معصومیت کے دو چہرے

کاش! ہمارے ہاں معاملات دوٹوک اور واضح ہوتے اور ان میں کسی مغالطے یا غیر یقینی پن کا شائبہ نہ ہوتا۔ جب ملالہ کو ایک طالبان جنگجو نے گولی کا نشانہ بنایا تو پاکستا ن بھر میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی ۔ا شتعال اتنا شدید تھا کہ عوامی رائے طالبان کے خلاف کسی فیصلہ کن کارروائی کے حق میں ہو چلی تھی، تاہم یہ اُس وقت کی بات تھی۔ سولہ سالہ ملالہ نے اقوام ِ متحدہ میںاپنے خطاب کے دوران جس اعتماد اور فصاحت کا مظاہرہ کیا، اُس کی اس نوخیز عمری میں توقع نہیں کی جا سکتی ۔ اس نے وہاں موجود سامعین کو حیرت زدہ کر دیا، جبکہ دنیا بھر میں اس کی پذیرائی ہوئی، تاہم پاکستان میں سکوت ِ مرگ طاری رہا۔ اس پر کسی نے نہ تو کوئی ستائشی جملہ کہا، نہ کسی خوشی کا اظہار کیا ، صرف خاموشی ہی واحد رد ِ عمل تھا جو سامنے آیایہ حال ہے۔
ایسا کیوں ہوا ہے؟یہ وہی ملک ہے، وہی لوگ ہیں،ملالہ وہی خوبصورت لڑکی ہے تو پھر اب یہ تبدیلی کیسی ؟ ذرا گزشتہ سال ، جب ملالہ کو نشانہ بنایا گیا، کے اخبارات نکال کر دیکھیں تو واضح طور پر شدید غصے کے جذبات موجزن دکھائی دیں گے ، لیکن آج کے اخبارات مکمل تبدیلی کی غمازی کرتے ہیں۔ آج اس حوالے سے جذبات میں اشتعال تو کیا ارتعاش بھی ہویدا نہیںہے۔ کیا یہ وہی دھرتی؟ کیا آج پاکستانی زیادہ بے حس ہو گئے ہیں؟کیا آج ملالہ ، جس پر سوات کے طالبان نے حملہ کیا تھا، اپنی علامتی اہمیت کھو چکی ہے؟
نہیں، ملالہ ویسی ہی ہے، جیسی تھی، بلکہ اب اُس کی شخصیت میں کچھ اور نکھار آگیا ہے، اور پاکستانی بھی ویسے ہی ہیں، جیسے تھے، تاہم اب اس واقعے سے ابھرنے والا پیغام بدل گیا ہے۔ جب وہ حملے کے بعد زندگی موت کی کشمکش کا شکا رتھی تو وہ حوصلے اور جذبے کی علامت تھی اور کچھ روایتی مذہبی حلقوں کو چھوڑ کر، عام پاکستانی اُس کے ہم قدم تھے۔ اُن کوناز تھا کہ اس انتہاپسندی، تنگ نظری اور عدم برداشت کی گھٹن زدہ فضا میں امید اور روشن مستقبل کی جھلک دکھانے والی روشنی کی کرن بھی جگمگا رہی ہے اور”ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی“؟
تاہم اب اقوام ِ متحدہ سے آنے والا پیغام کچھ دھندلا گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو سابقہ برطانو ی وزیر ِ اعظم گورڈن براﺅن ہیں جو اقوام متحدہ کے ”عالمی سفیر برائے تعلیم “ مقرر کئے گئے ہیں۔ وہ اوراُن کے پیش روٹونی بلیئر اپنے ملک کو عراق کی جنگ ، جس میں بیس لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے، ملک تباہ و برباد ہو گیا ،جبکہ لاکھوں افراد ہلاک ہوئے....(ہلاک ہونے والوں کی صحیح تعداد ابھی سامنے آنا باقی ہے)میں جھونکنے کے ذمہ دار تھے۔ اس جنگ میں ہونے والی بربادی اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے انسانی المیے کے علاوہ اس نے عراق، جو ایک سیکولر ملک تھا، کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تشدد اور خونریزی کا کھولتا ہوا آتش فشاں بنادیا۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہ صاحب، جن کو اب اہل ِ برطانیہ بھی خاطر میں نہیں لاتے ، ملالہ کے پیغام کو آگے بڑھانے میں پیش پیش ہیں۔ گورڈن براﺅن، ٹونی بلیئر اور ڈک چینی نے اس قدر دروغ گوئی سے کام لیا کہ اب اگر وہ جنت کے ٹکٹ بانٹنے والے واحد افراد ہوں، تو بھی لوگ اُن کو شک کی نظر سے ہی دیکھیں گے۔
جب نوعمر ملالہ کو گولی کا نشانہ بنایا گیا تو اُس کے پاس کہنے کے لئے زیادہ الفاظ نہیں تھے، بلکہ اُسے الفاظ کی ضرورت بھی نہیں تھی، کیونکہ وہ خود ایک سراپا پیغام تھی۔ اس کی بہادری نے پاکستان کے علاوہ پوری دنیا کو سحر زدہ کر دیا تھا، لیکن اُس کا یواین میں خطاب سچائی کا صرف ایک پہلو لئے ہوئے تھا۔ملالہ نے کہا” دہشت گردوںنے ہزاروں افراد کو ہلاک اور لاکھوںکو زخمی کر دیا ہے“....کون ہیں یہ دہشت گرد؟اگر ہم امریکہ اور اُس کے حامیوں کی دہشت گردی کی تعریف پر یقین کرلیں تو صرف القاعدہ اور طالبان ہی دہشت گرد ہیں اور دہشت گردی کا آغاز گیارہ ستمبر سے ہوا ہے۔ ٹھیک ہے، لیکن عراق میں ڈھائی جانے والی قیامت اور روا رکھا جانے والے ظلم و تشدد کا ذمہ دار کون ہے؟اور پھر 9/11 حملوں کا عراق جنگ سے کیا تعلق تھا؟
تاہم دہشت گردی کے صرف ایک پہلوکو اجاگر کرنے پر ہم ملالہ کو مورد ِ الزام نہیں ٹھہراسکتے، کیونکہ وہ دہشت گردی اور اس کی مختلف جہتوں پر کوئی مقالہ تحریر نہیں کررہی تھی۔ یہ کام دوسروںکے کرنے کا ہے۔بہرحال اقوام ِ متحدہ میں اُس کے خطاب کے سیاق وسباق نے ایک واضح سیاسی پیغام ضروردیاہے کہ یہ کچھ افراد کا گروہ ہے جو دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں اور انہوںنے دنیا میں تشدد کی آگ بھڑکا رکھی ہے ، جبکہ ہم گورڈن براﺅن اور اس کی افواج روشنی اور اچھائیوں کے فروغ اور خواتین کی تعلیم اور ان کے لئے معاشرے میں یکساں مواقع پیدا کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ گویا تہذیب کے مشعل بردار ہم ہی ہیں۔ اب یہاںمسئلہ ملالہ نہیں،بلکہ وہ پیغام ہے جو عراق اور افغانستان پر قبضے کے پس ِ منظر میں مسخ شدہ حقائق کو پیش کرتا ہے۔
بن لادن اور القاعدہ پر بہت سا مواد،جس میں مغربی مصنفین کا تحریر کردہ مواد بھی شامل ہے، دستیاب ہے۔ بہت سی کتابیں صدر بش، وائٹ ہاﺅس ، ڈک چینی اور رمزفیلڈ کے مشکوک کردار کا جائزہ لیتی ہیں۔ حقائق و واقعات اور نظریات پر نظر ڈالنے پر حقیقت سامنے آتی ہے کہ القاعدہ والے گمراہ اور انتہاپسند ہیں اور وہ دنیا کو صرف اپنے مخصوص نظریات کی روشنی میں ہی دیکھتے ہیں، تاہم وہ جرائم پیشہ افراد نہیں ہیں۔ دوسری طرف صدر بش اور ان کی انتظامیہ کے اہم افسران نے جس طرح دروغ گوئی سے کام لے کر نہ صرف دنیا، بلکہ اپنے اداروںکو بھی دھوکے میں رکھا، اسے مجرمانہ رویے کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے؟اُس وقت سی آئی اے تک اُن سے ضبط سے کام لینے کا کہہ رہی تھی ، لیکن جنگی جنون اُن کے ذہن پر اس طرح سوار تھا کہ وہ کسی وارننگ کی پروا کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ یہی حال برطانیہ میں بھی تھا، جہاں ٹونی بلیئر اور گورڈن براﺅن خاص طور پر ٹونی بلئیرنے خودساختہ نیم سچائی کے پردے میں جھوٹ کو لپیٹ کر اپنے اہل ِ وطن کی آنکھوں میں دھول جھونکی اور اس جنگ کے لئے حمایت حاصل کی۔ جب اس کے مضمرات سامنے آنا شروع ہوئے تو اُنہوںنے اپنے سیاہ نامے پر پردہ ڈال کر تاریخ کی عدالت میں اس تباہی کی ذمہ داری سے بچنے کے لئے مزید جھوٹ کا سہارا لیا۔
اپنے منصب سے ہٹنے کے بعد گورڈن براﺅن منظر ِ عام سے غائب تھے، ان پر کوئی بھی توجہ نہیں دے رہا تھا، تاہم اب اُنہوں نے ملالہ کی اتنی مدد نہیں کی، جتنی ملالہ نے ان مدد کی ہے کہ وہ تقریباً گمنامی کے پردے سے نکل کر ایک مرتبہ پھر عالمی افق پر اپنی افادیت ثابت کر سکیں۔ اقوام ِ متحدہ کا خطاب تو ایک آغاز ہے، کیونکہ ابھی تو ملالہ پر ایک کتاب بھی لکھی جانی ہے اور ہالی ووڈ نے اس پر ایک دستاویزی فلم بھی بنانی ہے۔ اس لئے میرا اندازہ ہے کہ ابھی مسٹر براﺅن سے مفر ممکن نہیں ہوگا۔ ملالہ نے کہا”مَیں نے اپنی آواز اس لئے بلند نہیں کی کہ مَیں اپنے آپ کو نمایاں کرسکوں،بلکہ مَیں اُن کی آواز بننا چاہتی تھی، جن کی کوئی نہیں سنتا“....بالکل ٹھیک، لیکن عراق کے قصبے فلوجہ میں امریکی فوج نے تباہی پھیلانے کے لئے نیم افزودہ یورنیم (depleted uranium) کے بم استعمال کئے۔ اگر دہشت گردی کی اس جنگ میں امریکی کردار کا جائزہ لیا جا سکے تو نازی جرمنی کے آفیسرز کے جنگ ِ عظیم دوم کے مظالم بچوں کی کہانیاں معلوم ہوں،تاہم جیسا کہ طالبان کے مظالم کو آشکار کرنے کے لئے ملالہ کو عالمی افق پر اجاگر کیا گیا ہے، اس بات کے امکانات معدوم، بلکہ نہ ہونے کے برابر، ہیں کہ فلوجہ پر ہونے والی بمباری یا پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہونے والے ڈرون حملوں کے نتیجے میں زخمی ہونے والے کسی بچے کو اقوام ِ متحدہ یا کسی اور عالمی فورم پر سنا جائے گا۔ یقینا فاتحین جنگ سے مالی فائدہ ہی نہیں اٹھاتے ، بلکہ تاریخ بھی اُن کی مرضی سے ہی رقم ہوتی ہے۔
طالبان کے حوالے سے ایک بات توبرملا کہی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے سب سے بڑے دشمن خود ہی ہیں۔ عدنان رشید ، جس نے پرویز مشرف پر حملہ کیا اور جوپی اے ایف کا سابقہ ملازم ہے، کو آزاد کرانے کے لئے طالبان نے بنوں جیل پر حملہ کیا۔ اُس نے میڈیا کے توسط سے ملالہ کے نام جو خط لکھا ہے، اسے پڑھ کر اندازہ ہوتاہے کہ وہ اور اس کے ساتھی ابھی کس التباساتی دنیا میں رہ رہے ہیں۔اُس نے ملالہ پر الزام لگایا ہے کہ وہ اُس نظام ِ تعلیم کے فروغ کے لئے کوشاں ہے جو یہاں نوآبادیاتی دور میں انگریزوں نے متعارف کرایا تھااور جس کا مقصد بقول اُن کے یہ تھاکہ ان کو ”وضع قطع میں ایشیائی اور سوچ کے اعتبار سے انگریز“ بنا دیا جائے۔ وہ ملالہ کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ مدرسے کی تعلیم کی طرف لوٹ آئے۔ عدنان رشید شاید طالبان کا افلاطون ہوگا۔ اب حقیقت یہ ہے کہ طالبان ایک حقیقت ہیں اور وہ کہیں نہیں جارہے ہیں۔ اُنہوںنے اور ان کے پیش رومجاہدین نے ایک سپرطاقت، سوویت یونین، کو شکست سے دوچار کیا، جبکہ دوسری بھی گھٹنے ٹیکنے کے قریب ہے۔ اس لئے خاطر جمع رکھیں، امریکی ہماری مدد کو نہیں آئیں گے ، کیونکہ وہ تو خود یہاںسے بھاگ رہے ہیں۔ اب ہم جانیں اور طالبان جانیں!
ہمارے مسائل کے دو پہلوہیں: (1) ہم نے اپنا گھر درست کرنا ہے تاکہ پاکستان رہنے کے لئے ایک نسبتاً بہتر جگہ بن جائے۔ (2) ہم نے کوشش کرنی ہے کہ طالبان کچھ وسعت نظر ی اپناتے ہوئے اپنے دقیانوسی اوربے بنیاد نظریات سے کسی قدر دست کش ہو جائیں.... لیکن قبل اس کے کہ ہم طالبان کا ذہن بدلنے کی کوشش کریں، ہم نے اپنی سوچ میں بھی وسعت پیدا کرنی ہے۔ اگر ممتاز قاردی جیسے افراد کی عزت افزائی ہی وسعت ِ قلبی ہے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ ہمارے مسائل کم ہونے والے نہیں۔ہمیں ایک اور بات کی بھی تفہیم کرنی ہے کہ طالبان صرف نیکیوں کی ترویج ، برائیوں کے خاتمے اور خواتین کی تعلیم یا ان کے معاشرے میں کردار کے خلاف ہی نہیں، بلکہ وہ دراصل وہ جنگجو ہیں جن کو امریکی حماقت، افغانستان کے جغرافیائی خدوخال اور ان کی اپنی ہٹ دھرم طبیعت نے ٹکسال کیا ہے، اس لئے جب امریکی یہاںسے چلے جائیں گے تو ہم نے باقی زندگی انہی جنگ آزما مجاہدوںکے ساتھ گزارنی ہے۔
پس ِ تحریر: چین کے تجارتی شہر Guangzhou کا دورہ کرتے ہوئے وزیر ِ اعظم نواز شریف نے جنوبی چین کے گرڈ کے صدر زاﺅ جیانگو (Zhao Jianguo) سے بجلی کی چور ی اور لائن میںہونے والے نقصانات کے تدارک کے لئے مشورہ چاہا تو مسٹر جیانگو نے جواب دیا” اس کے لئے کڑی نگرانی، عمدہ انتظام کے ساتھ ساتھ سخت قوانین اور ان کے نفاذ کی ضرورت ہے“....یقینا یہ عمدہ تعلیم ہے اور اسے سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ چینی ہمیں ایسے ہی قیمتی مشوروںسے نوازیں گے۔
مصنف، معروف کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔
نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔ ٭