کیا آج آپ تصور کر سکتے ہیں کہ مسجد کے عین مقابل پانچ سو لوگوں کا جمگھٹا جمع ہو اور انہی میں سے ایک طائفہ ڈھول بجا رہا ہو اور دوسرا شہنائی، ساتھ میں اولگی، یعنی خاندانی نائی پیتل کے کٹوروں میں صندل کا تیل لئے دولہا اور اس کے اقرباء کے سروں پر لگا رہے ہوں عصر کا وقت ہو اور شہنائی نواز اْونچے سروں میں راگ سندھی بھیرویں کے لہرے پھونک رہے ہوں، نئی پود کے لئے تو اب یہ ایک قصہ یا کہانی ہی ہو گی مگر آج سے قریباً بیس پچیس سال پہلے ہمارے ہاں یعنی مارواڑی سرائیکیوں کی شادی بیاہ پر ایسا ہی ہوتا تھا.
دراصل ہمارے ساتھ سب سے بڑی زیادتی اْس وقت ہوئی جب امریکہ کو سپر پاور بننے کا خبط چڑھا اور پھر اس نے روس کے مارکسسٹ جنونیوں کو سبق سکھانے کے لئے افغانستان اور پاکستان کو اپنی اس سازشی جنگ میں دھکیل دیا، روسی مارکسسٹ نے کلاشنکوف اس لئے بنائی تاکہ دنیا میں موجود جابر مقتدر اور خونخوار سرمایہ دار سے دولت اور وسائل چھین کر غریبوں کو لوٹا دے، مگر شاطر دماغ امریکیوں نے وہی کلاشنکوف روسیوں سے چھین کر افغان اور پاکستانی عوام کو جہادِ عظیم کے بیانئے کے ساتھ تھما دی اور پھر ہوا یوں کہ امریکہ تو بن بیٹھا سپر پاور قضاء افغانستان اور پاکستان کی آئی کلاشنکوف کلچر نے ایک ایسی ذہنیت پیدا کر دی جو بقولِ اقبال اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کر بیٹھی اقبال کا یہ شعر تو خیر مغرب کے تہذیبی انتشار کے متعلق تھا مگر صادق ان کی اپنی قوم پر ہی آ چکا، ہمارے ہاں ڈرامہ، فلم، موسیقی، مصوّری اور صحت مند اَدبی سرگرمیاں اب بس برائے نام ہی رہ گئی ہیں جو کچھ بچا ہے.
وہ یا تو مذہبی بیانئے کے تڑکے کے ساتھ چل رہا ہے یا پھر زبردست گلیمر کا مسالہ لگا کر بیچا جا رہا ہے نہ تو اب محمود علی، سبحانی با یونس، محبوب عالم، لطیف کپاڈیہ، یوسف کمال المعروف شکیل، سلیم ناصر، قاضی واجد، کمال احمد رضوی، فاروق ضمیر، رفیع خاور، جمشید انصاری، ارشد محمود اور معین اختر جیسے کہنہ مشق اداکار رہے اور نہ ہی بیگم خورشید مرزا، عذرا شیروانی، ذہین طاہرہ، بدر خلیل، دردانہ بٹ، تمنا بیگم، طاہرہ واسطی اور شہناز شیخ جیسی زیرک اداکارائیں جو کبھی آنے والی نسلوں کے لئے رول ماڈل ہوا کرتیں، پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری ستّر اور اَسّی کی دہائی میں ایشیاء کی سب سے بہترین ڈرامہ انڈسٹری رہی ہے ہمارے ڈرامہ کے کردار حقیقی اور معاشرے کے عین عکاس ہوا کرتے اْس زمانے میں پاکستان ٹیلی ویڑن ایک تربیت گاہ تھا جہاں ملک کے بہترین دماغ اپنے اپنے فنی جوہر دکھاتے نظر آتے اْس زمانے میں ڈرامہ لکھنے والے بھی شوکت صدیقی، محمود عالی، فاطمہ ثریا بجیا، بانو قدسیہ، حسینہ معین اور اشفاق احمد جیسے باکمال ہوتے اور اداکاری کے جوہر دکھانے والے بھی باکمال، ڈرامہ سیریل پرچھائیاں میں بحیثیت خالہ ساحرہ کاظمی سے بیگم خورشید مرزا کے مکالمات آج بھی اپنے اندر گہری دانائی اور اَن گنت اسباقِ زیست لئے ہوئے ہیں
