ملتان میں دو نظریاتی جب گلے ملے

ملتان میں دو متحارب نظریات رکھنے والے مشترکہ دوستوں کی ملاقات ہوئی تو میں سوچنے لگا، یہ کتنی اچھی بات لگتی ہے کہ ایک دوسرے کے نظریے کو برداشت کیا جائے۔ جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنائی جائے، یہ کیا کہ بس اپنا نظریہ ہی دوسرے پر تھوپنے کے جنون میں مبتلا رہنا، لیکن پھر میں نے سوچا یہ چیزیں وقت کے ساتھ آتی ہیں، سرور و فکر کی کئی منزلیں طے کرنے کے بعد انسان یہ عرفان حاصل کرتا ہے۔ میں بات کر رہا ہوں جاوید ہاشمی اور فرخ سہیل گوئندی کی، جو مخدوم رشید میں تین گھنٹے جاری رہی اور جاری بھی رات کے اس ماحول میں جب سناٹا جاگتا ہے اور خوابیدہ یادیں عود کرآتی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ابتدائی جیالے، سفرنامہ نگار، ترقی پسند دانشور اور پاکستان میں ایک بڑے اشاعتی گھر کے روحِ رواں فرخ سہیل گوئندی بزرگ، استاد اور ایک بڑی علمی شخصیت ڈاکٹر اے بی اشرف کے جنازے میں شرکت کے لئے ملتان آئے تھے۔ ڈاکٹر اے بی اشرف بذاتِ خود بھی ایک ترقی پسند سوچ کے مالک تھے اور ضیاء الحق کے زمانے میں جب وہ شعبہ اردو بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے چیئرمین تھے، ایجنسیوں کی ان پر گہری نظر رہتی تھی۔ حتیٰ کہ جب ان کی انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں پاکستانی چیئرپر سلیکشن ہوئی تو ان کی رپورٹیں کلیئر نہیں کی جا رہی تھیں، چند مہربانوں نے اس مرحلے میں ان کی مدد کی اور وہ ترکی جانے میں کامیاب ہوئے۔ ترکی چونکہ فرخ سہیل گوئندی کا بھی ایک بڑا حوالہ ہے، یوں دونوں کے درمیان محبت اور دوستی بلکہ نظریاتی ہم آہنگی کی بنیاد پر جو تعلق پروان چڑھا وہ زندگی کے آخری دنوں تک برقرار رہا۔ اب ظاہر ہے فرخ سہیل گوئندی جو اپنی والدہ کی وفات کے صدمے میں تھے۔ یہ موقع کیسے گنوا سکتے تھے کہ اپنے مہربان دوست کے جنازے میں نہ آئیں۔ سو وہ سب مصروفیات چھوڑ کر ملتان چلے آئے۔ ڈاکٹر نجیب جمال دوسری اہم شخصیت ہیں جو لاہور سے جنازے میں شریک ہوئے۔ ان کا تعارف یوں تو ہر جگہ موجود ہے، تاہم ڈاکٹر اے بی اشرف سے ان کی محبت ایک ایسا استعارہ ہے جس کی لوگ مثالیں دیتے ہیں،جن دنوں ڈاکٹر اے بی اشرف شعبہ اردو کے سربراہ تھے، نٹ کھٹ سے ڈاکٹر نجیب جمال شعبے میں جواں سال استاد کے طو رپر موجود تھے۔ میں ان دنوں شعبے میں طالب علم کی حیثیت سے موجود تھا اور ڈاکٹر اے بی اشرف کی ڈاکٹر نجیب جمال سے محبتوں کا عین شاہد تھا۔ خیر یہ سب باتیں تو برسبیل تذکرہ آ گئیں۔ اصل بات وہی ہے جس کا میں نے آغاز میں ذکر کیا ہے۔ مجھے حیرانی تھی فرخ سہیل گوئندی نے سارا شہر چھوڑ کرپچیس کلومیٹر دور بستی بسانے والے مخدوم جاوید ہاشمی سے رات گئے ملاقات کا قصد کیوں کیا۔ ویسے تو فرخ سہیل گوئندی ایک سیلانی آدمی ہیں۔ سرِخطر مقامات کی سیاحت ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ ایسے ایسے دریاؤں کی خبر لاتے ہیں کہ جو اس زمین کے نکتے ہی نہیں اور ایسی جگہوں کا کھوج لگانے میں کامیاب رہتے ہیں جو وقت کی گرد میں دب کر معدوم ہو چکی ہیں، مگر اس کے باوجود ان کی مخدوم رشید جانے کی بے تابی حیران کن تھی۔
یہ حیرانی اس لئے بھی دوچند ہوتی کہ ملتان میں دوستوں نے ان کے اعزاز میں ایک محفل سجائی ہوئی تھی۔ جنازے پر دوستوں کی فرخ سہیل گوئندی سے ملاقات ہوئی تو مل بیٹھنے کا وقت مانگا گیا۔ قرعہ شاکر حسین شاکر کے نام نکلا کہ جب بھی وقت طے ہو دوستوں کو خبر کی جائے۔ ابھی افطار کیا ہی تھا کہ ان کا فون آ گیا۔ فوراً لاہور ہائیکورٹ ملتان بنچ کے سامنے ریسٹورنٹ پر پہنچیں۔ فرخ سہیل گوئندی بھی پہنچ رہے ہیں۔ سو سب یکے بعد دیگرے وہاں پہنچ گئے۔ شوکت اشفاق، قمر رضا شہزاد،رضی الدین رضی، شاکر حسین شاکر، نوازش علی ندیم، اظہر سلیم مجوکہ، ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا، اسرار احمد چودھری، قیصر عباس صابر، عبدالرؤف قریشی، عبدالعزیز اور دیگر احباب فرخ سہیل گوئندی کے گرد گھیرا ڈالے بیٹھے تھے۔ ادب، سماج، سفرنامے، جدوجہد اور ترقی پسند سوچ پر گفتگو کا دور چلتا رہا۔ یوں لگتا تھا رات گزر جائے گی، مگر یکدم فرخ سہیل گوئندی کو ان کے میزبان عبدالرؤف قریشی نے وارننگ دینے کے انداز میں مطلع کیا کہ جاوید ہاشمی کے گھر جانا ہے، وہ انتظار کر رہے ہیں۔ ابھی جاتے جاتے بھی گھنٹہ لگ جائے گا۔ یہ سن کر فرخ سہیل گوئندی نے شرکاء سے کہا محفل چھوڑنے کو دل تو نہیں چاہتا کہ ایسی بھرپور محفلیں کم کم ہی دستیاب ہوتی ہیں، تاہم مخدوم جاوید ہاشمی کی ناراضی کا بھی خوف دامن گیر ہے، اس لئے مجھے اجازت دیں۔ اگلی بار صرف آپ دوستوں کے لئے ملتان آؤں گا۔ سو یوں وہ ہمیں حیراں چھوڑ کر رخصت ہو گئے تاہم ان کی بے تابی سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ جاوید ہاشمی کے ساتھ ماضی و حال کے تناظرمیں ایک بڑے مکالمے کی خواہش میں مبتلا ہیں۔
آج کے نوجوانوں کو علم نہیں کہ چار دہائیاں پہلے پاکستان میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاست نہ صرف سیاسی جماعتوں میں موجود ہوتی تھی بلکہ طلبہ تنظیمیں بھی دائیں اور بائیں میں بٹی ہوئی تھیں۔ ایک کانعرہ سرخ ہے سرخ ہے ایشیاء سرخ ہے ہوتا تو دوسری کا سبز ہے سبز ہے ایشاء سبز ہے کے نعرے لگاتی۔ مجھے یاد ہے کہ ہم نے ایک تیسری راہ بھی نکالی تھی اور گورنمنٹ ایمرسن کالج میں 1978ء کے لگ بھگ ایک تنظیم بنا کے یہ نعرہ لگایا تھا۔
سرخ ہے نہ سبز ہے، ایشیاء کو قبض ہے
اس زمانے میں جو بڑے طالب علم لیڈر ہوتے تھے ان میں جاوید ہاشمی اور فرخ سہیل گوئندی کا نام سرفہرست تھا۔ جاوید ہاشمی دائیں بازو تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ اور فرخ سہیل گوئندی بھٹو ازم کے سحر میں مبتلا تھے۔ ایک طرف اسلامی جمعیت طلبہ اور دوسری طرف این ایس ایف اور پی ایس ایف متحارب ہوتی تھیں۔تشدد کا عنصر بھی در آیا تھا اور میں نے ایمرسن کالج میں جو چار سال کا عرصہ گزارا اس دوران کم از کم چار طالب علم قتل ہوئے تھے۔ سو اسی پس منظر میں جب یہ خبر ملی کہ مخدوم رشید میں سرخ اور سبز کی ملاقات ہونے جا رہی ہے تو خوشگوار حیرت ہوئی۔ اصل میں جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ایک نظریاتی آدمی کا دل بہت بڑا ہوتا ہے۔ وہ نظریاتی آدمی بنتا ہی اس وقت ہے جب اس کے اندر نظر کی کشادگی پیدا ہو جاتی ہے۔ نظریاتی آدمی کبھی مخالفین کو کچلنے کی حمایت نہیں کرے گا۔ وہ جمہوری آزادیوں اور بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بنانے پر زور دے گا۔ اگر فرخ سہیل گوئندی اور مخدوم جاوید ہاشمی میں یہ بنیادی فرق ہے کہ جاوید ہاشمی نے عملی سیاست کی، فرخ سہیل گوئندی سیاست میں نہیں آئے، تاہم دونوں نے اپنا کردار ضرور ادا کیا۔ البتہ جاوید ہاشمی سیاست کی بھول بھلیوں میں کئی بار مصلحت کا شکار ہوئے، لیکن فرخ سہیل گوئندی نے عہدوں اور مناصب سے خود کو آزاد رکھا۔ یہ دونوں ملتان میں ملے تو یہ پیغام دے گئے نظریاتی اختلافات کے باوجود مکالمے کا راستہ بند نہیں ہونا چاہیے۔