پاک فوج سے محبت۔۔۔ آرمی چیف نوٹس لیں!

18 اور 19 جولائی کی درمیانی رات، دس بج کر بارہ منٹ پر میرے دفتری موبائل نمبر پر کال آئی، دوسری طرف سے گفتگو کرنے والے نے، حکومت کے ایک نہات حساس ادارے سے اپنا تعلق بتایا اور خود کو ضلع سیالکوٹ کا انچارج قرار دیا۔
یہ ادارہ وہ ہے جس سے ہر محب وطن پاکستانی نہ صرف اشد محبت بلکہ ناز بھی کرتا ہے جس کے لئے اپنوں کے دلوں میں محبت و عقیدت اور غیروں کے دل میں خوف اور نفرت ہے، ملک و قوم کے تحفظ اور سلامتی کے لئے اس ادارے کی گراں قدر خدمات ہیں جن پر ہر پاکستانی فخر کرتا ہے، اسی وجہ سے میں نے اس فون کرنے والے کی بات کو غور اور توجہ سے سننا شروع کردیا، اس کے تعارف پر میں نے عرض کیا:
’’جی فرمائیے!‘‘
وہ دھیمے لہجے میں قریباً سات منٹ اور انچاس سیکنڈ تک بات کرتے رہے، اُن کی بات کا لب لباب تھا کہ،
’’پسرور میں ہم نے جو مسلم لیگ(ن) کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے یہ صحیح نہیں، اس کو تبدیل کر لیں‘‘
وہ مجھے اچھے انداز میں کہہ رہے تھے
’’آپ پڑھے لکھے ہیں، یہ فیصلہ آپ کے لئے اچھا نہیں۔۔۔ آپ کسی بھی دوسری پارٹی کے حق میں فیصلہ کرلیں، مسلم لیگ (ن) کے حق میں نہیں‘‘
ان کا فرمانا تھا، ’’آپ نے مجلسِ عمل کے امیدوار ہی کے ساتھ رہنا تھا، مسلم لیگ (ن) کا اعلان کیوں کیا؟‘‘
میں نے ان کو تفصیل سے اپنی حمایت کی وجہ بیان کی اور بتایا کہ
’’ہم مجلسِ عمل کے امیدوار ہی کے حامی تھے، مگر وہ انتخابی مہم اور عوام میں دکھائی نہیں دے رہے، جبکہ ہمارا اس حلقے میں ایک بھرم ہے، نیز پالیسی یہ ہے کہ جہاں مجلس عمل کا امیدوار مضبوط ہے اس کو مزید مضبوط کیا جائے، ورنہ ووٹ ضائع کرنے کی بجائے، مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی حمایت کردی جائے‘‘
اس بات کو تسلیم کیا ’’واقعی مجلس عمل کا امیدوار کہیں دکھائی نہیں دے رہا‘‘ پھر بھی کہنے لگے ’’لیکن آپ اپنے فیصلے کو بدلیں، کسی اور کی حمایت کردیں، یہی آپ کے لئے بہتر ہے، آپ پڑھے لکھے ہیں ملکی حالات کو سمجھیں‘‘ میں نے عرض کیا:
’’اب تو فیصلہ کرچکے ہیں، روز روز تو فیصلے تبدیل نہیں ہوا کرتے۔‘‘
کہنے لگے ’’آپ پسرور آئیں گے تو ملاقات کرکے بات کریں گے‘‘
اس گفتگو کے اختتام پر دیکھا تو UNKNOWN NUMBER لکھا نظر آیا،
میں اپنے دل کی گہرائیوں سے محبت کرنے والے اس عظیم ملکی ادارے کے بارے میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ کبھی اس طرح کا کوئی اقدام نہیں کرسکتا کہ جس سے عوام کے دلوں میں اس کی عقیدت، احترام اور محبت میں کمی آئے۔
بین الاقوامی سطح پر اپنی کارکردگی کے اثرات مرتب کرنے والے، اس نہایت حساس ادارے کے ذمہ داران خوب جانتے ہوں گے کہ خوف، ہی کسی کے ساتھ نفرت کی ابتداء ہوتا ہے۔ پھر وہ اپنے محبت کرنے والوں کو کس طرح خوف زدہ کرسکتے ہیں؟
میں سمجھتا ہوں کہ ’’رات، مجھے فون کرنے والا فرد اس عظیم ادارے کا ہو ہی نہیں سکتا، اور اگر واقعی اس ادارے کا ہے تو پھر یہ ساری گفتگو اس کی ذاتی سوچ کی غماضی کرتی ہے، اس ایک فرد کی وجہ سے اس عظیم ادارے کی ’’نیک نامی‘‘ اور ’’اچھی شہرت‘‘ پر حرف آئے گا۔ اس لئے اس ادارے کے ذمہ داران اور پاک فوج کے ارباب اختیارات، خصوصاً چیف آف آرمی سٹاف کو اس کا نوٹس لینا چاہئے کہ نچلی سطح کے (سویلین) ملازمین، کس طرح اپنے لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کررہے ہیں، اور غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں؟
میں 1985ء سے کسی نہ کسی انداز میں قومی انتخابات میں حصہ لے رہا ہوں، مقامی سطح سے ملکی سطح تک متحرک رہتا ہوں، بطور صحافی بھی حالات پر نظر رہتی ہے، کبھی اس طرح کا تجربہ نہیں ہوا جس طرح گزشتہ رات ہوا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی ادارے کے ملازمین و متعلقین، ہمارے ہی معاشرے کا حصہ ہیں، وہ بھی اپنے معاشرتی شور و شغف سے متاثر ہوتے ہیں، ان کی ذاتی پسند نا پسند بھی، انتخابی مہم سے متاثر ہوتی ہے، لازماً وہ کسی نہ کسی پارٹی کی کامیابی یا نا کامی کی خواہش ضرور رکھتے ہوں گے، مگر پاک فوج اور حساس ادارے تو ہم سب کے سانجھے اور ہر حال میں قابلِ احترام ہیں، ان سے وابستہ افراد تو کوئی ایسا قدم اٹھا ہی نہیں سکتے جس سے یہ عوام کے کسی بھی طبقے کے ہاں متنازع قرار پائے۔
میں تو حیران ہوں کہ مجھے فون کرنے والا، شاید میرے بارے میں بخوبی نہیں جانتا کہ میں ایک صحافی، کالم نگار اور ملکی سطح کاعہدیدار ہوں اور سیاسی و معاشرتی حالات پر نظر رکھتا ہوں، پاک فوج اور اس کے اس عظیم ادارے سے گہری عقیدت رکھتا اور اس کے دشمنوں کے بارے میں خوب لکھ چکا ہوں اور مسلسل لکھتا رہتا ہوں، وہ دوستانہ انداز میں مجھ کو سمجھاتے، قائل کرتے تو اور بات تھی، مگر اس طرح اعلان کردہ فیصلے کو تبدیل کرانے کی پر زور کوشش تو کسی طور پر صحیح نہیں!
اگرچہ بات کرنے والے کا لہجہ دھیما اور انداز نا صحانہ تھا، مگر غرض اور مقصد سے مجھے بہرحال اختلاف ہے اور اس کو میں اپنے انسانی و جمہوری حقوق کے منافی سمجھتا ہوں، نیز اس طرح کسی کو ’’ترغیت و ترہیب‘‘ سے کسی جگہ سے ہٹانا یا کسی طرف دھکیلنا، واضح طور پر آمرانہ سوچ اور جبر کا حربہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے اور کچھ نہیں، اس طرح کے حربے، پاک فوج کی نیک نامی کے خلاف، ایک بہت بڑی سازش ہیں، ان سے پاک فوج کے بارے میں عوامی طبقات میں شکوک و شبہات پھیلنے اور پاک فوج کی عقیدت میں کمی پیدا ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔
میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی، جیسا مؤثر اور ان کی طرح بلند آہنگ نہیں رکھتا، مگر ایک صحافی اور مبلغ ہونے کی حیثیت سے، اپنے کچھ اثرات ضرور رکھتا ہوں۔
میں بھی، عقیدت و احترام کے با وصف، جناب آرمی چیف اور دیگر ذمہ داران سے درخواست کرتا ہوں کہ ’’وہ نوٹس لیں۔۔۔!‘‘
انتخابات میں چند دن رہ گئے ہیں، لوگوں کے ذہن بن چکے ہیں کہ کس کو ووٹ دینا ہے، عوام کو ووٹ دینے دیں، (بہت ضرورت ہو تو کوئی اور راہ نکال لیں) براہِ راست عوام کو ڈرانے دھمکانے اور ملکی اداروں پر حرف لانے کا سامان کرنے والوں کو روکیں، اس سے دلوں میں موجود عقیدت پر حرف آ سکتا ہے!