بلدیاتی انتخابات کروانے میں کیا امر مانع ہے؟

بلدیاتی انتخابات کروانے میں کیا امر مانع ہے؟
بلدیاتی انتخابات کروانے میں کیا امر مانع ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پاکستان کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ جمہوریت ہمیشہ کمزور اور لولی لنگڑی رہی ہے۔ ہمارے سیاستدان(جب مقتدر قوتوں کے منظور نظر نہیں رہتے تو) اکثر جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں۔ کبھی ڈکٹیٹروں کے گلے کرتے نظر آتے ہیں، تو کبھی عوام کی جمہوریت مخالف سوچ کا رونا روتے ہیں، لیکن کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتے کہ جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لئے انہوں نے خود کیا اقدامات کئے ہیں اور جمہوریت کو کمزور کرنے میں ان کا خود کتنا ہاتھ ہے؟…… چونکہ جمہوریت ایک نظام حکومت ہے، جو جمہور کی رضا کے زیر اثر بنتا ہے اور اس نظام کی جو عمارت ہے، وہ کئی ستونوں کے سہارے کھڑی اور مضبوط ہوتی ہے۔ ان ستونوں میں ایک مرکزی ستون بلدیاتی نظام ہے، جس پر جمہوریت کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے، کیونکہ یہ بلدیاتی نظام ہی ہے

جو جمہوریت کی نرسری ہے، جس سے نکل کر ملکی سطح تک قیادت ابھرتی ہے۔ بلدیاتی نظام عوام کو نچلی سطح پر بااختیار بناتا ہے،بلدیاتی نمائندے نچلی سطح کے مسائل کو اجاگر کرتے اور تعمیراتی فنڈز کی ترجیحات کا تعین کرتے ہیں۔ عوام کو موقع ملتا ہے کہ وہ اردگرد کے لوگوں میں سے اپنے نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ 4 یا 5 برس کے دورانیہ میں ایک کی بجائے دو انتخابات منعقد ہوتے ہیں، جس سے سیاسی کلچر پروان چڑھتا اور جمہوریت مضبوط ہوتی ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں جتنی بھی سول یا جمہوری حکومتیں آئی ہیں، ان میں سے نہ تو کسی نے کوئی بہت اچھا بلدیاتی نظام دیا ہے، نہ بلدیاتی انتخابات تسلسل سے کروائے ہیں۔ یہاں تک کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے زیرک عوامی لیڈر کے دور میں،جن کا نعرہ ہی عوام کو اختیارات دینا اور ان کو نچلی سطح پر طاقت پہنچاتا تھا، تب بھی بلدیاتی انتخابات کرانے سے گریز کیا گیا۔


پاکستان میں بلدیاتی نظام اور انتخابات صرف ڈکٹیٹروں کے ادوار میں ہوتے رہے ہیں۔ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے بلدیاتی انتخابات کروائے اور مختلف بلدیاتی نظام دیئے۔ ان میں پرویز مشرف نے ایک اچھا بلدیاتی نظام دیا تھا، لیکن میاں نواز شریف کی سول حکومت نے آکر اس کو ختم کیا،پھر نئے نظام کے تحت بلدیاتی انتخابات(عدالتی دباؤ کے تحت) کروائے۔ ابھی ان کی آدھی مدت ہوئی تھی کہ موجودہ حکومت نے اس بلدیاتی نظام کو بدل کر نئی قانون سازی شروع کر دی اور بلدیاتی اداروں کو ختم کر دیا، بلدیاتی نمائندوں نے اس کے خلاف عدالت میں رٹ کر کے نئے انتخابات کو موخر کروا رکھا ہے، جو ہنوز جاری ہے۔ آنے والی حکومتیں جب تک پچھلی حکومتوں کے اقدامات کو یکسر ختم کر کے ننی پالیسیاں بناتی رہیں گی، ملک میں سیاسی استحکام کیسے پیدا ہو سکے گا؟ ……اب ذرا پاکستان کے زیر انتظام چلنے والے حساس خطے آزادکشمیر کی طرف آتے ہیں۔ جہاں 1985ء سے بغیر کسی وقفے کے جمہوری حکومتوں نے انتقال اقتدار کیا ہے، لیکن کسی بھی حکومت نے 1991ء میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے بعد آج تک بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے۔ اندازہ کیجیے کہ اس حساس خطے میں 29 برس سے بلدیاتی انتخابات ہی نہیں ہوئے اور بلدیاتی نظام ہی نہیں ہے۔ ضلعوں اور ٹاون کمیٹیوں میں سیاسی بنیادوں پر اپنے ایڈمنسٹریٹر لگا رکھے ہیں، جن کے پاس نہ تو اختیارات ہیں، نہ بہت زیادہ فنڈز ان کو دیئے جاتے ہیں۔ ان کا کام لوکل ٹیکس اکٹھے کرنا اور دفتری اخراجات کرنا ہے۔


چیئر مین اور چیف افسر سرکاری گاڑیوں اور پروٹوکول سے تو محظوظ ہوتے ہیں،مگر وزراء کی اجازت کے بغیر نہ تو کسی کو کوئی فنڈ دے سکتے ہیں، نہ کوئی تعمیر و ترقی کر سکتے ہیں۔ آزادکشمیر ایک حساس خطہ ہے اور یہاں نچلی سطح پر لوگوں کو بااختیار نہ بنانا عوام کے اندر اضطراب پیدا کر رہا ہے۔ 29 برس سے اس حساس خطے کو پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے زیر اثر حکومتوں کے ذریعے مرکز سے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ کسی گاؤں، شہر یا محلے میں نالی بنائی جانی ہو یا گلی، کسی کو بجلی کا ٹرانسفارمر چاہیے ہو یا کھمبا، اس کی منظوری مظفرآباد سے ہوتی ہے اور متعلقہ ایم ایل اے یا وزیر ہی اس کی منظوری لے کر اپنے سپورٹر کو دیتا ہے۔ اس طرح آدھی سے زیادہ آبادی بنیادی حقوق سے محروم رہتی ہے۔ اب جموں و کشمیر عوامی اتحاد نے بلدیاتی انتخابات کروانے کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ہم کچھ ہفتے سوشل اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے اس مہم کو جاری رکھیں گے، اگر پھر بھی حکومت نے اس طرف توجہ نہ دی تو احتجاج کی کال دی جائے گی۔ اس کالم کے توسط سے وزیراعظم پاکستان عمران خان کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ مقبوضہ کشمیر کو تو آپ بھول چکے، کم از کم آزادکشمیر پر تو کوئی توجہ دیں۔ یہاں لوگوں میں اضطراب ہے،بھارت کی آئے روز کی دھمکیوں اور آبادیوں پر بھاری توپ خانے سے فائرنگ نے آزادکشمیر کے لوگوں کی زندگی الگ اجیرن بنا دی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -