پاکستان کے میزائل پروگرام پر امریکی پابندیاں
امریکہ نے پاکستان کے میزائل پروگرام پر مزید پابندیاں لگانے کا اعلان کر دیا ہے۔ پاکستان نے بلاتاخیر اس امریکی پالیسی پر اپنا ردعمل دے دیا ہے اسے متعصبانہ قرار دے کر مسترد کر دیاہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے جاتے جاتے ایک ایسا سٹرٹیجک حکم جاری کیا ہے جو شاید ان کا مینڈیٹ ہی نہیں تھا۔ 20جنوری 2025ء کو ٹرمپ انتظامیہ کی حکومت قائم ہو گی اس طرح چند ہفتوں کی حکومت نے اتنا بڑا فیصلہ کر دیاجو پاک امریکی تعلقات کومتاثر کر سکتا ہے۔ یہ فیصلہ کیوں کیا گیا، اس کا پس منظر کیاہے، ایسا کرنے کی جلدی کیوں تھی؟ کیا پاکستان اس خطے کو ریورس کرانے کی پوزیشن میں ہے، کیا اس حکم نامے سے پاکستان کے جاری ایٹمی اور میزائل پروگرام پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، ایسے سوالات کا جواب آنے والے دنوں میں تلاش کیاجائے گا۔ تبصرے ہوں گے لیکن کئی باتیں بڑی حد تک واضح ہیں اور کچھ واضح ہو رہی ہیں ضرورت کھلے دماغ کے ساتھ سوچنے سمجھنے کی ہے۔
ایک بات تو طے ہے کہ عرب و عجم کے مسلمانوں کے خلاف امریکی اسٹیبلشمنٹ کی دشمنی ظاہر ہو چکی ہے۔ ہمارے یہاں غوروفکر کرنے، پڑھنے، سمجھنے اور پھر تدبر کرنے کا رواج نہیں ہے۔ یہودی ایک عرصے سے گریٹر اسرائیل کے قیام و تعمیر کے لئے کوشاں ہیں۔ اڑھائی ہزار سالوں سے وہ عذاب الٰہی کا شکار ہیں ان کا کعبہ یعنی ہیکل سلیمانی نیست و نابود ہے وہ غریب الوطن ہیں دنیا میں بکھرے ہوئے ہیں انہوں نے صدیوں تک اپنی سرزمین موعود لوٹ جانے اور اپنے مرکز میں زندگیاں گزارنے کا خواب دیکھا اسی خواب کو دیکھتے دیکھتے یہودیوں کی کئی نسلیں آئیں اور گذر گئیں یہ دنیا کے جس خطے میں بھی گئے انہیں نہ صرف ذلت بلکہ ہلاکت کا سامنا کرنا پڑا۔ عیسائی دنیا نے انہیں قاتلِ مسیح ابن مریم کے طور پر اپنی نفرت و حقارت کا شکار کیا انہیں قتل و غارت گری کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے اپنی سرزمین کے خیال کو کبھی بھی اپنے دل و دماغ سے محو نہیں ہونے دیا۔ یروشلم مرکز ریاست اسرائیل ان کی مناجات کا حصہ رہا انہوں نے برطانیہ میں بیٹھ کر عیسوی تعلیمات کو بگاڑا۔ توحیدی مذہب کے عقائد میں ٹرینیٹی یعنی اقانیم ثلاثہ (خدا، بیٹا اور روح القدس) کا ٹانکا لگایا۔ مذہب کے خلاف عیسائیت کے خلاف مہم چلائی۔ معاشرت، معیشت اور اخلاقیات کو ڈرکائم،کارل مارکس اور سگمڈفرائڈ کے مسموم نظریات کے ذریعے تباہ کیا۔ یہ تینوں عظیم فلاسفر یہودی الاصل تھے تینوں نے الگ الگ موضوعات پر تحقیقات کا ڈول ڈالا لیکن تینوں ایک ہی طرح کے نتائج تک پہنچے کہ انسان رذیل مخلوق ہے حیوانیت سے مملو ہے ڈارون نے تو نوع انسانی کو بندر کے ساتھ ملا دیا تھا۔ذرا غور کریں یورپی و مغربی دنیا کے عیسائی صدیوں تک یہودیوں کو ملعون قاتلِ مسیح قرار دے کر تعدیب کا نشانہ بناتے رہے، حتیٰ کہ دوسری جنگ عظیم تک انہیں عیسائی دنیا میں کہیں جائے امان میسر نہیں تھی لیکن پھر کیا ہوا کہ یہودیوں کے خلاف ایک بھی لفظ کہنا قانوناً جرم قرار دیا گیا اس سے کچھ ہی دیر پہلے 1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ لارڈ باالفور نے لارڈرتھ چائلڈ کو یہودی ریاست کے قیام کے لئے تعاون کا یقین دلایا۔ چند سو الفاظ پر مشتمل یہ خط لکھنے والا برطانوی وزیرخارجہ بھی یہودی تھا اور لارد رتھ چائلڈ عالمی یہودی کمیٹی کا صدر تھا۔ اس خط کو تاریخ میں باالفور ڈیکلریشن کہا جاتا ہے یہی ڈیکلریشن 1948ء میں یہودی ریاست اسرائیل کے قیام کا باعث بنا۔ پھر امریکہ نے اسے مضبوط بنانے کا ذمہ لیا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ امریکہ کے طاقت کے تمام اعصابی مراکز صیہونی قیادت کے قبضے میں ہیں یہ بہت بڑا موضوع ہے کہ صیہونی کس طرح امریکہ پر غلبہ پاکر پوری دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں۔
