وفاق خطرے میں۔۔ پاکستان کھپے۔۔

پاکستان کے قیام کو ابھی سو تو کیا 80 سال بھی مکمل نہیں ہوئے، لیکن وہ ملک جو 27 ویں رمضان کی شب دنیا کے نقشے پر وجود میں آیا ہر وقت خطرے میں رہتا ہے۔ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی بلوچستان میں بغاوت کا آغاز ہوا۔ اگلی دہائی میں ملکی تاریخ کے پہلے فوجی مارشل لاء نے اس ملک کے دو ٹکڑے ہونے کی بنیاد رکھی اور پھر دوسرے مارشل لا ء کے دور میں اس ملک کے دو ٹکڑے ہو ہی گئے۔ بھٹو صاحب مرحوم اقتدار میں آئے اور تیسرے مارشل لاء کی بنیاد بنے۔ اس مارشل لا ء کے ہاتھوں بھٹو جیل میں پہنچے اور پھر ”ایک قبر اور دو مردوں“ کی صورتحال کی وجہ سے ایک(بھٹو) کو دنیا سے جانا پڑا۔ اس وقت بھی پاکستان میں بغاوت نے جنم لیا۔ یہ سندھ میں 80ء کی دہائی کی بغاوت تھی۔
اس کے بعد ”افغان فریڈم فائٹر“ پاکستان آ گئے اور ایک ایسی جنگ کا اغاز ہوا جس میں 50 کے قریب ممالک نے ہمارا کندھا استعمال کر کے پاکستان کو پھر خطرے میں ڈال دیا۔ ایٹمی دھماکے کئے تو تحفظ کا احساس ہوا کہ اب ہم محفوظ ہیں اب کسی کی جرأت نہیں کہ ہمیں بری نظر سے دیکھے، لیکن آج اسی ایٹم بم کی وجہ سے سب دشمنوں کی نظریں ہم پر ہیں۔ آج لوگ اس خطرے کا اظہار کرتے ہیں کہ کہیں یہ ایٹم بم ہم سے ”چھین“ نہ لیا جائے، لہٰذا ہمارا ایٹم بم بھی ہر وقت خطرے میں رہتا ہے۔ پانی کی فراہمی اس ملک کے شہریوں اور کھیت کھلیان تک یقینی کے لئے عالمی بینک کی نگرانی میں بھارت سے معاہدہ ہوا۔ تین دریا ہمیں مل گئے تین وہ لے گئے، لیکن پانی کا بحران ہے کہ کم نہیں ہو رہا پانی پر ملک کا امن اوروفاق خطرے میں ہے۔ ملک میں اول تو پڑھے لکھے ہی بہت کم ہیں کہ ساری دنیا میں میٹرک تک تعلیم مفت ہوتی ہے ہمارے ہاں تو پرائمری تعلیم کے لئے بھی ہزاروں روپے ماہانہ فیس ادا کرنا پڑتی ہے۔لہٰذا پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے،جہاں پونے تین کروڑ سے زیادہ بچے سکول سے باہر ہیں (اگلی دہائی میں ہماری نوجوان نسل ناخواندہ ہو گی) اور جو بچہ تعلیم حاصل کرلیتا ہے وہ پاکستان چھوڑ رہا ہے۔ رواں سال کے پہلے تین مہینوں میں پونے دو لاکھ پڑھے لکھے نوجوانوں ملک چھوڑ چکے ہیں۔ گزشتہ سال بھی دس لاکھ نوجوان ملک چھوڑ گئے تھے۔ لہٰذا اس ملک کا پڑھا لکھا نوجوان مسلسل باہر جانے سے پورا ملکی ڈھانچہ ہی خطرے میں ہے۔ یہ کیسا ملک ہے کہ خطروں سے نکلتا ہی نہیں ہے۔ روز اک نیا خطرہ جنم لیتا ہے۔ اب وفاق، یعنی پاکستان خطرے میں ہے کا نعرہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے لگایا ہے۔یہ وہی جونیئر زرداری ہیں جن کے والد سینئر زرداری صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے اپنی اہلیہ اور بلاول کی والدہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر سندھ کے اندر لگی آگ اور وفاق کے خلاف شروع ہونے والی بغاوت کو ٹھنڈا کیا تھا، لیکن آج بلاول بھٹو زرداری نے دریائے سندھ کے کنارے حیدرآباد شہر کی جلسہ گاہ کے اندر کھڑے ہو کر آواز بلند کی ہے کہ آج وفاق یعنی پاکستان خطرے میں ہے اور اس کی وجہ چولستان کو پانی مہیا کرنے کے لئے بنائی جانے والی چھ نہروں کا منصوبہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی دھمکی دی ہے کہ اگر یہ نہری منصوبہ ختم نہ کیا گیا تو ہم مسلم لیگ (ن) کی مرکزی حکومت کے ساتھ نہیں چل سکتے یہ منصوبہ وفاق کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ جونیئر زرداری نے اسلام آباد والوں کو اندھا اور بہرا قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری مخالفت اصولوں پر ہے، کیونکہ وفاق خطرے میں ہے۔ سمجھ نہیں آرہی یہ کیسا ملک ہے جس کے لیڈر خطرے سے بچانے کے لئے اعلان کرتے پھرتے ہیں، لیکن عمل نہیں کرتے۔ بلاول کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کی آگ بھڑک رہی ہے اور بجائے اسے ٹھنڈا کرنے کے نہروں کا یہ معاملہ اٹھایا گیا ہے تاکہ بھائی کو بھائی سے لڑایا جائے۔ یہ بھائی اور بھائی سندھی اور پنجابی ہیں۔ بلاول بھٹو خود کہتے ہیں کہ سندھ اور پنجاب دونوں کو پانی کی کمی ہے۔ اگر دونوں صوبوں کو پانی کی کمی ہے تو بھائی پھر جھگڑا کس چیز کا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے والد جناب آصف علی زرداری پنجاب کے گورنر سردار سلیم حیدر خان اور کے پی کے گورنر فیصل کریم کنڈی تینوں مسلم لیگ (ن) سے تعاون کی وجہ سے موجودہ عہدوں پر بیٹھے ہیں لیکن بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ ن لیگ والے عوام کا خون چوستے ہیں،ن لیگ کا ہر منصوبہ کسان اور عوام دشمن ہوتا ہے۔ ن لیگ نے گندم سکینڈل سے کسانوں کا معاشی قتل کیا ہے۔ زراعت کے شعبے کا معاشی قتل کیا ہے اور اب کہتے ہیں ریگستان کو آباد کرنا چاہتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ پنجاب اور سندھ دونوں میں پانی کی قلت 25 سال سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ تھر کو آباد کرنا ہے تو پھر بسم اللہ۔ ہاں سندھ کے پانی پر سمجھوتا نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ چولستان کو ٹیکنالوجی سے آباد کریں۔ کمال ہے تھر کی بات ہو تو بسم اللہ اور چولستان کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال کرو۔ بلاول بھٹو زرداری صاحب آپ ایک بڑی پارٹی کے سربراہ ہیں۔ آپ کے والد صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا تھا۔ آپ کیوں وفاق توڑنے کی بات کرتے ہیں۔ یہ جو سینئر زرداری اور جونیئر زرداری میں ”تفاوت“ دکھایا جاتاہے۔ یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا سینئر شریف اور جونیئر شریف دکھاتے ہیں۔ سینئر شریف جلسوں میں جن کے خلاف نعرے لگاتے، جن کو دھمکیاں دیتے تھے جونیئر شریف انہی سے چوری چھپے ملاقاتیں کرتے تھے۔ یہ طریقہ غلط ہے۔ جناب بلاول بھٹو زرداری یہ ملک ایک دفعہ پہلے دو لخت ہو چکا ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت جب یہ ملک ٹوٹا تو ایک فوجی آمر کی حکومت تھی اور آپ کے نانا اس ”مارشل لا“ والوں کے ساتھ تھے، حکومت میں تھے۔ آج بھی بہت سے لوگ جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا نام مشرقی پاکستان کے سانحہ یعنی سقوط ڈھاکہ میں شامل قرار دیتے ہیں۔ لوگ یہ مانتے ہیں کہ سقوط ڈھاکہ میں بھٹو صاحب کا کردار تھا۔ میں نہیں کہہ رہا لیکن لوگ کہتے ہیں۔ آپ ایسا کام مت کریں کہ کل کوئی آپ کے نام پہ اسی طرح سے انگلی اٹھائے۔ بلاول بھٹو صاحب آپ کے مقابلے میں پی ٹی آئی کی جونیئر سیاستدان شاندانہ گلزار نے ایک بیان دیا ہے اور کہا ہے کہ وفاق بجلی کی مد میں ہمارا (کے پی کے) کا قرضدار ہے۔ بجلی ہمارا صوبہ بناتا ہے ہمیں ہی نہیں ملتی۔ 100 فیصد بجلی میں سے صرف 10 فیصد ہی ہمیں دے دو۔ شاندانہ گلزار نے وفاق سے مطالبہ کیا ہے اسے چھوڑنے کی دھمکی نہیں دی۔ یہی کہا کہ ہمارے وہ پیسے دو جو برسوں سے ادا نہیں کر رہے۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو وفاق خطرے میں پڑ جائے گا۔ ایک جونیئر سیاست دان سے ایک پارٹی کے سربراہ کو کچھ تو سیکھ لینا چاہئے۔رانا ثنا اللہ صاحب موجودہ وزیراعظم کے مشیر ہیں۔ ان کا فرمانا ہے کہ ہم سندھ کے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں لیں گے۔ ہم یہ مسئلہ پیپلز پارٹی کے ساتھ بیٹھ کر حل کر لیں گے، لیکن ساتھ ہی انہوں نے ایک اور جملہ کہا کہ پنجاب اور سندھ میں زمینوں کو ”زرخیز تو“ کرنا ہی ہے۔ لہٰذا ہم ”گرین انیشیٹو“ یعنی سبز خوشحالی کے منصوبے پر عمل درامد کرائیں گے۔ ادھر ایم کیو ایم کے گورنر سندھ کامران ٹیسوری فرماتے ہیں کراچی ہمارا ہے اور ہمارا ہی رہے گا۔ دوسرے لوگ اب اس کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ کراچی کے لئے صرف ہم کافی ہیں۔ کراچی کو سیاست کی ضرورت ہے، لاشوں کی سیاست اب نہیں ہو گی۔
٭٭٭٭٭