بھوک،راشن اور رمضان
اگر آپ کو اللہ تعالیٰ نے دنیاوی ثروت مندی سے مالا مال کر رکھا تو کبھی کبھی جان بوجھ کر بھوکا رہ کر دیکھیے۔آپ کو پتا چلے گا کہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی بھوک کیسی ہوتی ہے؟ بس یہی رمضان المبارک کا اصل فلسفہ ہے لیکن ہم سب رمضان المبارک میں کھانے پینے پر اتنا زور دیتے ہیں کہ اشیائے خور و نوش کی قلت ہو جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کھانے پینے کی سب چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں۔ہم تو یہ سب کچھ مہنگائی کے باوجود خرید لیتے ہیں لیکن غریبوں کو مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔پھر ہم اُن میں راشن تقسیم کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔اُن کی تصویریں بناتے ہیں۔دنیا کو دکھاتے ہیں۔اُن کی عزت نفس مجروح کرتے ہیں۔ہم لوگوں کی بھوک عارضی طور پر ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن اُن کی غربت کو مستقل طور پر ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں کرتے۔حکومتی سطح پر بھی یہی پالیسی اختیار کی جاتی ہے۔بجائے اِس کے کہ لوگوں کو غربت کی دلدل سے نکالنے کا کوئی راستہ تلاش کیا جائے، حکمران ان میں راشن کے تھیلے تقسیم کرتے ہیں اور فخر کرتے ہیں۔تقسیم اللہ تعالیٰ کی ہو تو اس میں انصاف ہوتا ہے لیکن جب تقسیم انسان کے ہاتھ میں آ جائے تو اس میں غلط بخشی کا عنصر شامل ہو ہی جاتا ہے۔
بقول انور جمال
اے قاسم اشیا! تری تقسیم عجب ہے
دستار اُنہیں دی ہے جو سر ہی نہیں رکھتے
اِن دنوں بھی حکومت کی طرف سے اربوں روپے کا راشن کم زوروں اور غریبوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔لوگوں کو مچھلی پکڑ کر دے رہے ہیں۔اُنہیں مچھلی پکڑنے کا فن نہیں دے رہے۔لوگوں کو لینا سکھا رہے ہیں۔اُنہیں یہ نہیں بتا رہے کہ وہ دینے والے کس طرح بن سکتے ہیں؟اگر کسی غریب کا بچہ پڑھنا چاہتا ہے ہم اُس کے سارے تعلیمی اخراجات کیوں نہیں اُٹھا لیتے؟ اگر کوئی پر عزم نوجوان کاروبار کرنا چاہتا ہے تو اُس کی دست گیری کیوں نہیں کرتے؟کیا اِس کا سبب یہ تو نہیں کہ غریبوں اور کم زوروں کو اپنے سامنے سر جھکائے کھڑا دیکھ کر ہمیں اپنی امارت کا احساس ہوتا ہے؟رمضان المبارک کا اصل فلسفہ تو بھوک ہے لیکن آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ اِس مہینے میں ہمارے سارے ٹی۔وی چینلوں پر صبح، دوپہر اور شام کی نشریات میں رنگ برنگ کھانے دکھائے جاتے ہیں۔لگتا ہے کہ روزے کا حاصل فقط شکم سیری ہے۔ہم بھوک کی بات کیوں نہیں کرتے؟ کم کھانے کے فائدے کیوں بیان نہیں کرتے؟پھر ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ کیا لوگوں کو بھوک صرف رمضان المبارک ہی میں لگتی ہے؟ہم باقی 11ماہ میں اُن کی بھوک کو کیوں نظر انداز کر دیتے ہیں؟ہمیں یہ احساس کیوں نہیں ہوتا کہ جب ہم ضرورت سے زیادہ کھاتے ہیں تو دراصل کسی اور کے حصے پر ہاتھ صاف کر رہے ہوتے ہیں۔