اِسی طرح ہماری فلمی موسیقی ماسٹر غلام حیدر، رشید عطرے، عنایت حسین بھٹی، ایم اشرف، خواجہ خورشید انور، بابا جی اے چشتی اور حافظ نثار بزمی جیسے زیرک اور کہنہ مشق موسیقاروں کے طفیل آج بھی کانوں میں رس گھول رہی ہے جو بھی موسیقی کی شدھ بدھ رکھتا ہے وہ ہماری فلمی موسیقی سے خوب واقف ہے، اچھی موسیقی تو اب چراغ لے کر بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتی، طوفانِ بدتمیزی اور ہلڑ بازی نے آج موسیقی کی جگہ لے لی، مصوّری و نقّاشی میں سید صادقین نقوی، عبدالرحمان چغتائی، جمیل نقش اور احمد پرویز جیسے عظیم فنکار ہمارے شاندار ماضی کے دمکتے ستارے رہے ہیں خطّاطی میں رشید بٹ، سید نفیس الحسینی شاہ اور خورشید گوہر قلم جیسے زیرک خطّاط بھی ہمارا امتیاز رہے ہیں شاعری کی تو بات ہی الگ رہی ہمارے ہاں، احمد ندیم قاسمی، فیض احمد فیض، ناصر کاظمی، منیر نیازی، عبدالحمید عدم، محسن نقوی، احمد فراز، پروین شاکر، سارہ شگفتہ اور ادا جعفری جیسی کہنہ مشق شاعرات آج بھی بھلائے نہیں بھولتیں، فنونِ لطیفہ کے لحاظ سے ہمارا ملک ہمیشہ تابندہ و درخشاں رہا ہے مگر اس وقت فنونِ لطیفہ قریباً آخری سانسیں لے رہے ہیں۔
اس میں رہی کسر پھر ٹی آر پیز کے چکر میں سرگرداں پرائیویٹ ٹی وی چینلز نے پوری کر دی کند ذہن اور ناتجربہ کار لوگوں کو سکرین پر لا کر راتوں رات سلیبرٹی بنا دینے والے یہ ٹی وی چینلز فنونِ لطیفہ کے اصلی قاتل ہیں،اگر کہیں حقیقی ٹیلنٹ موجود ہے بھی تو وہ مارے بے بسی کے اپنی موت آپ ہی مر جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ فنونِ لطیفہ کے حوالے سے اب حقیقی صلاحیت ناپید ہو چکی ہے۔ آرٹ کونسلز میں مذہبی اور سیاسی جلسے ہو رہے ہیں۔فلم انڈسٹری کا جنازہ تو ہم آج سے تیس سال قبل ہی نکال چکے تھے۔ رہا ڈرامہ اور موسیقی تو اْودھم کا نام موسیقی اور گلیمر کا نام اب ڈرامہ رکھ دیا گیا ہے،
جسے دیکھ کر اخلاقی تربیت تو درکنار انسان ہوس، جاہ و حشم کی لالچ اور جرائم کی دنیا کی طرف ہی راغب ہوتا ہے فی زمانہ پرائیویٹ ٹی وی چینلز اور پرائیویٹ میوزک سٹوڈیوز نے جس قدر ڈرامہ اور موسیقی کا بیڑا غرق کیا ہوا ہے شاید ہی کوئی اور عوامل اس تباہی کے ذمہ دار ہوں اِس پر مستزاد یہ کہ غیر ضروری اور فرقہ وارانہ مذہبی لٹریچر جس نے گلی کوچے اور محلوں تک فکری منافرت کو وہ ہوا دیدی کہ اب اس معاشرے میں فنونِ لطیفہ کا نام تک لینا بھی جرم بن چکا ہے فنونِ لطیفہ کی تباہی کے ذمہ دار جس قدر اس کی بے جا مخالفت کرنے والے لوگ ہیں تو ٹھیک اْسی طرح اس جرم کے ذمہ دار ہمارے وہ ناتجربہ کار اور کند ذہن فنکار بھی ہیں جو فنکار کم اور نوٹنکی زیادہ ہیں جنہوں نے فنونِ لطیفہ کو ایک انتہائی خوفناک اور ناقابلِ قبول صورت دے دی ہے حالانکہ فنونِ لطیفہ کا تعلق انسان کی حسِ جمالیات سے ہے اور بنیادی انسانی ضروریات کے بعد اس کی ضرورت انسان کو ہمیشہ بالکل ویسے ہی رہتی ہے جیسے روٹی کپڑا اور مکان کی.۔