نئی سولر پالیسی…… سورج پر ٹیکس نہ لگائیں

ایک ٹی وی چینل والے میرے پاس اپنی طرف سے میرا دکھ بانٹنے کے لئے آئے کہ میں نے جو اپنی بچت سے سولر لگوایا تھا، اب نئی پالیسی کے تحت اس کے تو دن گنے جا چکے، کئی لوگ تو سوشل میڈیا پر سولر کی فاتحہ تک پڑھ چکے ہیں۔ یہ پاکستان میں بیٹھے بٹھائے ہوتا کیا ہے۔ یہی وجہ تو ہے کہ ملک دو قدم آگے جاتا ہے تو چار قدم پیچھے آ جاتا ہے۔ کہاں پچھلے ایک دوبرسوں میں اتنا زور و شور کہ سولر لگواؤ، حکومت مفت سولر پلیٹیں دے گی۔ غریبوں کو بجلی مفت ملے گی۔ سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کرکے ملک کی معیشت بھی ٹھیک کریں گے۔ یہ کریں گے وہ کریں گے، لیکن اب جو کیا وہ یہ ہے کہ نیٹ میٹرنگ پر کلہاڑا چلا دیا ہے۔ صارفین سے یونٹ دس روپے کا لے کر انہیں ساٹھ روپے یا اوپر پر دینے کا اعلان کیا ہے، گویا سولر استعمال کرنے والوں کے لئے مرے کو مارے شاہ مدار جیسی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ میں نے ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے توانائی کے وزیر اور وزارت کے افسروں کو ایک مشورہ یہ بھی دیا کہ وہ عالمی سولر نمائشوں اور کانفرنسوں میں جایا کریں تاکہ انہیں علم ہو سکے اس شعبے میں کتنی ترقی اور جدت آ چکی ہے۔ سولر ایک ایسا جن ہے جو بوتل سے باہر آ چکا ہے۔ اب اس پر کوئی بھی پابندی کارگر نہیں ہوگی۔ کسی پالیسی ساز نے یہ نہیں سوچا کہ نیٹ میٹرنگ پر ٹیکس لگانے سے لوگ متبادل ذرائع استعمال کریں گے۔ ایسی ٹیکنالوجی آ چکی ہے جو سولر سے براہ راست بجلی کے ساتھ ساتھ اسے سٹور بھی کرتی ہے۔ اس صورت میں کیا ہوگا۔ اب بھی ایسے صارفین کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے جو نیٹ میٹرنگ کے بغیر شمسی توانائی سے بجلی حاصل کر رہے ہیں۔ وہ بیٹریاں لگا کے رات کے وقت چارج ہوئی بیٹریوں سے ضرورت پوری کرلیتے ہیں۔ خاص طور پر دکانداروں نے جن کا کام ہی رات دس بجے ختم ہو جاتا ہے، اس طریقے سے اپنا کاروبار چلا رہے ہیں۔ کوئی بل دیتے ہیں نہ کسی قسم کے ٹیکس کا خدشہ لاحق ہوتا ہے۔ اگر ایسے صارفین کی تعداد نیٹ میٹرنگ کی نئی پالیسی کے بعد بڑھ گئی تو جو تھوڑا بہت ریونیو حاصل ہوتا ہے اس سے بھی حکومت ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ پھر شاید اسے پتنگ بازوں کو روکنے کی طرح سولر پلیٹیں لگوانے والوں کی چھتوں پر چھاپے مارنا پڑیں، دنیا بھر میں اس اصول کو تسلیم کیا گیا ہے کہ ہوا اور روشنی پر کسی کا حق نہیں، حتیٰ کہ ریاست کا بھی نہیں۔ یہ قدرت کے عطیات ہیں جو ہر انسان کو مفت ملتے ہیں، مگر ہمارے پالیسی سازوں کی ذہنیت ملاحظہ فرمائیں کہ وہ اس میں بھی ایسا حصہ مانگ رہے ہیں۔ حالانکہ ماہرین کی متفقہ رائے یہ ہے، اگر سولر انرجی کو فروغ دیا جائے تو ہمارے بیشتر معاشی مسائل حل ہو جائیں گے۔ ایک قرضوں میں ڈوبی معیشت کے لئے سولر ٹیکنالوجی سے حاصل ہونے والی توانائی ایک ایسی قدرتی امداد ہے جو اس کے سارے دلدر دور کر سکتی ہے، مگر نہیں صاحب یہاں یہ چاہتا کون ہے اس ملک کے دلدر دور ہوں، اس کی معیشت مضبوط ہو، اس پر قرضوں کا بوجھ کم ہو۔ یہاں سب مکھی پر مکھی مارنے والے بیٹھے ہوئے ہیں، جو ہر ایسے راستے کو بند کرنے کے درپے ہیں جو بہتری کی طرف جاتا ہے۔
گزشہ سال اکتوبر سے دسمبر تک صرف تین ماہ میں نیٹ میٹرنگ صارفین کی تعداد تقریباً 25فیصد بڑھی۔ ماہرین کے مطابق اسی رفتار سے تعداد بڑھی تو دسمبر 2025ء تک نیٹ میٹرنگ والے صارفین کی تعداد سات لاکھ سے تجاویز کر جائے گی جو سوا چار ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی استعمال کررہے ہوں گے۔ اب یہ ہے تو خوشی کی بات کہ اس کے فوائد بہت ہیں۔ اس سارے عمل سے قومی خزانے کو اربوں روپے کی بچت ہو گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں حکومت کا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوتا اور ساری سرمایہ کاری صارفین کرتے ہیں۔ یعنی یہ واحد شعبہ ہے جو حکومت کے لئے کماؤ پوت بن سکتا ہے، کیونکہ ٹیکسوں اور درآمدی بل کی بچت کی مد میں اربوں ڈالرز بچائے جا سکتے ہیں۔ یکدم یوٹرن لینے والے پالیسی سازوں کو کیا اس بات کا علم نہیں کہ سولر انرجی کے شعبے میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے۔ بڑی فیکٹریوں نے بھی بھاری سرمایہ لگا کے سولر پلانٹ لگوائے ہیں اور یہ خبریں سامنے آ چکی ہیں کہ ان کی وجہ سے پیداواری لاگت میں کمی آ رہی ہے جو ہمارے لئے دو طرح سے فائدہ مند ہوگی۔ ایک تو ہماری برآمدات کم قیمت پر بھیجی جا سکیں گی جو عالمی منڈی میں دیگر ملکوں کا مقابلہ کریں گی اور دوسرا مقامی سطح پر بھی اشیاء سستے داموں دستیاب ہوں گی جس سے ہوشربا مہنگائی میں کمی آئے گی۔ اس وقت ہم اپنی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کوئلے، درآمدی کوئلے، قدرتی گیس، ایل این جی اور فرنس آئل کا استعمال کرتے ہیں جن سے ساڑھے سترہ ہزار میگاواٹ بجلی حاصل ہوتی ہے۔ اس کے لئے حکومت ملک میں لگنے والے تھرمل پاور پلانٹس کو سالانہ سولہ ارب روپے سے زائد کی ادائیگیاں کرتی ہے۔ سارا مسئلہ ان پرائیویٹ پاور پلانٹس کا ہے جن کے لئے سولر انرجی کی وجہ سے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے ان کمپنیوں کے مالکان نے جی بھر کے اس ملک کے عوام کا خون نچوڑا ہے۔ یہ جونکیں اب بھی جان نہیں چھوڑنا چاہتیں۔ حکومت نے انہیں کیپسٹی چارجز کی مد میں اربوں روپے دینے ہوتے ہیں اکثر کمپنیاں بغیر بجلی بنائے بھی اربوں روپے حاصل کر رہی ہیں اب اگر سولر انرجی کی وجہ سے ان کمپنیوں کی بنائی گئی بجلی کا استعمال بالکل ہی کم ہو گیا تو ان کے معاہدوں کا جواز ختم ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ نیٹ میٹرنگ کی پالیسی کے خلاف شب خون مارا گیا ہے، مگر کیا یہ شب خون مارا جا سکتا ہے؟ اس سوال پر حکومت ایک بار پھر غور کرلے تو بہتر ہوگا۔
چند ماہ پہلے تک خود حکمران سولر انرجی کے بہت بڑے مبلغ بنے ہوئے تھے اچانک انہیں کیا ہوا کہ اس کا گلا دبانے پر آ گئے۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ پالیسی میں یہ تبدیلی دو طبقوں کے دباؤ پر اور انہیں فائدہ پہنچانے کے لئے کی گئی ہے۔ ایک تھرمل پاور کمپنیوں کے مالکان اور دوسرا تیل درآمد کرنے والا بااثر طبقہ، بجائے اسے فروغ دے کر ایک آلودگی فری انقلاب لانے کے اس پر چھری چلانے کی سوچ اس ملک کو آگے لے جانے کا یہ واحد قدرتی راستہ بھی بند کر دے گی۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ حکومت نے اتنا بڑا فیصلہ اس شعبے کے اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لئے بغیر کیا۔ چند لوگ بیٹھ کے کوئی ایسا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں جس سے لاکھوں لوگوں کا براہ راست اور کروڑوں افراد کا بلواسطہ فائدہ وابستہ ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف کو اس صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے ایک ریونیو بورڈ بنانا چاہیے جس میں صرف حکومتی ہی نہیں نجی شعبے کے افراد اور ماہرین بھی شامل ہوں۔ اس وقت تک اس نئی پالیسی کو کالعدم قرار دے دیا جائے۔