راشن کی مفت تقسیم دیکھ کر کم از کم اِس بات کا اطمینان تو ہوتا ہے کہ ابھی دردمندی باقی ہے۔ لوگوں کے دلوں میں دوسروں کی طرف دیکھنے کا حوصلہ باقی ہے۔انفرادی اور اجتماعی سطح پر دوسروں کا دکھ بانٹنے کی مسلسل کوشش ہو رہی ہے۔ملک میں لاتعداد ایسے لوگ اور ادارے موجود ہیں جو رمضان المبارک کے مہینے میں بھی دوسروں کی بھوک کو یاد رکھتے ہیں۔اُن میں سب سے نمایاں ادارہ المصطفےٰ آئی ہسپتال ہے جو لاہور کے تعلیمی بورڈ کے صدر دروازے سے متصل ہے۔لندن میں برسوں سے مقیم برادرم عبدالرزاق ساجد اور اُن کے کچھ دردمند دوستوں کا قائم کیا ہوا یہ ادارہ بظاہر تو بیمار آنکھوں کا مفت علاج کرتا ہے لیکن یہ سارا سال اُن کی بھوک مٹانے کی کوشش بھی کرتا رہتا ہے۔لاہور میں یہ ادارہ ہر روز دوپہر کے وقت سینکڑوں لوگوں کو مفت کھانا فراہم کرتا ہے۔میں نے بہت سے سفیدپوش خواتین و حضرات کو یہاں اپنی بھوک مٹاتے دیکھا ہے۔المصطفےٰ آئی ہسپتال کے ڈائریکٹر میڈیا اور ہمارے دوست محمد نواز کھرل رمضان المبارک میں ہر روز سینکڑوں روزہ داروں کی افطاری کے میزبان ہوتے ہیں۔وہ دردمندی ادیبوں شاعروں اور صحافیوں کو بلاتے ہیں اور یہ روح پرور اور شکم پرور منظر دکھاتے ہیں۔المصطفےٰ ہسپتال کی اِس غریب پروری کا میں بھی ایک گواہ ہوں۔ہر سال برادرم محمد نواز کھرل صاحب کی دعوت پر میں غریب پروری کا یہ منظر دیکھتا ہوں۔مجھے جب بھی یہاں موجود لوگوں سے ہم کلام ہونے کا موقع ملتا ہوں تو میں اُنہیں کہتا ہوں کہ اگر آپ المصطفےٰ آئی ہسپتال کے دسترخوان پر بیٹھ کر اپنی بھوک مٹا رہے ہیں تو یہ آپ پر کسی کا احسان نہیں، یہ دراصل آپ ہی کے حصے کا رزق ہے جو المصطفےٰ آئی ہسپتال کے وابستگان کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا آپ تک پہنچا ہے۔آپ کا احسان ہے کہ آپ یہاں موجود ہیں اور اِس ادارے کو نیکیاں کمانے کا موقع دے رہے ہیں۔یہ سطور لکھنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ صاحبان استطاعت جو اِس کارخیر میں حصہ لینا چاہتے ہیں اُنہیں عبدالرزاق ساجد اور محمد نواز کھرل سے رابطہ ضرور کرنا چاہیے۔
اِس سب کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا پاکستان اصل خوب صورتی سے اُس دن ہمکنار ہو گا جس دن دوسروں کے سجائے ہوئے دستر خوانوں پر بیٹھنے والے لوگ خود کفیل ہوں گے۔جب یہ نہ صرف اپنے اہل خانہ کا پیٹ خود بھرنے کے قابل ہوں گے بلکہ دوسروں کی معاونت کرنے کے بھی لائق ہو جائیں گے کیونکہ پاکستان کی بدحالی کا باعث لاکھوں کروڑوں ایسے لوگ ہیں جو ملکی ترقی اور پیداوار میں اپنا کردار ادا نہیں کر پا رہے۔ ہمارے تمام حکمران مسند اقتدار پر براجمان ہوتے ہی پہلا بیان یہ جاری کرتے ہیں: ”ہم غربت کا خاتمہ کریں گے“جبکہ سچ یہ ہے کہ غربت ایک ایسا عالم گیر عنصر ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔اگر غربت ختم ہو گئی تو ہمارے دین اسلام کے پانچویں رکن زکوٰۃ کا کیا بنے گا؟غربت کسی نہ کسی شکل میں باقی رہے گی لیکن ہم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ غریبوں کی زندگیوں میں کچھ آسانیاں لے آئیں۔یہ آسانی تبھی آئے گی جب ہم غریب طبقے کو ملکی ترقی اور پیداواری نظام کا حصہ بنائیں گے۔