کرب میں گزری عید

اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ عید پُر امن اور احسن طریقہ سے گزر گئی۔ دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا اور باقی معاملات بھی ٹھیک رہے۔ عید قربان پر ایک بڑا معاملہ قربان کیے گئے جانوروں کی آلائشوں کو ہٹانا اور ٹھکانے لگانا ہوتا ہے۔ یہ کام کم از کم لاہور میں تو ٹھیک انداز میں انجام پایا۔ کہیں کہیں سے شکایت آئی کہ جانوروں کی انتڑیاں وغیرہ پڑی رہیں جن کی وجہ سے ان سے تعفن اٹھنا شروع ہو گیا تھا‘ لیکن مجموعی طور پر صورتحال قابو میں رہی،اس پر لاہور کی انتظامیہ کو ایک شاباش بنتی ہے، جو کاوش کی گئی وہ اس امر کا ثبوت ہے کہ اگر دیانتداری سے فرائض سرانجام دیے جائیں تو صورت حال کو ہر لحاظ سے اطمینان بخش بنانا ناممکن نہیں ہے۔ یہ سارا اطمینان اور یہ سارا امن اپنی جگہ‘ لیکن میں اگر یہ کہوں کہ میری عید نہایت کرب اور تکلیف میں گزری ہے تو آپ شاید اس کا اعتبار نہ کریں‘ لیکن یہ حقیقت ہے کہ میری عید آسانی سے نہیں گزری‘ میں انتہائی پریشانی کے عالم میں رہا‘ اور اب بھی ہوں اور وجہ اس کی عید سے چند روز پہلے رونما ہونے والا ایک بہیمانہ واقعہ ہے‘ جو آپ نے بھی پڑھا اور سنا ہو گا کہ سانگھڑ کے علاقے منڈھ جمڑاؤ میں بااثر وڈیرے کی زرعی زمین میں اونٹ داخل ہوا تو وڈیرے کو غصہ آ گیا اور اس نے ملازمین کے ہمراہ اونٹ کو پکڑ کر پہلے تشدد کا نشانہ بنایا‘ پھر بھی غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تو تیز دھار آلے سے اونٹ کی ٹانگ کاٹ دی جس کے باعث اونٹ زخمی ہو گیا، اونٹ کا مالک سومر بیھن اونٹ کی کٹی ہوئی ٹانگ لے کر پریس کلب سانگھڑ پہنچ گیا‘ جہاں احتجاج کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ظالم‘ بااثر وڈیرے نے اس کی زمین میں سے گزرنے پر بے زبان اونٹ کی ٹانگ کاٹ دی ہے۔ مالک کے احتجاج کے بعد معاملہ میڈیا پر اٹھا تو سانگھڑ پولیس نے میڈیا کا پریشر ختم کرنے کے لیے بااثر وڈیرے پر مقدمہ درج کرنے کے بجائے نامعلوم افراد کے خلاف سرکاری مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اس واقعہ کا نوٹس لے کر متعلقہ پولیس افسروں سے رپورٹ طلب کی تھی۔ پولیس نے ایکشن لیتے ہوئے ملوث 5 ملزمان کو گرفتار کر لیا۔ دوسری جانب گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے بھی سانگھڑ میں مبینہ بااثر وڈیرے کی حرکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اونٹ کی ٹانگ کاٹ دینا انسانیت نہیں، ایسا کر کے غریب سے اس کی روزی چھینی گئی۔ پولیس کی جانب سے اونٹ کی ٹانگ کاٹنے والے ملزموں کے خلاف کارروائی کے دو روز بعد سوشل میڈیا پر خبریں گردش کرنا شروع ہو گئیں کہ بااثر افراد نے اونٹ کے مالک سومر بیھن کو بھی قتل کر دیا ہے جس پر سندھ پولیس کی دوڑیں لگ گئیں۔
جانوروں کے ساتھ ایسا سلوک قدیم زمانے میں کیا جاتا تھا جب لوگ زندہ جانور کا اپنی مرضی کے مطابق حصہ کاٹ کر استعمال میں لاتے تھے اور زندہ جانور زخموں کی تکلیف سے تڑپتا رہتا تھا یا بعض اوقات خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے مر جاتا تھا، لیکن وہ قدیم زمانے کے لوگ تو غیر مہذب تھے اور انہیں رحم دلی کا کچھ پتہ نہیں تھا، حیرت اس پر ہوتی ہے کہ آج کے جدید دور کا انسان جو خود کو مہذب کہلاتا ہے‘ ان قدیم زمانے کے وحشیوں سے بھی گیا گزرا ہے۔ مجھے دوسری حیرت اس بات پر ہوئی کہ اتنا بڑا سانحہ پیش آگیا لیکن جانوروں کے ساتھ بے رحمی کے سلوک کو روکنے والے اداروں‘ این جی اوز اور افراد میں سے کسی نے لب کشائی نہیں کی۔
