہم آہنگی کی سیاست کے ضمن میں نوابزادہ نصراللہ مرحوم ایک مثالی راہنما تھے، اسی طرح چودھری شجاعت کی خدمات کو مستقبل کا مورخ سنہری الفاظ میں تحریر کرے گا، انہیں منتشرالخیال سیاسی قائدین کو ایک میز پر بٹھانے کی تربیت گھر سے ہی ملی،چودھری خاندان کے سیاسی پیشوا چودھری ظہور الٰہی شہید کی اس حوالے سے خدمات آج بھی مفاہمتی سیاستدانوں کیلئے مشعل راہ ہیں،اگر چہ مرحوم ظہور الٰہی کو مزاحمتی سیاست کا علمبردار تصور کیا جاتا ہے مگر ان کی مفاہمت کی پالیسی ہمیشہ مزاحمت پر غالب رہی، طاہر القادری کا دھرنا ہو یا عمران خان کا، چودھری شجاعت نے بھی ہر موقع پرمصالحتی کردار ادا کیا اور نفرت کے شعلوں کی حدت و حرارت کو کم کرنے کیلئے بروئے کار آئے، چودھری شجاعت کی ”مٹی پاؤ“پالیسی تو ضرب المثل کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔
سب کو ساتھ لیکر چلنے کی اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ چودھری شجاعت کو ہر طبقہ فکر عزت و توقیر کی نگاہ سے دیکھتا ہے،تاہم بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ مرحوم،سیاسی جادوگر صدر مملکت آصف زرداری اور چودھری شجاعت کے طرز عمل،سیاسی سوچ اور ایجنڈا میں نمایاں تفریق ہے مگر ان کی قدر مشترک قومی اتحاد ہے،نوابزادہ مرحوم کی قوم کو ایک لڑی میں پرونے کی تمام کوشش جمہوریت کے احیا اور سیاسی عمل کے تسلسل کیلئے ہوتی تھی، آمریت کیخلاف ان کی طویل جدو جہد آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے،آصف زرداری کے مفاہمتی عمل کا مرکزی نقطہ حکومتوں کے خاتمے اپنی حکومت بنانے اور پھر اسے تا دیر قائم رکھنے کیلئے ہوتی تھی،مگر چودھری شجاعت کی ”مٹی پاؤ“پالیسی کا واحد مقصد قومی اتحاد،نفرت کا خاتمہ ہوتا ہے، ان کی ہر کوشش قومی مفاد کیلئے ہوتی ہے،اقتدار کا حصول کبھی ان کا مقصد نہیں رہا،دور حاضر میں ماضی کی روایات کے علمبردار چودھری شجاعت وضع دار،روا دار سیاستدان ہیں،سب کی سننے اور سب کو ساتھ لیکر چلنا ان کی سیاست کی بنیاد ہے،ان کے والد چودھری ظہور الٰہی نے اپنی جمہوری جدوجہد کے دوران طویل قید کاٹی صعوبتیں برداشت کیں،اس کے بر عکس چودھری شجاعت کو طویل قید نہیں بھگتنا پڑی اگر چہ وہ بارہا مرتبہ جیل گئے،احتساب کے نام پر انتقام کا بھی شکار رہے مگراپنی روش نہ بدلی اور آج انہیں بزرگ سیاستدان کا رتبہ حاصل ہے۔
چودھری شجاعت کی وضع کردہ کوآرڈینیشن کمیٹی کے سربراہ میر نصیر خان مینگل ہیں جبکہ غلام مصطفیٰ ملک نائب سربراہ ہیں،طارق حسن۔ انتخاب چمکنی،ڈاکٹر رحیم اعوان کمیٹی کے ارکان ہیں، بظاہر کمیٹی میں کوئی موثر شخصیت شامل نہیں تاہم مقصد بہت بلند ہے اور جب سرپرستی یا پشت پناہی چودھری شجاعت کی ہو گی تو امید نہیں یقین ہے کہ ہر سیاستدان ان کی بات توجہ سے سنے گا،کاش اس کمیٹی کی سربراہی چودھری پرویز الٰہی کے سپرد ہوتی تو مختصر وقت میں قومی مفاد میں بہترین نتائج حاصل کئے جا سکتے،لیکن بد قسمتی سے گجرات کا چودھری خاندان جس کی اخوت،بھائی چارے،اتحاد و اتفاق کی مثال دی جاتی تھی آج خود اختلافات کا شکار ہے،جس کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کچھ دشواری آ سکتی ہے،اس کے باوجود چودھری شجاعت کی نازک اور کڑے وقت میں سیاست میں یکسوئی اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی تعریف نہ کرنا بدترین درجہ کی بخیلی ہو گی۔
