شہدائے اسلام کے قائد نظامی بھائی!
مولانا مطیع الرحمن نظامی کی شہادت سے پورا عالم اسلام غم میں ڈوب گیا تھا۔ ان کو ایک جعلی ٹریبونل کے ذریعے انتہائی سفاکی کے ساتھ 10اور 11مئی 2016ء کی درمیانی رات ڈھاکہ کی سنٹرل جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ اس سے چند گھنٹے قبل ان کے اہلخانہ سے ان کی آخری ملاقات کرائی گئی۔ یہ عظیم انسان اپنی زندگی میں کامیاب اور سرخرو تھا۔
اپنے اخلاق و کردار سے انتہائی بلند و بالا اور اپنے معاملات میں دیانت و صداقت کا پتلا! اس عظیم مرد مومن نے اللہ کے راستے میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے بھی اپنے عظیم اسلاف اور تحریکوں کے نامور قائدین کی روایات کو زندہ رکھا۔
نہ وہ دبا، نہ جھکا، نہ گھبرایا اور نہ ہی ذرا برابر مایوسی کا شکار ہوا۔ 5مئی کو قاسم پور جیل میں شہید کے اہل خانہ کی معمول کی ملاقات رات کے وقت ہوئی۔ اپنی اہلیہ محترمہ شمس النہار نظامی اور خاندان کے دیگر افراد سے فرمایا۔
میری شہادت مجھے نظر آرہی ہے اور یہ اللہ کی طرف سے بہت بڑا اعزاز ہے، جو وہ اپنے کسی بندے کو عطا فرماتا ہے۔ میری شہادت پر کسی کو رونے دھونے کی ضرورت نہیں۔ میں سب کو صبر کی تلقین کرتا ہوں۔
پھر قرآن سے آیت پڑھ کر فرمایا ’’واصبروا ان اللّٰہ مع الصابرین‘‘ میرا دل بالکل مطمئن ہے، میں اپنے تمام چاہنے والوں کو یہ پیغام دیناچاہتا ہوں کہ وہ اپنی پرامن جدوجہد جاری رکھیں اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ میرے وطن عزیز بنگلہ دیش میں اللہ تعالیٰ اسلامی نظام کے لئے فضا ہموار فرما دے۔
بنا کر دند خوش رسمے بخاک و خوں غلطیدن
خدا رحمت کنند ایں عاشقانِ پاک طینت را
مطیع الرحمن نظامی ضلع پبنا کے ایک گاؤں مون موتھپور میں ایک معزز بنگالی گھرانے میں 31؍مارچ 1943ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد لطف الرحمن خان ایک کاشتکار اور صاحبِ علم آدمی تھے۔
مطیع الرحمن نظامی صاحب نے ابتدائی تعلیم دینی مدرسے میں حاصل کی۔ مشرقی پاکستان میں اس زمانے میں دینی مدارس کے اندر عصری مضامین بھی پڑھائے جاتے تھے۔
انھوں نے سانتھیا میں بوالماری مدرسہ اسلامیہ سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا اور 1955ء تا 1961ء چھ سال تک یہاں پڑھتے رہے۔ سانتھیا ان کی تحصیل میں ایک بڑا قصبہ تھا۔ ان کے اساتذہ میں اکثر علما دیوبند کے فارغ التحصیل تھے۔ یہاں سے ابتدائی سند لینے کے بعد ڈھاکہ منتقل ہوگئے اور ڈھاکہ کی مشہور جامع العلوم عالیہ سے 1963ء میں کامل کی سند حاصل کی۔
یہ سند ایم اے کے برابر سمجھی جاتی تھی۔ اپنی دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ نظامی صاحب نے سکول اور کالج کی تعلیم بھی پرائیویٹ طور پر جاری رکھی۔ 1962ء میں میٹرک اور 1964ء میں ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد ڈھاکہ یونیورسٹی میں ریگولر طالب علم کے طور پر تین سال تک پڑھا۔ 1967ء میں اسی یونیورسٹی سے بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی۔