مواصلات اور ٹرانسپورٹ کی جدید سہولیات میسر آنے کی وجہ سے اب جانوروں کا باربرداری کے لیے استعمال کم ہو گیا ہے‘ لیکن جہاں جہاں جانوروں کا اب بھی استعمال ہوتا ہے‘ وہاں دیکھا گیا ہے کہ ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کم ہی کیا جاتا ہے۔ ایک دفعہ سفر کے دوران کسی شہر میں انٹرٹینمنٹ کے لیے کچھ دیر کے لئے رکے، میں اور میرے ہم سفر ایک ریسٹورنٹ کے باہر اشیائے خوردونوش سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ اتنے میں ایک گدھا ریڑھی تیز پاس سے گزری، اس ریڑھی پر ایک بچہ کھڑا تھا اور اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ڈنڈے سے مسلسل گدھے کو پیٹ رہا تھا‘ حالانکہ گدھا اپنی پوری رفتار کے ساتھ دوڑ رہا تھا، پتہ نہیں اس صورتحال کو میرے ساتھیوں نے نوٹ کیا یا نہیں‘ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کے بعد کئی دن تک میں غمگین رہا کہ اس بچے کو کسی نے یہ سکھایا ہی نہیں کہ جانور کے ساتھ رحم دلی کا سلوک کیا جاتا ہے‘ اس کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آیا جاتا ہے‘ گدھا اگر اپنی پوری رفتار سے دوڑ رہا ہے تو اسے پیٹنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں یہ بھی سوچتا رہا کہ یہ جب بچہ جب بڑا ہو گا تو کتنا بے رحم ہو گا؟
میرا خیال تو یہ بھی ہے کہ جس وڈیرے نے اونٹ کی ٹانگ کاٹی اس کی تربیت بھی کچھ ایسے ہی ماحول میں ہو گی کہ اسے ٹانگ کاٹتے ہوئے جانور پر ذرا بھی رحم نہ آیا۔ معاملہ یہ ہے کہ ہمارے دلوں سے شاید اللہ تعالی‘ کا خوف مٹ چکا ہے، اسی لیے ہم بے ایمان ہیں اور ظالم بھی، ہم دوسرے انسانوں کے حقوق پامال کرتے ہوئے ذرا نہیں سوچتے تو جانوروں کے حقوق کے بارے میں کیسے سوچ سکتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے جہاں انسانوں کے حقوق مقرر کیے وہاں جانوروں کے حقوق کا تعین بھی کر دیا گیا۔ جانوروں کی اہمیت واضح کرنے کے لئے کیا یہ کافی نہیں کہ قرآن کریم میں متعدد جانوروں اور حیوانات کا تذکرہ موجود ہے، اتنا ہی نہیں، بلکہ کئی سورتیں جانوروں کے نام سے موسوم ہیں، جیسے سورۃ البقرہ (گائے) سورہ الانعام (چوپائے)‘ النحل (شہد کی مکھی)‘ النمل (چیونٹی)‘ العنکبوت (مکڑی)‘ الفیل (ہاتھی)۔ آپؐ نے جانوروں کے ساتھ احسان کا حکم دیا اور اس کو اجروثواب کاباعث بتلایا۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ بدکار عورت کی بخشش صرف اس وجہ سے کی گئی کہ ایک مرتبہ اس کا گزر ایک ایسے کنویں کے قریب سے ہوا جس کے قریب ایک کتا کھڑا پیاس کی شدت سے ہانپ رہا تھا، کنویں سے پانی نکالنے کے لیے کچھ موجود نہیں تھا، اس عورت نے اپنا چرمی موزہ نکال کر اپنی اوڑھنی سے باندھا اور پانی نکال کر اس کتے کو پلایا، اس عورت کا یہ فعل بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوا اور اس کی بخشش کر دی گئی۔ آپؐ نے جانور پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ ڈالنے‘ اس سے زیادہ مشقت کرانے اور اسے داغنے سے منع فرمایا اور حکم دیا کہ جانوروں کے کھانے پینے کا ٹھیک طرح سے دھیان رکھا جائے، اس کے باوجود سانگھڑ میں اونٹ کے ساتھ یہ سلوک سمجھ سے بالاتر ہے، اس دنیا میں اس ظالم وڈیرے کو سزا ملے نہ نہ ملے‘ آخرت میں اسے ضرور کڑی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