ایک بار دو صدمے۔شاہینوں کی شکست اور ساتھی کی وفات!

فتح کے لئے تو ساری قوم دُعا مانگتی ہے اور بلاشبہ میدان میں اُترے کھلاڑیوں کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی ٹیم کے لئے بہتر کھیل پیش کریں اِس لئے کسی کی نیت اور ارادے پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں،تاہم اِس امر کو بھی پیش نظر رکھنا ہو گا کہ میدان میں کس ٹیم کی حکمت عملی زیادہ اچھی ہے اور جذبے کا کیا عالم ہے۔ چیمپئنز ٹرافی شروع ہونے سے قبل جب سہ ملکی مقابلہ ہوا اور نیوزی لینڈ کی ٹیم میدان میں آئی تو واضح ہو گیا تھا کہ نیوزی لینڈ اس مرتبہ نہ صرف یہ کہ آسان حریف نہیں،بلکہ ان کی ٹیم کمبی نیشن سے واضح ہوا کہ وہ یہ عالمی مقابلہ جیتنے کے لئے تیار ہو کر آئے ہیں اور پھر انہوں نے یہ ثابت بھی کر دیا کہ ٹورنامنٹ کے پہلے ہی میچ میں دفاعی چیمپئن پاکستان کو60رنز سے ہرا کر فاتحانہ آغاز کر دیا۔
سہ ملکی سیریز کے دوران میں نے عرض کیا تھا کہ مقابلے میں اُترنے والی آٹھوں ٹیموں میں سے نیوزی لینڈ بہت ہی متوازن ٹیم ہے اور اس کے پاس آزمودہ آل راؤنڈر سب ٹیموں سے زیادہ ہیں،چنانچہ میچوں کے دوران نیوزی لینڈ والوں نے ثابت بھی کر دیا کہ وہ ایک متحد ٹیم ہیں۔
پاکستان میں عالمی سطح کے کسی ٹورنامنٹ کے لئے پاکستانیوں کو29سال انتظار کرنا پڑا اور اب اس کا موقع آیا تو انتظامات بھی شایانِ شان کیے گئے۔ کراچی اور لاہور کے دونوں سٹیڈیم کی تعمیرنو کر کے ان کو عالمی معیار کے مطابق بنایا گیا اور راولپنڈی سٹیڈیم کی تزئین نو کی گئی۔ یوں دِل کھول کر خرچ کیا گیا،اس چیمپئنز شپ کا آغاز بھی ہوم ٹیم کے میچ سے کیا گیا کہ یہ بھی ایک اعزاز ہے۔افتتاحی تقریب ایک کی بجائے دو ہوئیں۔لاہور کے شاہی قلعہ کی تقریب ایک یادگار رہی کہ دیوان عام میں مغلیہ دور کا سا سماں بنا دیا گیا،لاہور میں موجود تمام غیر ملکی کھلاڑی اور آفیشل بھی شریک ہوئے، آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹو بھی مہمانانِ خصوصی میں شامل تھے۔یہ بڑی رنگا رنگ تقریب تھی، جس میں میوزک کا تڑکا بھی شامل تھا اور پھر بدھ کے روز کراچی میں بھی پُرجوش تقاریب منعقد کی گئیں، حتیٰ کے پاک ایئر فورس کے ایف16جیٹ طیاروں نے مظاہرہ کر کے شائقین کے دِل جیت لئے، شائقین نے بھی بھرپور شرکت کی حتیٰ کہ صدرِ مملکت آصف علی زرداری بھی میچ دیکھنے آئے،ان کے ساتھ ان کی صاحبزادی اور خاتونِ اول آصفہ بھٹو زرداری بھی تھیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی اور مینجمنٹ کمیٹی کا دعویٰ تھا کہ ملک میں موجود ٹیلنٹ میں سے اپنے طور پر بہترین کھلاڑیوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اگرچہ اوپنر صائم ایوب کی کمی نے شدت سے احساس دلایا تاہم سلیکشن کمیٹی اور نئی انتظامیہ نے کسی اوپنر کو شامل کرنے سے اجتناب کیا اور ٹیم میں لوئر آرڈر پر کھلاڑی بھرنے کی کوشش کی۔ طیب، خوشدل اور فہیم اشرف پر مستند سابق کھلاڑیوں اور تجزیہ نگاروں نے احتجاج کیا اور مخالفت کی۔ سب کا خیال یہی تھا کہ صائم ایوب کی جگہ امام الحق اور حیدر آباد کے نوجوان کھلاڑی شرجیل کو شامل کیا جانا چاہئے تھا، لیکن سلیکشن کمیٹی اور انتظامیہ نے بھی بات پر کان نہ دھرے، جب صائم کی جگہ بابر سے اوپننگ کرانے کا فیصلہ ہوا تو بھی ماہرین کی رائے مختلف تھی اور میں نے بھی عرض کیا تھا کہ بابر اعظم پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے اِس لئے اسے آزمائش میں مبتلا نہ کریں، بلکہ اس کو پانچویں نمبر پر کھلائیں کہ وہ اپنی فارم کو تلاش کر سکے، لیکن ایسی کسی تجویز پر کان نہ دھرا گیا اور بابر اعظم ہی کو اوپننگ کے لئے بھیجا گیا اور ساتھ ہی اسے وکٹ پر جم کر ٹھہرنے کی ہدایت کی گئی اور کہا گیا کہ وہ ایک اینڈ کو سنبھالے رکھے یہ اس کے مزاج کا کام نہیں تھا اور وہ نہیں کر سکا۔
توقع تھی کہ شاہین جب اپنے ملک میں ہوم گراؤنڈز پر میدان میں اُتریں گے تو وہ بہتر پرفارم کریں گے اور اپنے ٹائٹل کا دفاع بھی کر سکیں گے،لیکن ہوا اِس کے برعکس اور کراچی میں ہماری ٹیم نے اوسط درجہ کی ٹیم کا کھیل پیش کیا اور اپنا ہی میچ ہار گئے۔ عوام کی مایوسی کا یہ عالم تھا کہ بابر کے آؤٹ ہوتے ہی سٹیڈیم خالی ہونا شروع ہو گیا تھا۔ کراچی کے میچ کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ نیوزی لینڈ نے زمینی حقائق کا زیادہ بہتر ادراک کیا، ٹیم آفیشلز نے جو حکمت عملی مرتب کی اس میں فیلڈنگ میں واضح بہتری نظر آئی، غور کریں تو قارئین! آپ کو بھی نظر آ جائے گا کہ نیوزی لینڈ والوں نے پاکستان کے ہر کھلاڑی کے کمزور اور مضبوط پہلو کا بھرپور دھیان رکھا اور فیلڈ اسی کے مطابق کھڑی کر کے بیٹر کے راستے بند کئے۔ بابر اعظم کے لئے خصوصی اہتمام کیا کہ (آف سائیڈ) پر چار کھلاڑیوں کا ایک ایسا دائرہ بنایا کہ بابر اعظم کے لئے اپنے مخصوص علاقے میں کور ڈرائیور کھیلنے کا موقع نہ دیا اور بابر کی طرف سے جب بھی مخصوص شارٹ کھیلی گئی تو فیلڈر وہاں موجود تھا اس طرف فیلڈ کرنے والے چوکس بھی بہت تھے اور انہوں نے بابر اعظم کو گیند نکالنے کا موقع ہی نہ دیا اور وہ زیادہ ڈاٹ کھیل جانے کی وجہ سے زچ ہوئے اور پھر اتھلی شارٹ کھیل کر پویلین واپس لوٹ گئے،ان کی یہ ففٹی بھی کسی کام نہ آئی۔اگر پورے میچ پر نظر رکھیں تو صاف نظر آئے گا کہ نیوزی لینڈ کے باؤلرز اور فیلڈرز کے درمیان ہم آہنگی پائی جاتی تھی اور ٹیم نے زیادہ آل راؤنڈر ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور ایک فیورٹ ٹیم کو ہرا کر قیمتی دو پوائنٹ سمیٹ لئے اب پاکستان ٹیم کا سفر زیادہ مشکل ہو گیا اسے باقی میچ بڑے مارجن سے جیتنا ہوں گے اگرچہ اگلا ہی میچ مشکل ہے بھارت سے کھیل میں جذبہ بھی ہوتا ہے، لیکن کھلاڑیوں کی فٹنس اور رات کا کھانا مل کر کھانے کا اب مزہ ہی نہیں رہا۔آج بھارت بنگلہ دیش کے ساتھ مقابلہ سے آغاز کرے گا تو اس ٹیم کی صلاحیت بھی سامنے آ جائے گی ہم تو پھر بھی دُعا کرتے ہیں کہ اللہ کرے جذبہ ہو اور جذبہ ہی بھارت کی ٹیم پر فتح یاب ہو۔
غلام سرور چل بسے
صبح کی ضروری مصروفیات نمٹا کر موبائل کھولا تو ایک اور صدمے کا سامنا تھا، ہمارے روزنامہ ”پاکستان“ کے دیرینہ ساتھی غلام سرور کے انتقال کی اطلاع تھی ان کا ہمارا ساتھ تو دیرینہ تھا تاہم گزشتہ قریباً پانچ سال سے ایڈیٹوریل صفحہ کے ساتھ وابستگی نے یہ سلسلہ روزمرہ کا بنا دیا کہ وہ اس صفحہ کے مہتمم تھے اور ہم مضامین کی تراش خراش کرتے اور وہ ان کو جوڑ کر صفحہ کی شکل دیتے، کم گو اور دھیمے لہجے کے بہتر تعلقات والے اور اپنے کام کے ماہر تھے۔ اگرچہ فالج کے باعث کافی دیر سے علیل چلے آ رہے تھے،لیکن وفات کی اچانک اطلاع سے صدمہ ہوا،ان کے لئے اب دُعائے مغفرت ہی کی جا سکتی ہے،اچھے شریف اور محنتی کارکن تھے، اخبار سے دیرینہ وابستگی تھی۔