ابتدا میں وہ جمعیت طلبہ عربیہ (جو مشرقی پاکستان میں دینی مدارس میں اسلامی جمعیت طلبہ ہی کی برانچ سمجھی جاتی تھی) سے وابستہ رہے ۔ جب ڈھاکہ آئے تو پھر اسلامی جمعیت طلبہ کی تنظیم میں باقاعدہ شامل ہوئے۔
ڈھاکہ یونیورسٹی، ڈھاکہ سٹی اور پھر پورے مشرقی پاکستان کے ناظم منتخب ہوئے۔ وہ ایم اے کرنا چاہتے تھے، مگر اسی عرصے میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگی غنڈوں نے تعلیمی اداروں میں قتل و غارت گری شروع کی تو حالات بڑے نازک ہوگئے۔ اس دوران ڈھاکہ کے ناظم جمعیت اور مرکزی شوریٰ کے رکن عبدالمالک کو بڑی بے دردی سے شہید کر دیاگیا۔
حالات کی نزاکت کے پیش نظر نظامی صاحب جمعیت کی ذمہ داریوں میں اتنے مشغول ہوگئے کہ وہ ماسٹر کی ڈگری حاصل نہ کرسکے۔ بہرحال ان کا مطالعہ اتنا وسیع تھا اور دینی علوم میں ان کا پس منظر اتنا گہرا تھا کہ وہ ماسٹر ڈگری ہولڈر سے زیادہ علمی معلومات رکھتے تھے۔
جمعیت کے مرکزی نظم میں مطیع الرحمن نظامی صاحب پہلی بار 1964ء میں ڈھاکہ سے مرکزی شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔ اسی سال سید منور حسن صاحب جمعیت کے ناظم اعلیٰ (27دسمبر1964ء) منتخب ہوئے۔ پھر وہ حلقہ مشرقی پاکستان سے مسلسل شوریٰ کے رکن منتخب ہوتے رہے۔
1967ء میں وہ شوریٰ کے تین غیر علاقائی (یعنی کل پاکستان) بنیاد پر منتخب ہونے والے ارکان میں پہلے نمبر پر تھے۔ 9نومبر 1969ء کو جناب مطیع الرحمن نظامی اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ وہ متحدہ پاکستان کے آخری، مشرقی پاکستان سے منتخب ہونے والے پہلے اور آخری ناظم اعلیٰ تھے، کیونکہ ان کی نظامت اعلیٰ کے دوران مشرقی پاکستان الگ ہوگیا۔ ان کے بعد بچے کھچے پاکستان میں جمعیت کے ناظم اعلیٰ تسنیم عالم منظر منتخب ہوئے۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ مکتی باہنی اور انڈین فوجیوں نے جب مشرقی پاکستان پر حملہ کیا تو ہر محب وطن پاکستانی نے اپنے وطن کے دفاع کے لئے کوشش کی۔ یہ نہ کوئی جرم تھا اور نہ زیادتی۔ جرم اور زیادتی تو بھارت کی جارحانہ فوج اور ان کے ایجنٹ عوامی لیگی مکتی باہنی کے مسلح دستے کر رہے تھے۔ بہرحال پاکستانی فوجیوں کو ہتھیار ڈالنا پڑے اور نوے ہزار کے لگ بھگ فوجی اور دیگر پاکستانی افراد انڈیا کی قید میں چلے گئے۔
سقوطِ ڈھاکہ بہت بڑا المیہ تھا۔ عوامی لیگ کے برسر اقتدار آجانے کے بعد بنگلہ دیش میں پاکستان کا دفاع کرنے والوں کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ ظلم کا یہ بازار گرم تھا کہ 1974ء میں دہلی میں پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈیا کے درمیان ایک سہ فریقی معاہدہ طے پایا۔
اس معاہدے کے مطابق تینوں ملکوں نے عہد کیا کہ ماضی کے کسی واقعہ کو بنیاد بنا کر تینوں ممالک میں کہیں بھی کسی شخص پر کوئی کیس نہیں چلایا جائے گا۔ اس معاہدے پر پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، بنگلہ دیش کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن اور انڈیا کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے دستخط کیے۔
اس لحاظ سے 2010ء میں شروع کیے جانے والے عوامی لیگی حکومت کے انتقامی ہتھکنڈے ریاستی دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں۔ پاکستان معاہدے کا فریق ہونے کے باوجود اپنا فرض ادا نہ کرسکا۔ محض اظہار افسوس تک معاملہ محدود رہا۔ اگر اس معاہدے کی بنیاد پر معاملہ عالمی عدالت میں لے جایا جاتا تو یہ صورت حال نہ ہوتی کہ انتہائی قیمتی اور بے گناہ لوگ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ مطیع الرحمن نظامی کی شہادت اپنی جگہ ایک بہت بڑا المیہ اور ہر مخلص بندۂ مومن کے لئے انتہائی صدمے کا باعث تھا۔
مگر اس عظیم شخص کی عظمت کو سلام جس نے حکومت کی طرف سے اس پیش کش پر کہ وہ صدر سے رحم کی اپیل کرسکتے ہیں، بڑی استقامت کے ساتھ فرمایا کہ میں اللہ کے سوا کسی سے رحم کی بھیک نہیں مانگتا، اگر اللہ نے میری شہادت قبول فرمالی تو اس سے بڑی سعادت کوئی نہیں ہوسکتی۔
جس ڈھب سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں
یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہناہارے بھی تو بازی مات نہیں
قاسم پور جیل سے 7مئی کو انتہائی سخت سیکورٹی کے ساتھ نظامی صاحب کو ڈھاکہ کی سینٹرل جیل میں منتقل کیا گیا۔ جیل کی طرف جانے والے تمام راستے مکمل طور پر بند تھے۔10مئی کی شام ایک مجسٹریٹ نظامی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ آپ صدر سے رحم کی درخواست کرناچاہیں تو آپ کے لئے اس کا موقع ہے۔
انھوں نے اس کے جواب میں فرمایا کہ میں اللہ ہی سے رحم کا طلب گار ہوں۔ میں کسی مخلوق کے سامنے نہ کبھی جھکا اور نہ اس کا تصور کرسکتا ہوں۔ یہ جواب سن کر مجسٹریٹ چلا گیا۔
اگلی رات تقریباً آٹھ، نو بجے کے درمیان ان سے اہل خاندان کی آخری ملاقات کروائی گئی۔ اس موقع پر بھی نظامی صاحب بالکل مطمئن اور بڑھاپے اور بیماری کے باوجود نہایت پرعزم تھے۔ رات مقامی وقت کے مطابق ساڑھے گیارہ اور بارہ بجے کے درمیان نظامی صاحب کو تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا۔
اے دستِ جفا! سر ہیں یہ ارباب وفا کے
کٹ جائیں تو کٹ جائیں جُھکائے نہیں جاتے
11مئی کو شہید کا جسد خاکی ان کے گاؤں میں صبح فجر کے وقت سرکاری کارندوں نے ان کے خاندان کے سپرد کیا۔ حکومت کی خواہش یہ تھی کہ جلد از جلد جنازہ ہوجائے تاکہ اس میں لوگوں کی بڑی تعداد شریک نہ ہوسکے۔
بہرحال شہید کے بیٹے بیرسٹر خالد نظیف الرحمن نے اپنے باپ کی میت وصول کرنے کے بعد اعلان کیا جنازہ ساڑھے سات بجے ہوگا۔ شہید کے جنازے میں ہزاروں لوگ اُمڈ آئے۔ نہایت رقت آمیز مناظر کے ساتھ سوشل میڈیا پر جنازے کے مناظر دکھائے گئے۔
ذرائع ابلاغ کو جنازے کی تفصیلات تشہیر کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ شہید کے دو بیٹے بیرون ملک ہیں۔ ایک امریکہ میں اور ایک ملائیشیا میں۔ وہ جنازے میں نہیں پہنچ سکے تھے۔