شاہد احمد دہلوی۔۔۔ ادیب، ابنِ ادیب، ابنِ ادیب
خواتین و حضرات! کمپیوٹر اور موبائل فون کی ایجاد اور ان کے استعمال نے ہماری زندگی میں آسانیاں بلکہ انقلاب برپا کر دیا ہے تاہم دوسری جانب بالخصوص ہماری نوجوان نسل کو اردو، اس کے مطالعہ اور اردو ادب سے بہت دور کر دیا ہے۔ اب وہ ان دو آلات سے فارغ ہوں تو جاننے کی کوشش کریں کہ اردو ادب کا دامن کتنا وسیع ہے اور اس کے مطالعے میں کتنی دلکشی ہے۔
اب اردو محض ایک مضمون تک محدود ہو کے رہ گئی ہے۔ ہمیں یہ فکر کھائے جاتی ہے کہ لوگ صوفی تبسم، ڈاکٹر عبدالسلام خورشید، زیڈ اے بخاری، صادقین اور خواجہ خورشید انور کو بھول جائیں گے۔
وہ لوگ جنہوں نے اردو ادب کی خدمت کی اور ہمارے مطالعے کے لئے ایک سمندر، ناول افسانہ شاعری اور مضامین کی شکل میں چھوڑا ہے،انہی شخصیات میں ایک بڑا نام شاہد احمد دہلوی کا ہے جنہیں اب ہم فراموش کئے جاتے ہیں۔
ان کے یوم وفات کے حوالے سے ایک کالم ان کی بے پناہ خدمات کے حضور خراج تحسین کے طور پر پیش کرتے ہیں تاکہ اردو ادب کا یہ ستارہ جگمگاتا رہے اور موجودہ نسل ان کے کارناموں سے روشناس ہو سکے۔
نامور ادیب اور ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے، معروف ادیب بشر الدین احمد کے بیٹے، شاہد احمد دہلوی ایک اعلیٰ ادبی شخصیت اور ادیب گر تھے۔
وہ بیک وقت مضمون نگار، ایڈیٹر، ماہر موسیقی، خاکہ نگار، مترجم اور تاریخ نگار تھے۔ ماہنامہ ’’ساقی‘‘ کے ایڈیٹر، پبلشر، مالک اور اس میں مضامین، خاکے، اداریئے اور حالات حاضرہ پر تبصرے اور نجانے کیا کچھ شامل کیا کرتے تھے۔ ’’ساقی‘‘ میں ان کی جان اور دلی میں ان کی روح بستی تھی۔ دلی کی تہذیب، تمدن، ثقافت، رہن سہن اور دیگر معاملات پر شاہد احمد نے جس تفصیل، دلکشی اور ہنرمندی سے لکھا ہے وہ ہمارے لئے کسی تاریخی خزانے سے کم نہیں۔
بالخصوص ان کی کتاب ’’اجڑا دیار‘‘ ہمیں دلی اور دلی کے رہنے والوں سے جس طرح متعارف کراتی ہے، شاید اس سے زیادہ جامع تاریخ اور تمدن کو کسی اور نے بیان کیا ہو، ایک بھرپور دلچسپی اور علمیت کے ساتھ۔
شاہد احمد دہلوی 22 مئی 1906ء کو دہلی میں پیدا ہوئے، اسی شہر سے بی اے آنرز کیا اور دہلی ہی سے ماہنامہ ساقی جاری کیا جو اردو ادب کی ترقی، ترویج اور فروغ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہ ماہنامہ 1930ء سے شائع ہونا شروع ہوا اور 1947ء میں ان کی پاکستان ہجرت کے بعد تک کئی سال شائع ہوتا رہا۔
اس پرچے میں برصغیر کے نامور شاعر اور ادیب اپنی تخلیقات کا شائع ہونا باعث فخر تصور کرتے تھے۔
فراق گورکھپوری نے ان کی زندگی میں ہی کہا تھا کہ ’’اس دور میں نذیر احمد تو کیا شاہد احمد بھی پیدا ہونا مشکل ہے۔‘‘ اس جملے سے دو باتیں عیاں ہیں ایک تو یہ کہ ڈپٹی نذیر احمد کی قائم کردہ روایات کو شاہد احمد پورا کر رہے تھے۔
دوسرے ان کی صلاحیتوں کے ادیب روز روز پیدا نہیں ہوتے۔
دہلی اور دہلویت کا جس قدر گہرائی سے شاہد احمد نے مطالعہ کیا اور انہیں وضاحت اور دلچسپی سے قلمبند کیا وہ انہی کا خاصا ہے۔ شاہد احمد دہلوی ’’ماہنامہ ساقی‘‘ اور دہلی، ایک ایسی تکون ہے جس میں سے کسی ایک کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔
شاہد احمد کے عہد سے بہت پہلے میر تقی میر نے دہلی کو ’’اجڑا دیار‘‘ کہہ کر ہمیشہ کے لئے مہر لگا دی تھی۔ شاہد صاحب ان کا یہ شعر بار بار پڑھتے، گنگناتے اور بہت سوز کے ساتھ گایا کرتے تھے۔ اپنی کتاب ’’اجڑا دیار‘‘ میں وہ اسی شعر سے آغاز کرتے ہیں۔۔۔
دلی جو اک شہر تھا عالم میں انتخاب
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
شاہد احمد دہلوی بڑے محنتی اور معروف انسان تھے۔ کہیں ترجمہ کر رہے ہیں، مضمون اور فیچر نگاری ہو رہی ہے، ساقی کے لئے آئے خطوط کا جواب لکھ رہے ہیں اور خاص طور پر ساقی کا اداریہ اردو ادب کی سمتیں درست کرتا اور اس دور کی ادبی تحریکوں کا عکاس نظر آتا ہے۔ ’’ساقی بک ڈپو‘‘ نے بھی اردو ادب کی بہت خدمت کی اور ڈیڑھ دو سو کتابیں شائع کیں۔
خود شاہد احمد کثیر التحریر مصنف تھے۔ دلی کی ٹکسالی زبان کے امین، ایک ادبی جریدے کے مدیر ایک عمدہ خاکہ نگار، عالمی ادب پر گہری نظر رکھنے والے اور عالمی ادب کے جواہرات کے تراجم کرنے والے، دوسری جانب موسیقی اور بالخصوص کلاسیکی موسیقی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ ان کی شخصیت دہلی کی محفلوں کی جان تھی۔ ہر روز اپنے دولت خانہ پر ادبی اور موسیقی کی محفل برپا رکھتے۔
آل انڈیا اور بعد ازاں ریڈیو پاکستان سے وابستہ سید مظفر حسین لکھتے ہیں ’’ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے صاحبِ جائیداد تھے، ادیب بھی تھے، صبح جب آپ ان سے ملنے جائیں تو عصمت چغتائی، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو اور بلونت سنگھ بیٹھے ہیں۔
اس ادبی محفل میں مختلف موضوعات پر دلچسپ گفتگو اور ادبی لطیفے ہو رہے ہیں۔ دوپہر کو جائیں تو طبلے پر تھاپ پڑ رہی ہے۔ سارنگی کے تاروں سے دلکش راگ فضا میں گونج رہے ہیں۔ امراؤ بندو خان، عثمان علی خان اور چاند خان بیٹھے ہیں۔ شاہد سارنگ گا رہے ہیں، حاضرین داد دے رہے ہیں۔
رات کو جائیں تو معلوم ہوگا کہ آل انڈیا ریڈیو سے حضرت امیر خسرو پر تقریر نشر کرنے گئے ہیں اور رات گئے جائیں تو دیکھیں گے کہ موصوف ساقی جوڑنے اور پرچے کی نوک پلک درست کرکے چھپائی کے لئے آخری شکل دے رہے ہیں۔‘‘
’’یہ آل انڈیا ریڈیو ہے‘‘ کے سلسلے وار مضامین جو ماہنامہ ’’ساقی‘‘ میں شائع ہوتے تھے، کے مطالعہ سے سنجیدہ اور باذوق قاری کو زیڈ اے بخاری مرحوم کی یادگار خودنوشت ’’سرگزشت‘‘ یاد آ جائے گی۔ مزے کی بات ہے کہ جہاں شاہد احمد نے بہت لکھا وہاں ان پر بھی بہت لکھا گیا، کتابیں، مضامین اور یہاں تک کہ پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی تحریر کیا گیا۔
23 ستمبر 1947ء کو شاہد احمد دہلی سے ہجرت کرکے لاہور آئے۔ بعد ازاں کراچی میں ڈیرہ لگایا۔ ستمبر 1948ء کو کراچی سے ’’ساقی‘‘ کا اجراء کیا اور اسی سال ریڈیو پاکستان کراچی میں ملازمت کی۔ پاکستان رائیٹرز گلڈ کی بنیاد ڈالی۔ ادبی خدمات پر آپ کو انعام 1963ء میں دیا گیا۔
کراچی آ کر ادبی خدمات کا دائرہ مزید وسیع ہو گیا۔ ریڈیو پر وہ ریڈیائی فیچرز اور موسیقی کے شعبہ کے انچارج تھے۔ انہوں نے اس شعبے کو بڑی کامیابی سے چلایا اور کلاسیکی موسیقی کے فروغ کے لئے ’’پاکستان میوزک اکیڈمی‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ کراچی میں انہوں نے ساقی کے ’’خاص نمبر‘‘ بڑی محنت اور اہتمام سے شائع کئے۔
ان کا تخلیقی ولولہ اور ادارتی ذوق دلی کے مقابلے میں بہت زیادہ چمکا۔ دلی میں ایک پہچان تھی۔۔۔ ’’میاں! یہ ڈپٹی صاحب والے ہیں۔‘‘ کراچی میں ان کا ایک نیا جنم ہوا۔ ماہنامہ ساقی کی اشاعت ان کے زندہ رہنے کا وسیلہ بن گئی جو ان کی وفات (27مئی 1967ء) تک جاری رہی۔
ڈاکٹر اسلم فرخی لکھتے ہیں کہ ’’ایک دن کراچی ریڈیو اسٹیشن جانے کا اتفاق ہوا۔ ریڈیو سمندر کے کنارے کوئنز روڈ پر خیموں میں قائم تھا۔ شاہد آخری خیمے میں بیٹھتے تھے جو موسیقی کے پروگرام کے لئے مختص تھا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک دری بچھی ہے، ایک طرف ساز رکھے ہیں، سازندے بیٹھے ہیں، چند کرسیاں ہیں اور سازندوں اور گلوکاروں کے درمیان شاہد احمد دہلوی بقول ان کے ’’اردو‘‘ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ آپ نے لکھنے کا سلسلہ بند نہ کیا۔
آپ کی مشہور کتابوں میں ’’اجڑا دیار‘‘، ’’گنجینہ گوھر‘‘، ’’بزم خوش نفساں‘‘ اور لاتعداد مضامین، تراجم، اداریئے، فیچر اور دیگر مواد اردو ادب میں کلاسیک کی حیثیت رکھتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے اردو کے نصاب میں ان کی تخلیقات شامل کی جائیں۔
آج شاہد احمد دہلوی ہمارے درمیان نہیں لیکن ان کی تحریریں زندہ ہیں اور ان میں دلی کی ٹکسالی زبان کے نادر نمونے ہمیشہ باقی رہیں گے۔ شاہد احمد لکھتے ہیں ’’اب نہ تو دہلی کی خاک پاک سے غالب و ذوق پیدا ہوتے ہیں نہ لکھنؤ میں سودا، آتش و ناسخ۔‘‘ حقیقت تو یہ ہے کہ اب کسی بھی سرزمین کی خاک سے شاہد احمد دہلوی جیسے بھی پیدا نہیں ہوتے۔