صفدر علی چودھری مرحوم (1941۔2018ء)

صفدر علی چودھری مرحوم (1941۔2018ء)
صفدر علی چودھری مرحوم (1941۔2018ء)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

13جنوری2018ء کو اسلامک پبلی کیشنز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس جاری تھا کہ عزیزم مدثر ابن صفدر علی چودھری کا فون آیا۔ میں نے فون سنا تو مدثر نے اطلاع دی ’’چچا جان! ابوجی کا انتقال ہوگیا ہے۔ میں نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر پوچھا: ’’کس وقت؟

‘‘ اس نے بتایا کہ طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ ہم منصورہ ہسپتال لے کر آئے، مگر پہنچتے ہی ابوجی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اب ہم میت لے کر واپس محافظ ٹاؤن جارہے ہیں۔


مجلس میں موجود تمام رفقا صفدر علی صاحب کے بہت قریبی دوستوں میں سے تھے۔ جناب چودھری محمداسلم سلیمی، جناب لیاقت بلوچ، جناب امیرالعظیم، جناب میاں محسن فاروق، جناب طارق محمود اور جناب جاوید سبھی غم زدہ ہوگئے اور مرحوم کے لئے سب کے لبوں پر تحسین وتعریف کے الفاظ کے ساتھ دعائیہ کلمات آگئے۔

اسی وقت محسن فاروق نے بتایا کہ ابھی ابھی اطلاع آئی ہے کہ اوکاڑہ میں بزرگ رکن جماعت علی حسین کا بھی انتقال ہوگیا ہے۔ مجلس میں مرحومین کے لئے دعائے مغفرت کی گئی۔ اسی روز بعد نمازِ عشاء دونوں مرحومین کا جنازہ پڑھا گیا اور وہ اپنے چاہنے والوں کو غمزدہ چھوڑ کر ابدی نیند سوگئے۔


مرحوم بھائی صفدر علی صاحب کے ساتھ کم وبیش باسٹھ، تریسٹھ سال سے بہت ہی قریبی تعلق تھا۔ ان کے بارے میں تفصیلی مضمون ان شاء اللہ جلد لکھوں گا۔ اس وقت فوری طور پر برادرِ مکرم کے بارے میں جناب حافظ محمد ایوب بزرگ رکنِ جماعت اسلامی نے اسلام آباد سے ایک خط بھیجا ہے اور فرمایش کی ہے کہ یہ خط اور صفدر علی چودھری مرحوم کا ایک انٹرویو جس کی فوٹو کاپی لف ہے، اخبارات اور رسائل میں شائع کیا جائے۔


حافظ محمد ایوب بڑی پیاری شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کا صفدرعلی مرحوم اور راقم الحروف دونوں کے ساتھ بہت ہی مشفقانہ تعلق رہا ہے۔ اپنے خط میں تحریر فرماتے ہیں: ’’آج اخبارات میں مرحوم ومغفور جناب صفدر علی چودھری کی وفات کے بارے میں خبر پڑھی۔

اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مورخہ 8جولائی2012ء کو مطبوعہ صفدرعلی چودھری صاحب کا ایک انٹرویو میری فائل سے ملا۔ آپ کو بھیج رہا ہوں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ صفدر صاحب کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ نیکیوں میں برکت عطا فرمائے، خطاؤں سے درگزر فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ دعاگو۔ طالب دعا۔ حافظ محمدایوب۔‘‘


صفدر بھائی سے یہ انٹرویو ان کے ایک قدردان صحافی جناب مقصود گوہر نے 2012ء میں لیا تھا جو روزنامہ ’’نئی بات‘‘ میں بعنوان ’’میں ریٹائرمنٹ کو نہیں مانتا‘‘ 8جولائی 2012ء کو اشاعت پذیر ہوا۔ انٹرویو کے مطابق ’’صفدر چودھری جماعت اسلامی کے دیرینہ کارکن ہی نہیں بلکہ جماعت اسلامی اور ملکی سیاست کی تاریخ ہیں۔

انھوں نے اقتدار کے ایوانوں اور سیاست کی بھول بھلیوں کو قریب سے دیکھا ہے۔ شعور کی آنکھ کھولتے ہی انھوں نے اپنے آپ کو مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے حوالے کر دیا تھا۔

اس حوالے سے صفدر چودھری کا کہنا ہے: میں نے 1957ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1960ء میں ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ اس دوران ٹیچنگ کورس ’’ایس وی‘‘ پاس کیا پھر 14اکتوبر 1962ء کو اسلامی جمعیت طلبہ کی رکنیت کا حلف اٹھایا۔

1963ء میں میری شادی ہوئی۔ میرا رشتہ طے ہونے اور شادی ہونے میں مولانا مودودی کی مشاورت کا بڑا عمل دخل تھا۔


میری شادی 14اپریل 1963ء کو ہوئی۔

شادی کے بعد میں نے گریجوایشن کی۔ 1968ء میں ایم اے سیاسیات کا امتحان پاس کیا اور اسی سال جماعت اسلامی کا رکن بنا اور مجھے مرکز میں [معاون] ناظم نشرواشاعت و تعلقات عامہ مقرر کیا گیا۔ [مولانا نعیم صدیقی ناظم شعبہ تھے۔

بعد میں انھوں نے اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے ذمہ داریوں سے معذرت کی تو مجھے اس شعبے کا ناظم بنادیا گیا۔ چودھری غلام جیلانی مدیرہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ کی وفات پر مجھے اس رسالے کا انچارج بھی بنادیا گیا۔] یوں پبلک ریلیشننگ اور صحافت کا سلسلہ ایک ساتھ شروع ہوا۔ ہمارے پاس وسائل زیادہ نہیں ہوتے تھے، حتّٰی کہ اپنی ٹرانسپورٹ بھی نہیں تھی مگر میری ذمہ داری کا تقاضا تھا کہ متحرک ہو کر کام کیا جائے چنانچہ 18سو روپے میں عطاء الحق قاسمی سے سیکنڈ ہینڈ ہنڈا 50 خریدا گیا۔

سمجھ لیں کہ جماعت اسلامی [شعبہ نشرواشاعت] کے پاس یہ پہلی ٹرانسپورٹ تھی۔ میں نے مختلف حلقوں میں آنا جانا شروع کیا۔ لوگوں سے ذاتی تعلقات بنائے۔ خصوصاً صحافتی اور ادبی حلقوں سے خاصا میل ملاپ رہا۔


[میرے روابط میں] دائیں بازو والے بھی تھے اور بائیں بازو والے بھی۔ اشتراکی دوست نہیں مانتے تھے کہ میرا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ میں سمجھتا تھا محض دفتر [کے اندر] بیٹھنے سے میرے فرائض کی ادائیگی نہیں ہو گی۔

اس لئے میں نے متحرک ہونے کا فیصلہ کیا۔ سینئر صحافیوں میں سے کوئی صحافی ایسا نہیں ہو گا جس نے میری موٹرسائیکل پر سفر نہ کیا ہو۔ ابتدائی دنوں میں جماعت اسلامی کا دفتر ذیلدارپارک اچھرہ میں ہوتا تھا۔

مولانا مودودی جماعت اسلامی کے امیر تھے جبکہ میاں طفیل محمد سیکرٹری جنرل تھے۔ شعبہ خواتین میں مولانا مودودی کی بیگم جماعت اسلامی کی سیکرٹری جنرل تھیں۔ وہ زمانہ جماعت اسلامی کو تنظیمی حوالے سے مضبوط کرنے کا تھا جس کے لئے دن رات کام کرنے کی ضرورت تھی اور کام کیا بھی گیا۔ میں صبح سے رات گئے تک کام کرتا تھا۔


میرے فرائض شام چار بجے تک تھے مگر ذمہ داری کا تقاضا اور اپنے اندر کا جنون اور جذبہ تھا کہ ہم رات گئے تک متحرک رہتے تھے۔ مجھے ناظم نشرواشاعت کے طور پر مولانا مودودی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمداب سید منور حسن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔

اس دوران بہت سے تاریخی واقعات میرے سامنے وقوع پذیر ہوئے۔ بہت سی سیاسی شخصیات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ مجھے سعودی عرب، بنگلہ دیش، ایران اور افغانستان جانے کا موقع ملا اور پھر لائن آف کنٹرول کے اندر چند قدم اپنے شہید بیٹے مظفر نعیم کے ساتھ گیا۔

مولانا مودودی میرے پہلے امیر جماعت تھے۔ 1960ء سے 1972ء تک میں نے ان کے ساتھ کام کیا لیکن جب ان کی امارت ختم ہوئی تو انھوں نے مجھے بلا کر کہا کہ باقی شعبوں سے تو آج میرا تعلق ختم ہو گیا کیوں کہ نئے امیر جماعت میاں طفیل محمد آ گئے لیکن شعبہ نشرواشاعت کا میں مستقل امیر ہوں اور جب تک میں دنیا میں ہوں، ہر ہفتے آپ نے آنا ہے اور اپنے شعبے کی رپورٹ مجھے دینی ہے۔

[مولانا کی ہدایت کے مطابق] میں ہر ہفتے ان کے ہاں حاضر ہوتا رہا اور ہر ہفتے کی جماعت کی اہم خبروں اور دیگر سرگرمیوں کا خلاصہ بیان کرتا رہا۔ 1979ء میں مولانا سید مودودی کا انتقال ہوا تو یوں سمجھیے کہ اس وقت تک وہی میرے امیر رہے۔

پھر میں نے میاں طفیل محمد صاحب اور ان کے بعد قاضی حسین احمد صاحب کے ساتھ کام کیا۔ مجھے بھٹو مخالف تحریک میں صحافتی فرائض ادا کرتے ہوئے شدید تشدد کا نشانہ بنا کر اپریل 1977ء میں کوٹ لکھپت جیل لاہور میں [کئی ہفتوں تک ] غیر قانونی طور پر نظر بند رکھا گیا۔

وفاقی انجمن صحافیان (پی یو ایف جے) کے صدر محترم نثار عثمانی کی خصوصی ذاتی کوششوں سے رہائی ملی۔ جیل سے مجھے سیدھا میوہسپتال میں امراض قلب کے وارڈ میں چار دن تک زیر علاج رکھا گیا۔‘‘


ایک سوال کے جواب میں اپنی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے چودھری صاحب نے کہا: ’’مولانا مودودی ریٹائرمنٹ کو نہیں مانتے تھے اور نہ ہی میں مانتا ہوں۔ مولانا مودودی کا کہنا تھا کہ آدمی کو آخری سانس تک متحرک رہنا چاہیے۔

میں ان کی سوچ سے اتفاق کرتا ہوں۔ لہٰذا ریٹائرمنٹ کے باوجود اسی طرح متحرک ہوں۔ اسی طرح جماعت کے لئے کام کر رہا ہوں، گو کہ میری ایک آنکھ کی بینائی متاثر ہو چکی ہے مگر میں نے اسے کبھی مسئلہ نہیں بنایا۔ مجھے کہیں بھی آنا جانا پڑے بلاتردد پہنچ جاتا ہوں۔

ریٹائرمنٹ سے یہ فرق پڑا ہے کہ اب [کسی حد تک] گھر کو بھی توجہ دینے کا موقع ملا ہے۔ پہلے تو میری بیگم کو بھی پتا نہیں ہوتا تھا کہ میرے دفتری اوقات کیا ہیں۔ انھیں منصورہ جاکر پتا چلا کہ ہمیں شام چار بجے چھٹی ہو جاتی ہے۔

یہ معلوم ہونے کے بعد انھوں نے اپنے ردعمل کا اظہار بھی کیا مگر پھر انھیں بھی حسب سابق حالات سے سمجھوتہ کرنا پڑا البتہ ریٹائرمنٹ کے بعد کبھی کبھی اس طرح کی بھی صورتحال ہوتی ہے کہ ’’پہلے گھر آتے نہیں تھے اب گھر سے جاتے نہیں ہیں‘‘ لیکن ایسا کبھی کبھار ہوتا ہے۔ میرے آج بھی پہلے جیسے معمولات ہیں۔‘‘


ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا: ’’میں اپنی گزری ہوئی زندگی سے پوری طرح مطمئن ہوں۔ ہر طرح سے ساتھ دینے والی بیوی ملی۔ سعادت مند اور فرمانبردار اولاد ملی۔

پوری زندگی پورے خلوص کے ساتھ دین اسلام کے لئے کام کیا۔ کشمیر میں جہاد کرتے ہوئے میرا بیٹا شہید ہو گیا، اس سے زیادہ اطمینان اور کیا ہو سکتا ہے کہ میں ایک شہید کا باپ ہوں۔‘‘ (روزنامہ ’’نئی بات‘‘، 8جولائی2012ء)


صفدر بھائی کے اس ذاتی انٹرویو میں بہت سی باتیں قارئین تک پہنچ جائیں گی جو ان کے جاننے والوں کے لئے ہرگز نئی نہیں ہیں۔ مرحوم کے بارے میں ان کے قریبی احباب کے سینوں میں اتنی یادیں موجزن ہیں کہ اگر جمع کی جائیں تو ضخیم کتاب بن جائے۔

ان شاء اللہ مرحوم کے بارے میں مزید بھی لکھا جائے گا۔ ان کے جنازے کے موقع پر کئی احباب کو روتے ہوئے دیکھا جو اس بات کی علامت ہے کہ مرحوم لوگوں کے دلوں میں بستے تھے۔ اب جسمانی لحاظ سے چلے گئے، مگر روحانی طور پر اب بھی احباب کے ساتھ ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -