لیاقت علی خان اور ریاستی طاقت

 لیاقت علی خان اور ریاستی طاقت
 لیاقت علی خان اور ریاستی طاقت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 جب پاکستان وجود میں آیا تو اس کو بے شمار ابتدائی مشکلات تھیں جس کو حل کرنے کے لیے قائداعظم اور لیاقت علی خان نے ان تھک محنت کی لیکن گولی سے وہ اس دنیا سے چلے گئے پھر پاکستان کے ساتھ کیا کیا ہوا اور کیا ہو رہا ہے یہ ہم سب جانتے ہیں بے نظیر کے قاتل ابھی تک نہیں ملے عمران خان پر حملہ ہوا اور سابق وزیر اعظم کی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی یعنی اس ملک میں وزیراعظموں کو بھی انصاف نہیں مل سکا تو عوام کے ساتھ کوئی کچھ بھی کر لے کوئی پوچھنے والا نہیں ملک کس سمت کی طرف جا رہا ہے اور سیاست دان کیا کردار ادا کر رہے ہیں یہ بھی آپ کے سامنے ہیں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان بھارت کے صوبے اتر پردیش میں یکم اکتوبر 1895 کو پیدا ہوئے آپ نے 1913 میں علی گڑھ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی  1918 میں قانون سیاسیات اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں  1919 میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اعلیٰ  تعلیم حاصل کی آپ 1923 میں وطن واپس آئے اور سیاست میں حصہ لینے لگے  انھوں نے انگریز حکومت کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف ہونے والے ناروا سلوک کے خلاف جدو جہد شروع کر دی تھی آپ آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوگئے  وہ 1926 میں مسلم حلقہ مظفر نگر سے ممبر اتر پردیش قانون ساز اسمبلی منتخب ہوئے اور پارلیمانی سیاست کا آغاز کیا   1932 میں اتر پردیش قانون ساز اسمبلی کے نائب صدر منتخب ہوئے   1940 تک اتر پردیش قانون ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہوتے رہے قرار داد لاہور 23 مارچ 1940 کو منظور ہوئی  اس کے بعد وہ مرکزی قانون ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے آپ آل انڈیا مسلم لیگ کے 1936 کے ممبئی اجلاس میں آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے  قیام پاکستان 14 اگست 1947 تک آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی جنرل سیکرٹری رہے ان کو 1940 میں آل انڈیا مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی کا ڈپٹی لیڈر منتخب کیا گیا وہ 1945 _

1946 کے انتخابات میں میرٹھ کے حلقے سے مرکزی قانون ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور آل انڈیا مسلم لیگ کے پارلیمانی بورڈ کے چیئرمین بنائے گئے جب عبوری حکومت بنی تو اس میں مرکزی وزیر خزانہ بنے آپ نے ایک تاریخی اور غریب آدمی کا بجٹ پیش کیا  قیام پاکستان 14 اگست 1947 کے بعد آپ کو پاکستان کا پہلا وزیر اعظم منتخب کیا گیا   ملک کا انتظام چلانے کے لیے انڈیا ایکٹ 1935ء کو اپنایا، 1947 میں جب کشمیر کی آزادی کے لیے جنگ شروع ہوئی تو انھوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ معاملات کا پر امن حل نکالا جائے   اس سلسلے میں بھارتی ہم منصب سے بھی بات کرنے کی کوشش کی اور اقوام متحدہ کی کوششوں سے مسئلہ کشمیر کو پر امن طریقے سے حل کرنے پر اتفاق کیا  1949 میں کشمیر میں جنگ بندی ہوئی اور فیصلہ کیا گیا کہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی آزاد اور غیر جانبدار رائے شماری  (استصواب رائے) سے فیصلہ کیا جائے گا جس پر آج تک عمل درآمد نہ ہو سکا،?  مئی 1950 میں  امریکہ کا دورہ کیا، آپ سے جب امریکہ نے کہا کہ آپ کوریا جنگ میں امریکہ کی حمایت میں پاکستانی فوجی دستے بھجوائیں تو انھوں نے انکار کر دیا اور واضح اشارہ دیا کہ ہم آزاد رہ کر کام کر رہے ہیں، انھوں نے بھارت کے خلاف سخت پالیسی اپنائی جب بھارت نے پاکستان کی سرحد پر اپنی فوج لگانے کا اعلان کیا تو آپ نے مکا لہرا کر اس کا جواب دیا? جب پاکستان اور ہندوستان اپنی آزادی کے ابتدائی 3 سالوں میں دوسری جنگ لڑنے والے تھے اس وقت آپ نے نہرو سے ملاقات کر کے لیاقت نہرو معاہدہ پر دستخط کیے، قائد اعظم کے انتقال کے بعد آپ نے گورنر جنرل کا عہدہ نہیں سنبھالا بلکہ مشرقی پاکستان کے خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل پاکستان بنایا گیا،   ملک میں اسلامی نظام کے قیام کی پالیسی اپنائی جس کی بنیاد پر 1949 میں قرار داد مقاصد منظور ہوئی   انھوں نے 1951 میں جنرل ایوب خان کو پاکستان آرمی کا پہلا مقامی کمانڈر انچیف بنانے کی منظوری دی،  16 اکتوبر 1951ء کو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم قائد ملت لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کردیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق قائد ملت لیاقت علی خان شام کو تقریباً پونے چار بجے کمپنی باغ راولپنڈی میں ایک جلسے سے خطاب کرنے کے لیے پہنچے تو  ہزاروں افراد ان کی تقریر سننے کے لیے پہلے ہی سے جلسہ گاہ میں جمع تھے۔ تلاوت کلام پاک کے بعد شیخ مسعود صادق‘ چیئرمین بلدیہ راولپنڈی نے سپاسنامہ پیش کیا۔ سپاسنامہ کے بعد راولپنڈی مسلم لیگ کے صدر  محمد عمر نے وزیر اعظم کو خطاب کی دعوت دی۔ نوابزادہ لیاقت علی خان نے ڈائس پر پہنچ کر ابھی برادران ملت کے الفاظ ہی اپنی زبان سے ادا کیے تھے کہ سید اکبر نامی شخص نے ان پر ریوالور سے گولیاں برسانا شروع کردیں۔ دو گولیاں وزیر اعظم پاکستان کے سینے میں اترگئیں اور وہ ڈائس پر گرگئے۔ وزیر اعظم کو فوری طور پر فوجی ہسپتال پہنچایا گیا مگر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے، ان کے آخری الفاظ تھے ”خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔“ شہید ملت لیاقت علی خان کے قاتل سید اکبر کو پولیس کے ایک سب انسپکٹر محمد شاہ نے گولیوں سے اڑا دیا اور یوں شہید ملت کے قتل کا راز ہمیشہ کے لیے ہی دفن ہو کر رہ گیا،  اگلے روز 17 اکتوبر 1951ء کو شہید ملت لیاقت علی خان کو قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار کے احاطے میں دفن کردیا گیا۔ حکومت پاکستان نے شہید ملت کے قتل کے اسباب کی تحقیقات کے لیے دو خصوصی کمیشن بھی تشکیل دیے مگر وہ دونوں کمیشن بھی سوائے اس کے کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے کہ لیاقت علی خان کا قتل سید اکبر کا انفرادی فعل تھا _لیاقت علی خان کا قتل ہماری قوم کے لیے سوالیہ نشان ہے اور یہ ایسی طاقتیں ہیں جو تب سے اب تک کام کر رہی ہیں لیکن ہم ان کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں شائد ہمارے اعصاب اب کام نہیں کرتے یا ہم بول نہیں سکتے ہیں اس کا جواب عوام کے پاس ہے۔

مزید :

رائے -کالم -