صیہونی دنیا کی سپرپاور امریکہ پر اپنی گرفت کے ذریعے دنیا کے مالی، سیاسی اور معاشرتی معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق تشکیل دے رہے ہیں۔ ریاست اسرائیل کے قیام کے بعد ایک ایک دن گریٹر اسرائیل کے قیام اور عالمی صیہونی حکومت کی تشکیل میں صرف کیا جا رہا ہے۔ دنیا میں جاری جنگیں اور آتش و آہن کی فراوانی یہودیت کی دنیا کے خلاف دشمنی و سازش کا بین ثبوت ہے۔ کچھ عرصہ سے جس یہودی سازش کا ذکر کیا جاتا تھا اب وہ ایک حقیقت کی صورت میں نظر آ رہی ہے۔ صیہونیت نے صلیبی دنیا پر غلبہ پالیا ہے عیسیٰؑ بن مریم ؑکے خالص توحیدی پیغام کو ملیہ میٹ کیا جا چکا ہے۔ اقوام مغرب مکمل طور پر صیہونی سازش کا شکار ہو کر اپنی اصلیت کھوچکی ہیں۔ دوسری طرف عالم عرب کے خلاف صیہونی سازش اب کھل کھلا کر عربوں کو تگنی کا ناچ نچوا رہی ہے۔ غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ہے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ کیا یہ یہودی صیہونی عزائم کی خبر نہیں دیتا، عربوں کے بازوئے شمشیرزن اخوان کہاں ہیں؟ مصر کا عسکری طنطنہ کیا ہوا؟ عراق، تیونس وغیرہ میں کیاہوا؟ لبنان کے حزب اللہ کچھ بھی نہیں۔ بلند بانگ دعوے اور عملاً نتیجہ صفر۔ ایران کی بھی ایسی ہی حالت ہے۔ ملک شام کھنڈر بن چکا ہے۔ باقی کسی عرب ملک میں اتنی بھی سکت نہیں کہ اپنے مظلوم عرب بھائیوں کے لئے موثرآواز بلند کرسکے۔
عالم اسلام میں صرف ایک طاقت پاکستان ہی باقی بچی ہے جو اپنی تمام تر خامیوں، کوتاہیوں اور کمزوریوں کے باوجود اپنے مقام پر آب و تاب کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔پاکستان کو کمزور کرنے اور اس کے دانت کھٹے کرنے اور اس کی طاقت سلب کرنے کی باقاعدہ مہم تو کئی سال پہلے شروع کی جا چکی تھی اس بارے میں ہمارے ایک آرمی چیف نے بتایا تھا کہ پاکستان کے خلاف ففتھ جنریشن وار شروع کی جا چکی ہے۔ یہ جنگ اب کھل کھلا کرہمارے سامنے آ چکی ہے۔ اس کے منفی اثرات نہ صرف ہماری معاشرت، سیاست اور معیشت پر دیکھے جا سکتے ہیں بلکہ سفارتی سطح پر بھی اس کے اثرات نظر آ رہے ہیں۔پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم اور عمران خان کے مریدین جو سوشل میڈیا کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں وہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کے خلاف مصروف عمل ہیں۔ پاکستان کی دفاعی صلاحیت ناقابلِ تسخیرہے۔ پاکستان ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ایک طاقتور فوجی طاقت کا حامل ملک ہے اس پر روایتی جنگ مسلط کرنا ناممکن ہے لیکن اس کے میزائل پروگرام پر پابندی عائد کرنے کا مقصد اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ اس کی سٹرائیک پاورکو کمزور کیا جائے۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر کا بیان کہ ”پاکستانی میزائل امریکی اہداف کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں“ لغو اور قطعاً جھوٹ ہے پاکستان کا سارا دفاعی نظام بھارت کے جارحانہ عزائم کا مقابلہ کرنے کے لئے ہے امریکہ ہمارا دوست ہے ہم اسے نشانہ بنانے کا کیوں سوچیں گے لیکن مشیر صاحب کے اس بیان کو سنجیدگی سے لینا چاہیے ایسا لگتا ہے کہ امریکہ پاکستان پر دفاعی پابندیاں لگانے کے لئے اس قسم کے بیانات دے کر فضا قائم کررہا ہے۔ اندرون ملک عمرانی فتنہ بھی پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے کاوشیں کررہا ہے۔ حالیہ امریکیوں پابندیوں کے بارے میں تحریک انصاف خوش ہے وہ امریکہ کے اس فعل کے بارے میں کچھ نہیں کہتے بلکہ وہ تو ”ٹرمپ کی آمد“ کے ایسے بھی منتظر ہیں جیسے یہودی اپنی مسیحائی آمد اور عیسائی اپنے مسیحا کی آمد ثانی کے منتظر ہیں۔ پاکستان اپنی جوہری صلاحیت کے باعث بھی نہیں بلکہ 24کروڑ آبادی اور اس میں 67فیصد جوان آبادی اور اہم جغرافیائی پوزیشن کے باعث عالمی سیاست میں اہم عامل کی حیثیت رکھتا ہے۔