جماعت اسلامی کافیصلہ سیاست کا رخ موڑ دیگا

جماعت اسلامی مینا ر پاکستان کے سائے میں نیا موڑ لینا چاہتی ہے ۔وہ کیسا ہوگا ،آیا اس کا فیصلہ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر اثرانداز ہوگا ۔کیا وہ اتحادی سیاست سے ہٹ کر کوئی اور فیصلہ کرے گی کیا نعرہ ہوگا ،جس کی بنیاد پر وہ اپنی سیاست کو آگے لے جانا چاہتی ہے۔ جماعت اسلامی کا جودستور ہے ،کیا وہ اس بات کی اجازت دے گا کہ امیر جماعت تن تنہا اپنی رائے کو لے کر چل سکے۔ ایک نہیں بے شمار سوالات ذہن میں اٹھ رہے ہیں۔ کیا ہم کھل کر ان تمام پہلوؤں پر تجزیہ کرسکیں گے، جس کی وجہ سے جماعت اسلامی 2013ء کے انتخابات میں اپنا مقام نہیں بناسکی، بلکہ اس کی سیاسی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ تاریخ میں جب بھی شکست کا سامنا قوموں یا گروہوں کو پیش آیا ہے تو اس کی وجوہات باہر نہیں تھیں، بلکہ اس کے اندر ہی نظر آئیں۔ بعض دفعہ شکست کی وجوہات باہر تلاش کرتے ہیں، جبکہ وہ اندر موجود ہوتی ہیں ہمارے سامنے بہترین مثال خود رسول اللہؐ کے دور کی ہے۔ خاتم النبینؐ سے بڑھ کر کوئی مقدس ہستی ہو ہی نہیں سکتی او ران کے جان نثار صحابہ کرامؓ سے بڑھ کرکوئی وفادار گروہ نہیں ہوسکتا، لیکن آپ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسولؐ کو شکست کی وجوہات بتلائیں تو ان کے اندر بتائیں، یعنی جنگ احد میں شکست ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے بتلادیا کہ یہ شکست اس لئے نہیں ہوئی کہ ابو سفیان کا لشکر طاقتور تھا یا بہت بڑاتھا، بلکہ بتلایا کہ تمہارے اندر کمزوریاں تھیں۔ شکست کی وجوہات اور اسباب اندر موجود تھے اور نشاندہی کردی اور سب نے تسلیم کرلیا اور کون جرات کرسکتا تھا کہ اللہ کے فیصلہ کے بعد انکار کرسکتا۔ اس موقع پر یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کیا، جماعت اسلامی اپنے اندر یہ حوصلہ رکھتی ہے کہ اس کی ناکامی کی وجوہات کو کھل کر بیان کیاجاسکے۔ جنگ احد کے ایک اور پہلوکا ذرا غور سے تجزیہ کریں تو ایک بات اور بھی سامنے آجائے گی کہ جنگ احد کے حوالے سے جو اسباب شکست کے اللہ تعالیٰ نے بتلائے وہ علی الاعلان بتلادیئے اور پورے مجمع کے سامنے کمزوریاں اور خامیاں بیان کرادیں اور ان خامیوں کو کوئی خفیہ نہیں رکھا۔ دوست دشمن سب کوبتلادیا۔
قارئین محترم! کیا جماعت اسلامی یہ کرسکے گی؟ ایک اور سوال بہت اہم ہے جو ہمیں اپنے آپ سے کرنا چاہیے کہ جماعت اسلامی جو ایک منظم جماعت ہے اور وہ قدیم حیثیت بھی رکھتی ہے۔ وہ ان مسائل کا ادراک کیوں نہیں کرسکی اور عوام کی توجہ اپنی طرف مبذول نہیں کراسکی اور عوام کی تائید حاصل نہیں کرسکی۔یہ اس حوالے سے تجزیہ کررہا ہوں کہ عمران خان اس کا ادراک رکھتے تھے اور انہوں نے پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے مقابل اپنی پارٹی کو متبادل بنالیا اور عوام کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اب تک یہ نہیں ہوا ہے کہ جو پارٹی اقتدار میں تھی، جب وہ اقتدار پورا کرکے گئی ہے تو دوبارہ اقتدار میں اپناتسلسل برقرار نہیں رکھ سکی۔ 1988ء سے ہم اس کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ 1988ء سے 2013ء تک اقتدار دو پارٹیوں کے درمیان گردش کرتارہا۔ جماعت اسلامی اس طویل عرصہ میں ان دونوں پارٹیوں کے مدمقابل تیسری قوت بن کر نہیں ابھری۔ اس لئے اس سیاسی خلاء کو اب عمران خان نے پر کردیا ہے اور اس کے ساتھ اب قادری صاحب بھی میدان میں موجود ہیں۔ ان کے تمام جلسوں کو دیکھ کر ہم رائے قائم کرسکتے ہیں کہ عمران خان کے بعد قادری صاحب کے جلسے بھرپور تھے۔ یہ کل آنے والے دنوں میں ایک پلیٹ فارم پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ عمران خان کی پارٹی نے مسلم لیگ کے مقابل جگہ لے لی ہے اور قادری نے مذہبی پارٹیوں کے مقابل ایک Soft Islam پیش کردیا ہے۔ پاکستان کی مستقبل کی سیاست کافیصلہ اس پر ہوگا کہ عمران خان اپنی اس مقبولیت کو انتخاب میں کس طرح ڈھال سکتے ہیں اور ان کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ اس قوت کو انتخابی نتائج میں حاصل کرنے پر ہوگا۔
جماعت اسلامی اب ان کے درمیان اپنا مقام کس طرح بناتی ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ اسے کوئی بھی فیصلہ جلدبازی میں نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اسے انتظار کرنا ہوگا اور جماعت اسلامی کو آنے والے انتخابات اور لمحہ موجود میں جو مہلت حاصل ہے۔ اس سے بھرپور فائدہ اٹھائے اور اپنی عوامی قوت میں اضافہ کرے تو کوئی بہتر صورت بن سکتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا جماعت اسلامی مہلت سے فائدہ اٹھاسکے گی اور وہ کیا نعرہ مستانہ ہوگا کہ جس پر عوام اٹھ کھڑے ہوں گے!
جماعت اسلامی کو اس موقع پر ایک اور پہلو کی طرف بھی غور کرنا چاہیے کہ وہ تبدیلی کن کن پہلوؤں سے لانا چاہتی ہے۔ عمران خان ابھی صرف نعروں کی حد تک محدود ہیں ۔ہم سب جانتے ہیں کہ کرپشن ایک ناسور کی طرح پاکستان کے معاشرے میں سرایت کرچکی ہے۔ کوئی شعبہ زندگی اس سے محفوظ نہیں ہے۔ کرپٹ بیوروکریسی کی موجودگی میں کون سی بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔ تربیت یافتہ اور عیار بیورو کریسی سیاست دانوں کو بڑی خوبصورتی سے اپنے سانچہ میں ڈھال لیتی ہے ،اب تک تو کوئی بھی اس سے بچا نہیں ہے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے عیار اور کرپٹ بیورو کریسی کے شکنجے میں پھنس گئے اور ان میں سے کئی موت کے صدمے سے دوچار بھی ہوگئے ۔عیار بیورو کریسی نے ہر ایک کو اپنے سانچے میں ڈھال کر حادثاتی موت اور ساتھ ساتھ سیاسی موت سے بھی دوچار کردیا۔
میری رائے تو یہ ہے کہ کرپٹ اور فرسودہ نظام تبدیلی کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے اور اس کی طرف کسی کی نگاہ نہیں جارہی ہے اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ نظام کو شکست و ریخت سے دوچارکئے بغیر کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آسکتی ہے۔ ہماری جدید سیاسی تاریخ میں دو تبدیلیوں نے فرسودہ نظام کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور تبدیلی پیدا کردی یہ عظیم اور شاندار کارنامہ روس میں سوشلسٹ انقلاب نے سرانجام دیا اور ایران کے اسلامی انقلاب نے یہ کردکھایا۔ دونوں ممالک میں شہنشاہیت تھی۔ ہمارے سامنے تبدیلی کے حوالے سے ایران کا تجربہ کامیاب تھا اور اس نے شہنشاہیت کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور اس کے نام ونشان کو مٹاکر دم لیا اوربالکل نیا نظام ایران پر نافذ کردیا ،ان دونوں ممالک نے مغرب کے جمہوری نظام کو ذریعہ نہیں بنایا ،بلکہ عوام کی قوت سے نظام کو شکست دی اور اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اخوان نے جمہوری راستہ اختیار کیا، مگر مصری فوج نے شب خون مارا اور تمام کھیل ختم ہوگیا۔تیونس میں اب اسلامی پارٹی انتخاب میں اپنی مقبولیت برقرار نہیں رکھ سکی اور لبرل ڈیموکریٹک جیت گئے۔ ترکی میں اسلامی سفر بہت دھیرے دھیرے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہے ،پیش رفت جاری ہے۔
جماعت اسلامی کے سامنے تبدیلی کے لئے ایران ترکی اور مصر موجود ہیں ترکی اور ایران دونوں مغرب زدہ ممالک تھے ،لیکن دونوں میں تبدیلیاں آگئیں۔ ان تبدیلیوں میں میری رائے ایران کے حق میں ہے ،جہاں حقیقی تبدیلی آگئی ،ترکی میں مغرب اور اسلام گلے مل کر سفر کررہے ہیں۔ مساجد اور میخانے دونوں موجود ہیں، ایران میں ایسا نہیں ہے ،اس کی پشت پر عوام کی حقیقی قوت موجود تھی۔
جماعت اسلامی عمران خان کی طرف کی طرف نہ دیکھے اپنی دنیا آپ پیدا کرے اور اس کے لئے موجودہ امیر کو اپنی ٹیم بنانا ہوگی ۔پاکستان لمحہ موجود میں سفر کررہا ہے، اس کے درمیان جماعت اسلامی کو اپنا مقام بنانا ہوگا۔ کسی گھبراہٹ اور جلد بازی میں فیصلہ نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ *