رب العالمین اور فرعون
1981ء کا تاریخی دن تھا۔فرانس کا صدر اپنی کابینہ کے ساتھ پیرس ائیر پورٹ پر کھڑا تھا، سب کی نظریں ملٹری کے خصوصی طیارے پر تھیں جو پیرس ائیر پورٹ پر لینڈ کررہا تھا۔ طیارے کا دروازہ کھلا اور اس میں سے فوجی ایک تابوت اٹھا کر باہر لائے۔ تابوت میں مصر کے سابق بادشاہ فرعون (ریمس ۱۱) کی ممی (لاش) تھی۔ اس عظیم بادشاہ کی لاش کو جب فرانس کے صدر فرانسوا میٹرانڈ اور کابینہ کے سامنے لایا گیا تو صدر سمیت سب لوگ اس کے سامنے جھک گئے اور اسے سپیشل پروٹوکول دیا گیا۔ فرانس میں ایسا شاندار پروٹوکول آج تک کسی سربراہ مملکت کو نہیں دیا گیا تھا۔…… فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں مصر کا بادشاہ تھا۔اس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ دنیا پر خود کو خدا سمجھتا تھا۔ فرعون کی ممی کو مصر سے فرانس لانے کا مقصد بھی بڑا دلچسپ ہے۔ اس ممی کو فرانس لانے میں اہم کردار پروفیسر ڈاکٹرموریس بوکائیل کا ہے۔موریس بوکائیل ایک عیسائی خاندان میں پیدا ہوا،اس نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی اور مشہور سرجن بن گیا۔ اس نے اپنی مذہبی کتابوں میں پڑھا کہ فرعون ایک ظالم حکمران تھا اور اس نے بنی اسرائیل پر بڑے ظلم ڈھائے۔یہ اس کی لاش دیکھنے مصر چلا گیا۔اس نے دیکھا کہ فرعون کی لاش کی حالت اتنی اچھی نہیں ہے، اس نے فرانسیسی صدر کو درخواست دی کہ فرعون کی ممی کو فرانس لایا جائے تاکہ اس کی شکستہ حالت کو درست کیا جاسکے۔فرانسیسی صدر نے مصر کے صدر انور السادات سے درخواست کی اور اعلیٰ سطح پر منظوری کے بعد مصر نے فرعون کی ممی فرانس بھیج دی۔حکومت فرانس نے فرعون کی ممی کو بہتر حالت میں لانے کے لئے ایک میڈیکل ٹیم تشکیل دی جس کی سربراہی ڈاکٹر موریس بوکائیل کو سونپی گئی۔
ڈاکٹر بوکائیل نے فرعون کی لاش پر ریسرچ شروع کردی۔اس نے لاش کا بغور معائنہ کیا تو اس پر نمک کے اجزا دیکھ کر اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کی موت پانی میں ڈوب کر ہوئی اور اسے جلدہی وہاں سے نکال لیا گیا تھا،لیکن اس کے لئے یہ بات انتہائی حیران کن تھی کہ لاش دوسری حنوط شدہ لاشوں کی طرح نہیں رکھی گئی تھی،بلکہ یہ سمندر سے برآمد ہوئی تھی اور اسے فوراً حنوط کردیا گیا تھا، لیکن یہ فوراً نکال کرکہاں ممی بنائی گئی، جبکہ فرعون کی موت 1225 قبل مسیح میں ہوئی اور آج صدیوں بعد بھی یہ پانی سے محفوظ برآمد ہورہی ہے اور دوسری ممیوں کی بجائے صحت مند ہے۔اس نے اپنے ٹیم ممبران سے مشورہ کیا کہ وہ فرعون کی لاش پر ہونے والی ریسرچ کو میڈیا سے شیئر کرنا چاہتے ہیں اور دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ فرعون کی موت پانی میں ڈوب کر ہوئی۔ایک ٹیم ممبر نے رازدارانہ لہجے میں کہا: ”جناب میڈیا کو ابھی فرعون کے مرنے کی وجہ نہ بتائیں، کیونکہ یہ مسلمانوں کا موقف ہے اور مسلمان اپنی مقدس کتاب قرآ ن کے حوالے سے فرعون کے مرنے کی وجہ سمندر میں ڈوب کرمرنا ہی بتاتے ہیں اور اس کی لاش عبرت کے لئے محفوظ کر دی گئی“۔ موریس بوکائیل یہ سن کر حیران ہوا اور اس نے کہا یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کیونکہ چودہ سو سال پہلے ان کی فرعون کے جسم تک رسائی نہیں تھی اور اس کی لاش دو سو سال پہلے ملی تھی۔ہم لوگوں نے جدید ترین آلات سے تحقیق کی ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ فرعون کی موت پانی میں ڈوب کر ہوئی اور لاش کو کسی جگہ ممی بنا کررکھا گیا۔مسلمانوں کی کتاب میں چودہ سو سال پہلے کیسے لکھ دیا گیا؟ٹیم ممبر نے مزید بتایا کہ قرآن میں یہی ہے کہ فرعون اپنے لشکر کے ساتھ اللہ کے نبی موسیٰ علیہ السلام کے پیچھے گیا اور سمندر برد ہوگیا اور اللہ نے اس کی لاش عبرت کے طور پر بچا دی۔
