روس۔ یوکرین جنگ پر چند تاثرات!

  روس۔ یوکرین جنگ پر چند تاثرات!
  روس۔ یوکرین جنگ پر چند تاثرات!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جب اپنے ملک کی سیاست پر بات کرنی مشکل نظر آئے تو پھر وہی کچھ کرنا چاہیے جو ایک فارسی شاعر نے کہہ رکھا ہے:

بہترآں باشد کہ سّرِ دلبراں 

گفتہ آید در حدیثِ دیگراں 

براعظم یورپ میں کل ملا کر 28ممالک ہیں جن میں رقبے کے لحاظ سے روس سب سے بڑا ملک ہے جو دو براعظموں (ایشیاء اور یورپ) میں پھیلاہوا ہے۔ دو براعظموں میں پھیلنے والا ایک اور ملک ترکی بھی ہے جو اپنے آپ کو یورپی ملک کہلاتا ہے، ایشیائی نہیں۔ براعظم یورپ کا دوسرا بڑا ملک (بلحاظ رقبہ) یوکرین ہے۔

قدرت نے براعظم یورپ کو کئی وسائل سے مالامال کررکھا ہے،اس کی سرزمین نسبتاً دوسرے یورپی ممالک سے زرخیز ہے اور اس کی مٹی میں ایسی معدنیات پائی جاتی ہیں جو نہایت بیش قیمت ہیں اور اس حوالے سے ان کو (Rare Minerals) بھی کہا جاتا ہے۔

یوکرین کا بیشتر رقبہ سرسبز و شاداب ہے۔ اس میں کوئی ایسا بڑا پہاڑ نہیں جو برف پوش ہو۔یہاں برف باری تو ہوتی ہے لیکن اس کی وجہ سطح سمندر سے بلندی ہے جیسا کہ براعظم ایشیاء کے بعض ملکوں میں ہم دیکھتے ہیں۔ یوکرین کے پہاڑی سلسلے کم بلند ہیں۔ زیادہ علاقہ میدانی ہے۔ اس کی مٹی اتنی زرخیز ہے کہ اس میں اگنے والی گندم پاکستان سمیت دوسرے ملکوں کو بھی برآمد کی جاتی ہے۔ پاکستان کا رقبہ تقریباً ساڑھے تین لاکھ مربع میل ہے اور ہماری آبادی 24کروڑ نفوس سے زیادہ ہے جبکہ یوکرین کا رقبہ تقریباً اڑھائی لاکھ مربع میل ہے اور اس کی آبادی صرف ساڑھے تین کروڑ نفوس سے بھی کم ہے۔ رقبے اور آبادی کے اس تناسب سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم عالمی برادری میں کہاں ”کھڑے“ ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ ہماری پس ماندگی کی ایک وجہ ہماری آبادی کی بے ہنگم کثرت بھی ہے اور یہ آبادی یورپی یونین کے ملکوں کے مقابلے میں تعلیمی لحاظ سے گویا ”گئی گزری“ ہے۔

ہم نے انڈیا کے ساتھ گزشتہ 80برسوں میں دو بڑی جنگیں لڑی ہیں۔ ایک 1965ء میں اور دوسری 1971ء میں۔ 1965ء کی جنگ 17دنوں میں ختم کرنا پڑی(6ستمبر 1965ء تا 23ستمبر 1965ء) اور 1971ء کی جنگ میں ہمارا دفاعی راشن پانی صرف 13دنوں (3دسمبر 1971ء تا 16دسمبر 1971ء) تک چل سکا۔ یہ ”راشن پانی“ ہم نے بیرونی ممالک سے منگوا کر سٹور کیا ہوا تھا۔ انڈیا کا بھی یہی حال ہے۔ لیکن آج انڈیا دفاعی پروڈکشن میں کفالت کی طرف بڑھ رہا ہے اور ہمارا اس سے کوئی مقابلہ نہیں۔ انڈیا اب پاکستان کو نہیں چین کو اپنا حریف گردانتا ہے۔ ہم جوہری اور میزائلی قوت تو ضرور بن گئے لیکن یہ قوت محض ڈیٹرنس (ڈراوا) ہے۔ اگر ہماری کبھی کسی دوسرے ہمسائے سے جنگ ہوئی بھی تو یہ جوہری ڈیٹرنس بس ڈراوا ہی رہے گا!…… آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا……

یہ سطور قارئین کی حوصلہ شکنی کے لئے نہیں لکھی جا رہیں۔ بتانا یہ ہے کہ یوکرین کی آبادی ساڑھے تین کروڑ ہے اور وہ تین برس سے دنیاکی دوسری بڑی سپرپاور (روس) سے نبردآزما ہے۔ اس کی اسلحہ ساز فیکٹریاں بھی دن رات چل رہی ہیں اور دوسرے یورپی (اور امریکی) ممالک بھی اس کو دھڑا دھڑ اسلحہ برآمد کررہے ہیں۔ روس۔ یوکرین کی یہ جنگ عرصہ تین سال سے زیادہ مدت پر پھیلی ہوئی ہے۔ اب تک طرفین کے لاکھوں سولجر اور سویلین اس جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ لیکن یوکرین کو ناٹو ممالک کی طرف سے جو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم ہو رہا ہے، یوکرینی سولجرز اس کو استعمال کرکے روس کو بھی اتنا ہی جانی نقصان پہنچا چکے ہیں جتنا روس، یوکرین کو پہنچاچکا ہے……یعنی چوٹ برابر کی ہے۔ روس کے ’شعلے‘ سے یوکرین کے شرارے کا الجھنا (اور تین سال سے زیادہ مدت تک الجھے رہنا) بڑاتعجب خیز ہے۔

لیکن جنگوں میں صرف گولہ بارود اور چھوٹے بڑے ہتھیار ہی کام نہیں آتے۔ ان ہتھیاروں کے باعث ماحول کی جو تباہی دیکھنے کو ملتی ہے، وہ حیرت انگیز بھی ہے اور حسرت ناک بھی……

جیسا کہ باور کیا جا رہا ہے، امریکی صدر ٹرمپ کی مداخلت سے یہ روس۔ یوکرین تنازعہ شاید آنے والے چند ہفتوں میں ختم ہو جائے۔ لیکن توپوں، ڈرونوں، بارودی سرنگوں اور میزائلوں سے جو بربادی اس سرزمین کا مقدر بن چکی ہے وہ آنے والے کئی برسوں تک بھی برقرار رہے گی۔ یوکرین، روس کے بعد، یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس پر جو بربادی اس جنگ کی وجہ سے وارد ہو چکی اس کے اثرات شاید آنے والے کئی عشروں تک بھی برقرار رہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی، پولینڈ اور اردگرد کے ممالک میں 6سالوں میں جو تباہی مچی اس کو امریکہ نے دو تین برسوں ہی میں ختم کر دیا تھا۔ لیکن اگر یوکرین میں یہ جنگ بند بھی ہو گئی تو اس کی زمین، اس کی بندرگاہوں (بحیرۂ اسود اور بحیرۂ آزوف) اور اس کی آب و ہوا کی تباہی کو معمول پر آنے کے لئے کئی برس درکار ہوں گے۔

ذرا تصور کیجئے کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی آبادیوں کے بڑے بڑے شہروں، ریلوے سٹیشنوں اور بندرگاہی علاقوں پر نہ تو انڈیا نے حملے کئے اور نہ پاکستان نے انڈیا کے ان اثاثوں کو ٹارگٹ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اب تک اس بربادی کا تصور نہیں کر سکتے جو جدید جنگوں میں طرفین پر وارد ہو جاتی ہے۔ آج اگر ہماری بجلی بھی چند گھنٹے تک بند ہو جائے تو ہم بلبلا اٹھتے ہیں۔ تصور کیجئے اگر یہ بجلی کے کارخانے اور پانی کے ذخائر جنگ کی نذر ہو جائیں تو ہمارا کیا بنے گا؟ (اور انڈیا کابھی کیا بنے گا؟)…… یہی وجہ ہے کہ بھارت اور پاکستان، جدید جنگوں کی ہمہ گیر بربادی کے تصور سے جنگ پر امن کو ترجیح دیتے ہیں …… ذرا یوکرین کی بربادیوں کا تذکرہ پڑھیں۔ ہزاروں ڈرون، سینکڑوں میزائل اور درجنوں توپوں اور ٹینکوں کے گولے اگر پاک۔ بھارت فضاؤں پر برس جائیں تو ہمارا (اور بھارت کا) کیا حال ہوگا؟

یوکرین سے جو خبریں انگلش میڈیا پر آ رہی ہیں ان کے مطابق یوکرین کی صنعت اور زراعت تقریباً تباہ ہو چکی ہے۔ یہ محض ناٹو ممالک کی ہلہ شیری اور امداد ہے جو زیلنسکی کو جنگ بند کرنے سے روک رہی ہے۔اگر آج روس کی طرف سے یورپی ممالک پر حملے شروع ہو جائیں تو یہ ”غیر جوہری“ جنگ ”جوہری جنگ“ کی بربادیوں اور تباہ کاریوں سے کم نہیں ہوگی!

آج یوکرین کے میدان ہائے جنگ کا حال یہ ہے کہ وہاں کی زمینوں میں توپوں کے گولوں سے پڑنے والے گڑھوں کی تعداد، لاتعداد ہو چکی ہے، تمام فضا زہرآلود ہے اور بارود کی بُو یوکرین کے طول و عرض میں پھیل چکی ہے۔ زمین دوز رہائشی علاقوں کو میڈیا پر دکھا کر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ یوکرینی آبادیاں ”زیرِزمین“ منتقل ہو چکی ہیں۔ لیکن زیر زمین ہسپتال، سکول، بازار اور ذرائع آمد و رفت وغیرہ تو ایک عارضی اور کمتر مدت کے سامان ہیں۔ یوکرین کب تک ان کو برداشت کرے گا؟

یوکرین کی جنگ اب چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہے۔(یہ فروری 2022ء میں شروع ہوئی تھی)…… آپ تصور کریں کہ اگر پاکستان کو اس طرح کی جنگ چار ماہ تک بھی لڑنی پڑتی تو ہمارا حشر کیا ہو جاتا؟…… دوسری عالمی جنگ کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ سرزمینِ یورپ نے 6برس تک (1939ء تا 1945ء) جنگ کی بربادیوں کے مناظر نہ صرف دیکھے بلکہ اپنے اوپر وارد ہونے کا ”نظارا“ بھی کیا۔ یہ نظارا اگر اس روس۔ یوکرین جنگ کو مزید تین سال دیکھنا پڑا تو یہ گویا دوسری عالمی جنگ کے 6سالہ دور کا ایک چھوٹا ورشن (Smaller  Version) بن جائے گا…… اللہ اس طرح کی صورتِ حال سے دنیا کو بچائے رکھے!

مزید :

رائے -کالم -