برقی جرائم کی روک تھام، وقت کا تقاضا

گلوبل ویلج کے تصور نے دنیا کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ انٹرنیٹ، سوشل نیٹ ورک نے جہاں فاصلے سمیٹ دئیے، وہیں برقی رابطوں نے معاشرے کو نئے مسائل سے بھی دوچار کیا ہے۔ جہاں سائبر اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے، وہیں سائبر جرائم کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں اس وقت انٹرنیٹ کے صارفین کی تعداد 3 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اتنے سارے لوگوں کو چند مجرمانہ ذہنیت والے افراد کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ ریاست کے پاس انصاف و قانون کا جو صدیوں پرانا ڈھانچہ موجود ہے وہ اکیسویں صدی کے چیلنج سے نپٹنے کے لئے ناقص و ناکافی ہے۔ یوں اس وسیع و عریض دنیا کو ریگولیٹ کرنے کے لئے حکومت نے ’’سائبر جرائم کی روک تھام کا بل‘‘ پیش کیا جسے قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ اس بل میں الیکٹرانک فراڈ، بچوں کے بارے میں فحش مواد، ہیکنگ، کسی کے مواد تک غیر قانونی رسائی اور کوڈ وائرس کے استعمال کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا۔ یہ بل نہ صرف پاکستان کی حدود میں لاگو ہوتا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بالواسطہ و بلاواسطہ پاکستان کی حدود کے اندر انفارمیشن سسٹم سے کسی تعلق کی صورت میں وہاں بھی قابل عمل ہوگا۔
اس کے 5 حصے اور 51 شقیں ہیں، جسے سینٹ میں منظوری کیلئے پیش کیا گیا ہے۔ منظوری کے بعد غیر قانونی ہیکنگ و مداخلت، شناخت کرائم، الیکٹرونک جعل سازی اور فراڈ، سائبر دہشت گردی کو قابو کرنے کے علاوہ خواتین کو خصوصی تحفظ حاصل ہوگا اور ان کو ہراساں کرنے پر قید اور بھاری جرمانے کی سزا ہوگی۔ یہ قانون تحقیقاتی اداروں کو بھی اختیارات دے گا کہ وہ تمام ڈیجیٹل شواہد اکٹھے کرنے کے لئے ملزمان کے الیکٹرونک آلات قبضے میں لے سکیں۔ یہ بل سائبر مجرموں کو نہ صرف بے نقاب کرے گا بلکہ عام شہری کو ان شرپسندوں سے تحفظ بھی فراہم کرے گا۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزیر مملکت انوشہ رحمان نے اس بل کو اسمبلی میں پیش کیا۔ اس میں وفاقی حکومت کو یہ اختیار دیا کہ وہ یا تو کسی وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سپرد یہ کام کرے یا پھر اس مقصد کے لئے ایک خصوصی تحقیقاتی ادارہ قائم کرے جو الیکٹرانک جرائم کو کنٹرول کرنے اور صحیح جانچ پڑتال کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ یقیناً اس کے لئے کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین درکار ہوں گے جو اس طرح کے مشکل اور پیچیدہ جرائم کی تفتیش کرنے کی قابلیت رکھتے ہوں۔
آج کل بے راہ رو افراد خواتین کی تصاویر کو غلط استعمال کرکے، ایڈٹ کرکے فحش تصویر یا ویڈیو کا حصہ بنا دیتے ہیں۔ ایف آئی اے کے پاس اس طرح کے جرائم کی ہزاروں درخواستیں موجود ہیں، جن میں دفتروں میں کام کرنے والی خواتین، کالج کی لڑکیاں ا ور دیگر خواتین شامل ہیں۔ ذرا تصور کیجئے ان معصوم لڑکیوں کے ذہن پر اور ان کی فیملی پر کس طرح کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ان کی عزت وقار کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس بل میں ان خواتین کو خاص تحفظ دیا گیا ہے۔ اگر کسی بھی اصل شخص کی تصویر کو کسی جنسی طور پر واضح تصویر کے اوپر یا جنسی طور پر واضح طرز عمل میں ویڈیو کا حصہ بنایا گیا تو مجرم کو سات سال کی قید کی سزا یا 10 لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔
اس کے لاگو ہونے سے خواتین بے خوف و خطر اپنی تصاویر سوشل میڈیا یا ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرسکیں گی۔ اس کے علاوہ کسی شخص کے بارے میں غلط اطلاع پھیلانے، مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کو سائبر دہشت گردی قرار دیا گیا ہے۔ اس بل کے پاس ہونے کے بعد انٹرنیٹ کے غلط استعمال میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔ کسی پولیس افسر یا تفتیشی افسر کو یہ اجازت نہیں ہوگی کہ وہ اس ایکٹ کے تحت کسی طرح کی تفتیش کرے، صرف مخصوص ادارے کے مجاز تفتیشی افسر کو یہ اجازت ہوگی کہ وہ اس ایکٹ کے تحت تفتیش و کارروائی کرسکے۔
الیکٹرانک جعلسازی، الیکٹرانک فراڈ، مواصلات کے سامان کی ٹیمپرنگ پر قید اور بھاری جرمانے کی سزا ہوگی۔ جو حضرات سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں، وہ اس طرح کے ٹوئیٹر، فیس بک اور وائٹس اپ گروپس سے واقف ہیں جو عوام کو مذہب کے نام پر گمراہ کر رہے ہیں اور نفرت انگیز مواد اپ لوڈ کرکے فرقہ واریت کو ہوا دے رہے ہیں۔ کہیں کچھ لوگ لبرلزم کی آڑ میں پاک افواج اور اس ملک کی بنیادی نظریاتی اساس کے خلاف غلیظ پروپیگنڈے میں مشغول ہیں۔ اس بل کے تحت مذہب، ملک، اس کی عدالتوں اور مسلح افواج کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاسکے گا اور ایسا ہونے کی صورت میں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاسکے گی۔
غیر مجاز سمیں جو دہشت گردی کے اکثر واقعات میں بطور آلہ کار استعمال ہوئی ہیں، اس بل میں اس مسئلے کا بھی حل نکالا گیا ہے اور غیر مجاز سم کارڈ کے اجرا کو بھی قابل تعزیر جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ خاص معلوماتی نظام میں دخل اندازی کی صورت میں سات سال قید اور 10 لاکھ تک جرمانہ کیا جاسکے گا۔
اس بل میں وفاقی حکومت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک سے پاکستان کے تعلقات متاثر ہونے، ملکی دفاع یا بدامنی پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر کسی بھی ویب سائٹ کو بلاک کرسکتی ہے۔ اس بل کی دہشت گردی کے حوالے سے خاص اہمیت ہے۔ اگرچہ آزادئ رائے عوام کا بنیادی حق ہے جو انہیں آئین پاکستان نے بھی دیا ہے۔ لیکن یہ بھی سمجھنے والی بات ہے کہ آزادی ذمہ داری کے بغیر نہیں دی جاسکتی۔ مادر پدر آزادی سے نہ صرف معاشرے میں انتشار پیدا ہوگا بلکہ چند شرپسند عناصر سے لوگوں کی عزت، جان و مال بھی غیر محفوظ رہیں گے اور ریاستی اداروں کو بھی اپنا تقدس اور رٹ بحال رکھنے میں دشواری پیش آئے گی۔
جب آزادی و ذمہ داری لازم و ملزوم ہے تو کیوں نہ ہم سب ذمہ داری شہری کا کردار ادا کریں۔ ناقدین جو اس بل کو آزادی اظہار کی راہ میں رکاوٹ سمجھ رہے ہیں کیا ان کے پاس ان جرائم اور ان کے نتیجے میں پھیلنے والی معاشرتی اور نفسیاتی انتشار و بے راہ دری کا کوئی حل موجود ہے؟ ہر معاشرے میں قانون انسانوں کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ بل کے مطابق تفتیشی افسر جو ڈیٹا اور الیکٹرونک ڈیوائس ضبط کرے گا، 24 گھنٹے کے اندر اندر عدالت کے سامنے پیش کرنے کا پابند ہوگا۔ اس میں مختار کل تو کسی کو نہیں بنایا گیا بلکہ ایک چیک اینڈ بیلنس ہے جو نظام کو چلائے گا۔ آزادی کے نام پر کسی کی تصویر غلط استعمال کرنا، غلط انفارمیشن پھیلانا، غلط نظریات کا پرچار کرکے ریاست کو چیلنج کرنا اور مذہب کا مذاق اڑانا، یہ سب ناقابل برداشت عمل ہے۔ اس بل پر بحث ضرور ہونی چاہئے، لیکن مخالف برائے مخالف کا رویہ ہم سب کو نقصان پہنچائے گا۔ ہوسکتا ہے بعدازبحث چند ترامیم کی ضرورت پیش آئے لیکن مجموعی طور پر یہ ہماری معاشی اور معاشرتی زندگی جو کہ اب سائبر دنیا سے منسلک ہوچکی ہے نہ صرف تحفظ فراہم کرے گا اور ریاست و قوم کے مفاد میں بھی یہی بہتر ہے۔