مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میل سروس کے ذریعے شام کو 4 بجے تک روانہ کیے گئے خطوط اور دستاویزات تیسرے دن صبح گھر گھر تقسیم ہو جاتی تھیں 

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میل سروس کے ذریعے شام کو 4 بجے تک روانہ کیے گئے خطوط ...
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میل سروس کے ذریعے شام کو 4 بجے تک روانہ کیے گئے خطوط اور دستاویزات تیسرے دن صبح گھر گھر تقسیم ہو جاتی تھیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:73
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اسی پوسٹ آفس میل سروس کے ذریعے شام کو 4 بجے تک روانہ کیے گئے خطوط اور دستاویزات لازمی طور پر تیسرے دن صبح گھر گھر تقسیم ہو جاتی تھیں۔ دوسرے الفاظ میں ڈاک کی چھانٹی اور منزل مقصود تک پہنچانے کاکام صرف ایک کاروباری دن میں مکمل ہو جاتا تھا۔ اور کہاں اب یہ عالم ہے کہ ہوائی جہاز سے بھیجی گئی عام ڈاک بھی تین چار دن بعدہی ملتی ہے۔
ڈاک کے ڈبے کا ماحول کسی دفتر کے بڑے سے ہال جیسا ہی ہوتا ہے۔ طے شدہ نظام کے تحت جیسے ہی کسی اسٹیشن سے چڑھائی جانے والی عمومی ڈاک کے تھیلے ملتے ہیں، محکمہ ڈاک کے کارندے فوراً اس کی سیلیں توڑ کر اسے درمیان میں رکھے ہوئے ایک بڑے اور مستطیل میز پرالٹا دیتے ہیں اور اس کے ارد گرد کھڑے یا بیٹھے ہوئے عملے کے افراد بھوکے گدِھوں کی طرح خطوط کے اس ڈھیر پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور مختلف اسٹیشنوں کے لحاظ سے خطوط اور پارسل وغیرہ کی چھانٹی کرکے عملے کے دوسرے افراد کو پکڑا دیتے ہیں جو تیزی سے جا کر ان کو دیواروں کیساتھ لگے ہوئے متعلقہ کابکوں میں پھینکتے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ ڈبے کے چھانٹی والے میز کے ساتھ ساتھ مختلف بڑے اسٹیشنوں کے لیے متعدد فولادی اسٹینڈ بھی لگے ہوتے ہیں جن پر مصروف اسٹیشنوں کے لیے ڈاک کے تھیلے لٹکائے گئے ہوتے ہیں،متعلقہ اسٹیشن آنے سے قبل ہی وہ اس کیلیے رکھے گئے سارے خطوط اور پارسل وغیرہ اس تھیلے میں ڈال کر سیل کر کے تیار رکھتے ہیں اور جوں ہی وہ اسٹیشن آتا ہے ایک بارپھروہی تماشہ دہرایا جاتا ہے۔
چونکہ یہ سلسلہ چوبیس گھنٹے جاری رہتا ہے، اس لیے محکمہ کے ملازمین 3شفٹوں میں کام کرتے ہیں۔ اور ان کے لیے وہیں کھانے پینے اور آرام کرنے یا سونے کا انتظام بھی ہوتا ہے۔ جو لوگ اس وقت ڈیوٹی پر نہیں ہوتے تو وہ وہاں جا کر، کھانا کھاتے ہیں، آرام کرتے یا ساتھیوں کی ساتھ خوش گپیوں میں مصروف رہتے ہیں۔
آئیے اب ذرا دیکھتے ہیں کہ پچھلی صدی میں جب یہ سلسلہ شروع ہوا تھا تو ایسے تیار شدہ ڈاک کے تھیلوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا تھا،کس طرح انھیں اسٹیشن سے وصول کیا جاتا اور کیسے وہاں کی ڈاک کا تھیلا ان کے حوالے کیاجاتا تھا۔
اگر گاڑی اس اسٹیشن پر ٹھہرتی تھی جہاں ڈاک کا تھیلا پہنچانا مقصود ہوتا تھا، تو پلیٹ فارم پر کھڑا ہوا محکمہ ڈاک کا ایک ہرکارہ سیٹیاں بجاتا ہوا آتا اور بڑے مزے سے اپنے اسٹیشن پر آنے والی ڈاک کا تھیلا محکمہ آر ایم ایس کے ملازم سے وصول کر لیتا تھا اور اس اسٹیشن سے دوسرے علاقوں کو جانے والی ڈاک کا اپنا تھیلا اس کو تھما دیتا۔یہ سب کچھ ایک بہت ہی منظم اور پرسکون انداز میں انتہائی عجلت سے ہوجاتا تھا۔
 اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ گاڑی اس اسٹیشن پر نہیں ٹھہرتی تھی اور وہاں ڈاک کو پہنچانا یا وصول کرنا بھی ضروری ہوتا تھا، تو ایسے حالات میں پلیٹ فارم پر موجود مقامی ڈاک خانے کا ملازم ڈاک کا تھیلا لے کر گاڑی سے ایک مناسب فاصلے پر کھڑا ہو جاتا تھا، اور جیسے ہی گاڑی تیز رفتاری سے اس اسٹیشن میں داخل ہوتی، تو پوسٹل وین کے دروازے پر کھڑا ہوا آر ایم ایس کا ایک کارندہ ہاتھ لمبا کرکیاس ملازم سے تھیلا اچک کر اندر کھینچ لیتا اور اس کے ساتھ ہی کھڑا ہوا دوسرا ملازم فوراً ہی اس اسٹیشن کی ڈاک کا تھیلا باہر پلیٹ فارم پر اچھال دیا کرتا تھا۔ یہ کام اتنا سادہ بھی نہیں ہوتا تھا جتنا بظاہر نظر آتا ہے اور اس میں ہر وقت مختلف حادثات کا دھڑکا لگا رہتا تھا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -