عورت:کانچ بھی !فولاد بھی!
ربع صدی سے زائد عرصہ میں نے صحافت میں گزارا ہے۔ اب بھی صحافت ہی اوڑھنا بچھونا ہے۔ خبر، اس کاحصول اور اس کی چھان پھٹک خون میں رچ بس گئی ہے۔ اس مشغلے کی طویل مسافت میں میں تلخ و شیریں تجربات اور حیران کن مشاہدوں سے گزری ہوں۔ پرتعیش ضیافتوں، اعلیٰ تقریبات و مجالس اور نت نئے فیشنوں کی دنیاؤں سے لے کر روکھی سوکھی روٹی، تنگ و تاریک گلیوں میں اندھیرے گھروں اور افلاس زدہ چہروں پر پھیلی کربناکی تک سبھی تصویروں کو بغور دیکھا اور خوب جانچا ہے۔ رب العزت نے شعور کو بینائی دی تھی اس لئے چیزوں کو ویسے ہی دیکھا جیسی کہ حقیقت میں وہ تھیں۔
ہمارے ملک میں معاشرے کے ترقی نہ کرنے کی ایک اہم وجہ ہماری عورتوں کا ناخواندہ اور غیر تعلیم یافتہ ہونا ہے۔ نپولین نے درست کہا تھاکہ مجھے پڑھی لکھی مائیں دو، میں تمہیں ایک بہترین اور ترقی یافتہ قوم دیتا ہوں۔ ہمارے چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر دیہاتوں اور قصبوں میں خواتین کی حالت ایسی ہے جسے کسی بھی صورت تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان کی سوچ و فکر محدود اور ان کا دائرہ کار مختصر ہے۔دن کے آغاز سے لے کر رات گئے کام کاج تک وہ ایک لگے بندھے نظام الاوقات سے جڑی ہوئی ہیں۔ وہ جگہیں جہاں پانی کم یاب ہے، عورتیں گھڑے سروں پر اٹھائے میلوں کا سفر طے کرتی ہیں اور پانی گھروں کو لا کر خاندان کی ضرورتیں پوری کرتی ہیں۔ ایسا صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں، ہر اس جگہ ہے جہاں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ ہندوستان، افریقہ اور مشرق وسطی کے بہت سے ایسے مقامات ہیں، جہاں پانی کے حصول کے لئے متحرک خواتین ہمیں دکھائی دیتی ہیں۔
مشرق وسطیٰ، افریقہ، جنوبی امریکہ وغیرہ میں دیہاتوں، قصبوں اور صحراؤں کی عورتیں جفاکش اور محنتی ہیں۔طلوعِ آفتاب سے قبل ان کا کاروبارِ حیات شروع ہوتا ہے اور غروب آفتاب تک وہ کولہو کے بیل کی طرح اپنے روزمرہ کے کاموں کے گرد گھومتی رہتی ہیں۔ ان کا لباس ان کی ضرورتوں اور ان کے کام کاج سے میل کھاتا ہے، ان کا فیشن ان کے ماحول کی طرح سادہ اور خفی ہوتا ہے اور ان کی تعلیم مظاہر قدرت سے حاصل ہونے والے اسباق کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ان عورتوں کی زندگی کی قلمبندی جب ہم ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں تو بڑی انوکھی، دلچسپ اور دلفریب دکھائی دیتی ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ چند دن ایسی زندگی ہمیں گزارنی پڑے تو جان کے لالے پڑ جائیں۔ اس لئے قابلِ تحسین و ستائش ہیں یہ عورتیں جو زندگی کے ساتھ پنجہ لڑاتی ہیں اور فتح یاب ہوتی ہیں۔
آج کے خواتین ایڈیشن کا موضوع میں ان عورتوں کے نام کرنا چاہتی ہوں جو گمنامی میں پیدا ہوتی ہیں، اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے زندگی کے تقاضوں کو کماحقہ، ادا کرتی ہیں اور گمنامی ہی میں رزقِ خاک بن جاتی ہیں۔ پانی کے مقامات تک ان کا سفر اور واپسی ان کی ریمپ واک (Ramp Walk) ہوتی ہے اور ان کی گھریلو مصروفیات ان کا شوبز، ایک جہان ہے ان عورتوں کا جہاں ہم جیسے لوگ سن سکرین کریم کے بغیر پل بھر ٹھہر نہیں سکتے اور جہاں ریت ملے موٹے آٹے کی روٹی ہمارے حلق سے نیچے اتر نہیں سکتی۔ ایک سورج کی روشنی تلے اس کرۂ ارض پر کتنے ہی ایسے خطے ہیں کہ جہاں بسنے والوں کے بارے میں سوچیں تو ذہن میں جھنجھناہٹ ہونا شروع ہو جاتی ہے۔