چودھری ظہور الٰہی کی شہادت کے بعد چودھری شجاعت نے ان کی سیاسی وراثت سنبھالی،وہ ایک کم گو شخصیت ہیں،کم بولتے اور بہت کرتے ہیں، ہر اختلافی بات، نفرت، عداوت، مخاصمت پر ”مٹی پاؤ“کی پالیسی اختیار کر کے آگے بڑھنے کی پالیسی اپناتے ہیں،جس کے باعث سیاسی مخالفین بھی انکے گرویدہ ہیں،سیاسی،مذہبی،سماجی حلقوں ہر دلعزیز ہیں اور ایک خاص مقام کے حامل ہیں، لہٰذا ان کی سیاسی انتشار ختم کر کے قومی مفاد میں ہم آہنگی اور یکسوئی سے آگے بڑھنے کوشش یقینی طور پر کامیا ب ہو گی،آج ملک اور قوم ایک ایسی جگہ پر کھڑے ہیں جہاں آگے آگ کا الاؤ اور پیچھے بلند و بالا اور سنگلاخ پہاڑ ہیں، ”نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن“ کی سی کیفیت ہے،ایسے میں ایک ایسی راہ تلاش کرنے کی کوشش جو اس بند گلی سے قوم کو نکالے وقت کی اہم ضرورت ہے اور اگر کوئی راہ نہ ملے تو باشعور اور زندہ قوموں کی طرح نئی راہیں تراشنا ہوں گی اس کیلئے ایک فرہاد اور تیشہ فرہاد کی ضرورت ہے اور اگر چودھری شجاعت کو آج کا فرہاد نہ کہا جائے تو یہ ان کی قومی اتحاد،یکجہتی اور یکسوئی کیلئے کوشش کی ناقدری ہو گی۔
ہم ایک ایسی قوم بن چکے ہیں جس کے افراد ہوا کے دوش پر بیٹھے خود کوقدرت کے رحم و کرم پر چھوڑ بیٹھے ہیں، ملک میں منتخب حکومت ہے مگرتضادات کا شکار،اپوزیشن کو ریاستی طاقت کے ذریعے بند گلی میں دھکیلا جا رہا ہے،کسی کے پاس مقصد ہے نہ قابل عمل منشور،جو لنگڑا لولا منشور ہے اس پر بھی حکمران جماعتیں عملدرآمد سے کنی کتراتی ہیں، جو اقتدار میں نہیں اس کی ساری کوشش اقتدار کیلئے ہے اور جو اقتدار میں ہے اس کی تمام سعی ہمیشہ اقتدار میں رہنے کی ہے،ہماری سیاست کا دارومدار اسی فکر و سوچ پر ہے، اقدار، اخلاق،ملکی مستقبل،قوم کی اندوہناک صورتحال کی کسی کو پرواہ نہیں،خواہشات کے پیچھے سب اندھا دھندبھاگے چلے جا رہے ہیں اور جو راستے میں آتا ہے اسے روند رہے ہیں،ایسے میں ملک و قوم کا درد رکھنے والے حیران و پریشان سب منظر دیکھ رہے ہیں، چودھری شجاعت نے اس ماحول میں قومی اتحاد یکسوئی اور ہم آہنگی کا ڈول ڈالا ہے،ضرورت ہے ہر سیاستدان ڈول کی رسی کو تھامے اور قوم و ملک کو مسائل،مشکلات،بحران سے نکالنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے، ورنہ اصغر خان،شاہ احمد نورانی مرحوم کی طرح اگر چودھری شجاعت بھی اس کوشش میں ناکام ہوئے تو آج کے حالات ہمیں خاکم بدہن، وہاں لے جائیں گے جہاں ملکی مستقبل، استحکام خواب و خیال بن جائے گا۔