یونیورسٹی آف گجرات میں پروفیسر راج موہن گاندھی کی آمد

یونیورسٹی آف گجرات میں پروفیسر راج موہن گاندھی کی آمد

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سرحدیں اگر ملکوں اور قوموں کے مابین خط تمیز اور لکیر کی صورت میں رہیں تو بجا، مگر یہی سرحدیں اگر تلوار کی صورت اختیار کر جائیں تو پھر انسانیت کا قتل عام اور اخلاقی اقدار مجروح و پامال ہو جاتی ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مختلف اوقات میں رونما ہونے والے واقعات کی صورت گری کی تعبیریں مختلف اور متنوع انداز سے ہوتی رہی ہیں۔آج دنیا بہت ترقی یافتہ ہو چکی ہے ۔ ٹیکنالوجی کی جدت نے فاصلوں کو کم اور اطلاعات کی ترسیل کو وسیع تر کر دیا ہے ۔ مانا کہ 1947ءمیں ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم نے بڑے بکھیڑے اور الجھنیں ڈالیں، لاکھوں لوگوں کو دربدر ہونا پڑااور لاکھوں ہی کو اپنی قیمتی جانیں قربان کرنا پڑیں۔ 1947ءکی مہاجرت تاریخ کے اوراق کا حصہ بن چکی۔ ماضی اگرچہ گھمبیر سہی، مگر حال کو خوشگوار اور مستقبل کو امید افزا بنانے کے لئے بہت کچھ بھلا کر تجدید تعلقات کرنا ہی پڑتی ہے ۔ مذہب چاہے جدا ہیں، مگر سرحد کے دونوں جانب بسنے والے لوگوں کا خمیر ایک ہی مٹی سے اٹھا ہے ۔ دونوں ہی دکھ درد کو عام انسانوں کی طرح محسوس کرتے ہیں۔
دنیا چونکہ اب ایک گلوبل ویلج کی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہے ، اس لئے ہمیں بھی سرحد کے دونوں جانب بسنے والے لوگوں کے تعلقات کو Revisit کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ دنیا پاکستان اور ہندوستان کو ہمسایہ ملک کہتی ہے ۔ پنجابی میں ایک کہاوت ہے ”ہمسایہ ماں جایا“۔ اگر سرحد کے دونوں جانب رہنے والے لوگ ایک دوسرے کے بھائی نہیں بھی بن سکتے تو کم از کم انہیں ایک دوسرے کا اچھا ہمسایہ بن کر ضرور رہنا چاہیے۔ کہتے ہیں اتفاق میں برکت ہے۔ دونوں قوموں نے 1947ءسے لے کراب تک سر پھٹول کر کے ایک دوسرے کا بہت کچھ بگاڑ لیا، مگر اب وقت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم دونوں ہمسائے آپس میں مل کر ایک دوسرے کے مسائل کا ادراک کرنے کی کوشش کریں۔ سرحد کی دونوں جانب بسنے والے عام آدمی کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں کیا کر رہی ہیں، اسے تو امن اور رزق کی تلاش ہے۔ اس کی آنکھیں تو اس انتظار میں سوکھ گئی ہیں کہ شاید کوئی باد صبا چلے اور اس کی امیدوں کے دامن کو خوشیوں کی فراوانی سے بھر دے۔
اِسی امید اور یقین کی شمع 9 دسمبر کو یونیورسٹی آف گجرات میں بھی روشن ہوئی۔ یونیورسٹی آف گجرات THAAP اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اشتراک سے پنجاب کی ثقافتی اساس، آرٹ اور آرکیٹکچر کے موضوع پر تین روزہ تھاپ کانفرنس 2013 کا لاہور میں اہتمام کیا گیا۔ کانفرنس کے چوتھے روز گجرات کی ثقافت پرسیشن کا خصوصی انتظام یونیورسٹی آف گجرات میں کیا گیا، جس کی صدارت ممتاز م¶رخ، سوانح نگار، محقق، ہندوستانی راجیہ سبھا کے سابق ممبر اور مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی نے کی۔ راج موہن گاندھی پاکستان اور ہندوستان کے عوام کے باہمی پیار اور ریاستی تعلقات میں مفاہمت کے لئے مسلسل کوشاں ہی نہیں، بلکہ 11ستمبر کے واقعہ کے بعد مغرب اور دنیائے اسلام میں خلیج کو کم کرنے کے لئے بھی کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھے ہوئے ۔ حال ہی میں ان کی نئی کتاب ”پنجاب، اورنگزیب سے ماﺅنٹ بیٹن تک“ شائع ہو کر شہرت عام حاصل کر چکی ہے، یعنی اس کتاب میں غیر منقسم ہندوستان کے 240 سال کی داستان رقم ہے۔ اس کتاب کی تقریب رونمائی ہندوستان اور پاکستان میں کی گئی۔ اس تناظر میں پاک و ہند تعلقات اور پنجاب کی ثقافت کے حوالے سے ان کے خیالات تاریخ فہمی کا نتیجہ ہیں، اس لئے نہایت پختہ اور حقیقت پسندانہ ہیں۔

پروفیسر راج موہن گاندھی اپنی شریک حیات مسز اوشا راج موہن ،ڈاکٹر امیت رانجن، ریسرچ سکالر ایشا ٹھاکر پروفیسر ساجدہ حیدر ونڈل، پروفیسر پرویز ونڈل کے ہمراہ جامعہ گجرات پہنچے تو سوہنی کے شہر کی محبت و الفت کی روایات کے مطابق انہیں وائس چانسلر ڈاکٹر نظام الدین نے جی آیاں نوں کہا۔ ہندوستان سے آیا ہوا وفد کانفرنس ہال میں پہنچا تو رجسٹرار ڈاکٹر طاہر عقیل، ڈائریکٹر ایڈمن صاحبزادہ فیصل خورشیدو شیخ عبدالرشید نے والہانہ استقبال کیا۔ پنڈال میں آمد پر فضا پُرزور تالیوں سے گونج اٹھی۔ کانفرنس کے افتتاحی کلمات میں رئیس الجامعہ ڈاکٹر نظام الدین نے گجرات کی ثقافتی تاریخ کے حوالے سے علمی گفتگو کے بعد کہا کہ راج موہن گاندھی کی دانش گاہ گجرات میں آمد قابل فخر اور لائق مسرت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہم ہمسائے بدل نہیں سکتے۔ ہمسایوں سے امن و محبت کے ساتھ رہنا تاریخی حقیقت ہے ، جسے نظر انداز کر کے ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا ۔
پروفیسر خالد ہمایوں، ڈاکٹر اظہر چودھری، پروفیسر ساجدہ حیدر ونڈل، رجسٹرار ڈاکٹر طاہر عقیل نے بھی پاک و ہند تعلقات میں بہتری اور بھائی چارے کو جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی ترقی کی کلید قرار دیا ۔ راقم الحروف نے پروگرام میں نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے راج موہن گاندھی کے خیالات، تحریروں اور مزاج کے حوالے سے گفتگو کی اور کہا کہ راج موہن گاندھی ہندوستان اور پاکستان کے عوام کے نبض شناس اور صلح جوئی کے پیامبر ہیں ۔ ہندوستان کی مایہ ناز ناول نگار کرشنا سوبتی کا تعلق بھی گجرات سے تھا، ان کے آباءکڑیانوالہ کے قریب واقع گاﺅں جلالپور صوبتیاں سے تعلق رکھتے تھے اور وہ بازار صرافہ گجرات میں بھی قیام پذیر رہیں۔ ان کا ناول ”زندگی نامہ“ گجرات اور تقسیم سے پہلے کے پاک و ہند میں ہندو مسلم تعلقات میں رواداری ، محبت اور باہمی میل جول کا عکاس ہے۔ ہمیں اپنی اس بیٹی پر فخر ہے، جس نے دنیا میں ہندوستان کا نام روشن کیا۔ پروفیسر راج موہن گاندھی کو مَیں نے جب مائیک سنبھالنے کی دعوت دی تو سارا ہال ان کے احترام میں کھڑا ہو گیا اور دیر تک استقبالیہ تالیوں سے گونجتا رہا۔ اس پر مہمان مقرر بھی جذباتی ہو گئے ۔ ان کی حالت اور محبت بھی دیدنی تھی۔ فضا، جس طرح پاک و ہند کے تعلقات کی عکاسی کر رہی تھی، خدا کرے حکمرانوں اور ریاستوں کے تعلقات بھی ایسے ہی ہو جائیں اور یہ خطہ امن کی آشا کا مثالی نمونہ بن جائے۔
پروفیسر راج موہن نے کہا ....پاکستان کے عوام امن ، سکون اور بھائی چارے سے محبت رکھنے والے لوگ ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کی تہذیب و ثقافت میں کئی عنصر مشترک ہیں۔ سرحد کے دونوں جانب عوام کا خمیر ایک ہی دھرتی سے اٹھا ہے ۔ دونوں دیسوں کے باسیوں میں کئی دُکھ، درد اور چوٹیں مشترک ہیں۔ اگر سرحد کی دونوں طرف کے باسی ایک دوسرے کے دُکھ ، درد اور آہیں سننے کو تیار ہو جائیں تو اس خطے میں امن و سکون پیدا ہو سکتا ہے۔ مجھے یونیورسٹی آف گجرات آکر بے حد خوشی اور اطمینان ہوا ۔اہل گجرات ہمیشہ سے محبت کرنے والے اور دُکھ درد میں انسانیت کی خدمت کرنے والے لوگ ہیں۔ میری تمنا یہی ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے لوگ ماضی کی غلطیوں کو بھلا کر انسانیت کی خدمت کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے لوگ بولتے زیادہ ہیں، سنتے کم ہیں۔ میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کو زیادہ سننا ہو گا تاکہ مسائل کا فہم بہتر ہو اور معاملات حل ہو سکیں۔ تقریب کے بعد وفد نے شہر میں واقعہ تاریخی مقام اور تقسیم کے پہلے کے گجرات میں ہندوﺅں اور مسلمانوں میں یکساں مقبول لالہ کیدار ناتھ سے منسوب عمارتوں کیدار ناتھ مینشن اور رام پیاری محل کا نظارہ کیا، جہاں جامعہ گجرات کے ڈائریکٹر میڈیا شیخ عبدالرشید نے تاریخی عمارتوں کے حوالے سے بھرپور بریفنگ دی ۔ رام پیاری محل میں دانش گاہ گجرات کے صاحبزادہ فیصل خورشید اور چودھری اختر وڑائچ نے محبت و خلوص سے پُرتکلف لنچ کا اہتمام کر رکھا تھا جس پر مہمانوں نے اظہار تشکر کیا .... پروفیسر راج موہن گاندھی کے دورہ¿ گجرات یونیورسٹی میں میزبانوں اور مہمانوں کے درمیان باہمی پیار اور احترام دیکھ کر مجھے شدت سے احساس ہوا کہ بر صغیر کے اس مشترکہ ورثے کی کھوج لگانے اور اسے شیئر کرنے کی جرا¿ت اور بیان کرنے کی ہمت کی اشد ضرورت ہے ، وہ ورثہ جو تقسیم سے پہلے موجود تھا ۔ مشترکہ ورثے کی رودادیں کہنے، سننے اور سنانے کے قابل ہیں۔ انہی یادوں کے چراغ جلا کر تعصب، نفرت اور دشمنی کے اندھیرے مٹائے جا سکتے ہیں ۔ یہ بات واضح ہے کہ اگر پاکستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش نقشہ عالم پر تین خود مختار اور آزاد ریاستوں کے طور پر رہ سکتے ہیں، تو اپنی جداگانہ حیثیتوں میں اپنے گزرے ماضی پر فخر کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری خواہش اور آرزو امن کی آشا ہے، اس کے لئے مشترکہ ثقافت کی یادوں سے معمور طبقہ اپنے تجربات سنائے اور ہم سنیں، اسی طرح دونوں ممالک انسانیت کی خدمت کر سکیں گے ۔

مزید :

کالم -