پروفیسر ڈاکٹر موریس بوکائیل یہ سن کر حیرت کے سمندر میں غرق ہوگیا، اب اس کے اندر فرعون کی موت کے ساتھ ساتھ یہ جاننے کا بھی اشتیاق پیدا ہوا کہ مسلمانوں کی مقدس کتاب میں کیا واقعی چودہ سو سال پہلے ایسے لکھ دیا گیا تھا؟ پروفیسر بوکائیل نے اپنی تحقیق میڈیا کو دینے سے پہلے اس پر مزید تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا۔اس نے انجیل اور تورات پڑھیں، لیکن اسے ایسی کوئی بات نہ ملی کہ فرعون کی لاش محفوظ تھی۔ لاش کی مرمت کے بعد اسے مصر واپس بھیج دیا گیا، لیکن پروفیسر بوکائیل کے اندر ایک ہلچل مچ چکی تھی کہ مسلمانوں کی کتاب میں کیا واقعی صدیوں پہلے یہ سب درج ہے۔ تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا کہ قرآن پاک، جو آج سے چودہ سو سال پہلے تھا، وہی آج حرف بہ حرف موجود ہے اور اس میں ترمیم نہیں کی جاسکتی، نہ کوئی نئی بات شامل کی جا سکتی ہے۔وہ جو ں جوں قرآن پر تحقیق کرتا جاتا، اس پر حیرانی کے در کھلتے جاتے۔ پروفیسر بوکائیل نے لاش بھیجنے کے بعد سعودی عرب جانے کا فیصلہ کیا، وہاں میڈیکل کے شعبے سے وابستہ لوگوں کی کانفرنس ہو رہی تھی۔اس کے لئے یہ بہت اچھا موقعہ تھا کہ وہ سعودی عالموں سے اس بارے میں اپنی تحقیق پر تسلی بخش جواب حاصل کرے گا۔اس کانفرنس میں دوسرے مذاہب کے علاوہ کافی تعداد میں مسلمان ڈاکٹر بھی موجود تھے۔بوکائیل نے وہاں فرعون کی لاش پر اپنی تحقیق کے بارے میں سب کو بتا یا اور ان سے پوچھا کہ کیا واقعی تمہاری کتاب میں اس بات کا تذکرہ موجود ہے؟وہاں شرکاء میں سے ایک نے قرآن پاک کھول کرسورۂ یونس کی یہ آئت پڑھ کر سنائی: ”آج ہم صرف تیرے جسم کو بچائیں گے تاکہ تیرے بعد لوگوں کو عبرت ہو البتہ بہت سے لوگ ہماری آیتوں سے بے خبر ہیں۔“(سورۂ، یونس آیت 92) ……
قرآن کی آیت سن کر وہ اندر سے ہل گیا اور اس نے کھڑے ہو کر اعلان کردیا کہ آج سے میں اسلام پر ایمان لاتا ہوں اور اقرار کرتا ہوں کہ اسلام سچا دین ہے اور محمدﷺ سچے نبی ہیں اور قرآن اللہ کا کلام ہے۔
پروفیسر بوکائیل نے اس کے بعد قرآن پاک کا مطالعہ شروع کر دیا اور قرآن پاک سے ان کا سینہ منور ہوگیا اور ذہن کے دریچے کھل گئے انہوں نے دس سالہ تحقیق کے بعد THE BIBLE,THE QURAN AND SCIENCE,THE HOLY SCRIPTURES EXAMED IN THE LIGHT OF MODERN KNOWLEDGE " کتاب لکھی جس میں یہ ثابت کیا کہ جو سائنسی حقائق قرآن پاک میں درج ہیں وہ کسی ایک بھی سائنسی حقیقت سے متصادم نہیں ہیں۔اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھا کہ قرآن نے دوسرے صحیفوں کو چھوڑ کر جو سائنسی شعبے قائم کئے ہیں انہوں نے مجھے ابتدائی طور پرحیرت میں ڈؑال دیا۔یہ سچ اور حق پر مبنی کتاب ہے۔پروفیسر بوکائیل قرآن کی سچائی،نبی پاکﷺکی صداقت اور اللہ کے کلام کو دیکھ کر اقرار کرنے پر مجبور ہوگئے کہ واقعی اس کائنات کا رب اللہ پاک ہے۔قارئین فرعون کی ممی کو کبھی غور سے دیکھئے۔ فرعون کی ممی دیکھ کر مجھے تو بہت حیرت ہوئی کہ کیسا احمق شخص تھا جس کے چہرے پر جھریاں پڑ چکیں تھی،سر کے بال آگے سے جھڑ چکے تھے اور چہرے پربڑھاپا نمایاں ہورہا تھا، وہ شخص خدا ہونے کا دعوے دار تھا۔جو شخص اپنا بڑھاپا روکنے پر قادر نہیں تھا،نہ سر کے بال گرنے سے بچا پایا، چہرے پر جھریاں ختم نہیں کرسکتا تھا، وہ شخص رب العالمین کے مقابلے میں کھڑا ہورہا تھا۔اللہ کی شان کہ وہ آج عبرت کا نشان بن چکا۔اس کی لاش بے بسی کا نمونہ بنی پیغام دے رہی ہے کہ اس کائنات کا رب صرف اور صرف اللہ پاک ہے۔قرآن اس کا کلام ہے اور نبی پاک حضرت محمد ﷺ اس کے سچے رسول ہیں۔دنیا میں صرف اللہ کا نام باقی رہے گا اور اس کے بندوں کو عزت نصیب ہوگی، باقی سب عبرت کے نشان بن جائیں گے۔اللہ اکبر،اللہ اکبر۔۔۔الحمد للہ رب العالمین۔