ڈاک کا تھیلا کسی مسافر، قلی یا اسٹیشن کے ملازم کے منہ پر لگ جاتا تو دن میں تارے دکھا دیتا،اور اگر ملازم تھیلا پکڑ نہ پاتاتو سپر وائزر سے بْرا بھلا سننا پڑتا 

ڈاک کا تھیلا کسی مسافر، قلی یا اسٹیشن کے ملازم کے منہ پر لگ جاتا تو دن میں ...
ڈاک کا تھیلا کسی مسافر، قلی یا اسٹیشن کے ملازم کے منہ پر لگ جاتا تو دن میں تارے دکھا دیتا،اور اگر ملازم تھیلا پکڑ نہ پاتاتو سپر وائزر سے بْرا بھلا سننا پڑتا 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:74
اگر اسٹیشن سے ڈاک کا تھیلا پکڑتے وقت آر ایم ایس کے ملازم کا ہاتھ پوری طرح باہر نہ نکلتا تو اس کا نشانہ چوک جانے کا خطرہ ہوتا تھا اور پھرتھیلا اس کے ہاتھ نہ آتا تھا۔ اور اگر وہ ترنگ میں آ کر ضرورت سے زیادہ لمبا ہاتھ باہر نکال دیتا تو اس کا جھانپڑ پلیٹ فارم پر مٹر گشت کرتے ہوئے کسی بھی معصوم سے مسافر، قلی یا اسٹیشن کے ملازم کے منہ پر لگ کر اس کو دن میں تارے دکھا دیتا تھا، یا پھروہ خود ہی کسی کھمبے یا ایسی ہی کسی آہنی یا چوبی چیز سے ٹکرا کر اپنا ہاتھ تڑوا بیٹھتا تھا۔
 اور اگر وہ کسی وجہ سے ڈاک کا تھیلا پکڑ نہ پاتا اور خالی ہاتھ شرمندگی سے دانت نکالتا ہوا واپس اندر آ جاتا تو نہ صرف اس کو اپنے سپر وائزر سے بْرا بھلا سننا پڑتا بلکہ اس کی سروس بْک میں بھی کچھ پوائنٹ کی کٹوتی کی جاتی تھی جو آگے چل کر اس کی ترقی کے لیے مشکلات کا با عث بنتی تھی۔
اسی طرح ڈاک کے تھیلے کو باہر پھینکنے میں بھی بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی تھی۔ ذرا سی بے پروائی سے اگر وہ اسے قریب ہی پھینک دیتا تو تیز رفتار گاڑی، ہوا کے دباؤ کے زیر اثر اس کو اپنی طرف کھینچ کر نیچے پٹری پر گرا دیتی اور پھراگلا پہیہ اس تھیلے کا پٹاخہ بجاتا ہوا چلا جاتا تھا۔ اور یوں تھیلے میں سے خطوط نکل کر کسی ٹوٹے ہوئے دِل کے ٹکڑوں کی طرح یہاں وہاں گرتے اور کچھ ہواؤں اور فضاؤں میں بکھر جاتے جن کو گاڑی گزر جانے کے بعدہی تلاش کرکے جمع کیا جا سکتا تھا۔
تاہم کبھی کبھار یوں بھی ہوتا تھا کہ ایسے ہی کسی حادثے کے نتیجے میں ڈاک کے تھیلے کا کوئی اتہ پتہ ہی نہیں ملتا تھا کہ کدھر سے آیا اور کدھر گیا وہ۔ محکمے والے ڈھونڈتے ہی رہ جاتے اور اس کی کوئی خبر ہی نہ ملتی تھی- پھر برسوں بعد اچانک پٹری کے قریب کسی جھاڑی یا مٹی تلے دبا ہوا یہ تھیلا برآمد ہو جاتا تھا تو محکمہ ڈاک اپنا فرض منصبی جانتے ہوئے اس تھیلے میں بند خطوط کو متعلقہ سرنامے پر پہنچا دیتا تھا، لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی تھی-
کئی برس بیتے پاکستان ٹیلی وژن نے ”رات، ریل اور خط“ کے نام سے ایک ڈرامہ سیریز نشر کی تھی۔ واقعیت یہ تھی کہ ریل کے حادثے میں ایک تھیلا جائے وقوعہ کے قریب ہی کہیں ملبے میں دبا رہ گیا تھا جو کئی سال بعد کسی طرح دوبارہ مل گیا اور وہ تمام خطوط مکاتیب الیہان کو ارسال کر دئیے گئے۔ اس ڈرامے میں تاخیر سے ملنے والے ان خطوط کے افراد کی سماجی و معاشرتی زندگی پر مرتب ہونے والے منفی و مثبت اثرات کی تمثیلیں پیش کی گئی تھیں۔اس کی ڈرامائی تشکیل نامور ہدایت کار جمیل ملک نے کی تھی اور یہ سلسلہ بہت مقبول ہوا تھا-
دوسری صورت میں اگر پلیٹ فارم پر ڈاک کا وہ تھیلا کچھ زیادہ ہی زور سے اچھال دیا جاتا تو وہ کسی مسافر کو جا لگتا تھا، اور جو آر ایم ایس کا  ملازم مستی میں آ کر پوری قوت سے یہ باہر اچھال دیتا تو یہ اسٹیشن کے دفتر کی کسی کھڑکی کا شیشہ توڑتا ہوا اندر بھی جا گرتا تھا۔
ڈاک کے تھیلے میں کتابیں اور چھوٹے پارسل وغیرہ بھی ہوتے تھے جو اس کاروائی کے دوران ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے تھے۔ جب محکمہ ڈاک اور ریلوے کو ان کے ٹوٹنے یا ان کے پچک جانے کی شکایات ایک تواتر سے ملنے لگیں تو سب سَر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ ان کا ازالہ کیسے ممکن ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -